Baseerat Online News Portal

کیاسرکاری اور آئینی ادارے کٹھ پتلیاں بن جائیں گے؟

 

اتواریہ؍شکیل رشید
عدلیہ سخت خطرے میں ہے !
سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس چلمیشور کے بعد ملک کے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے یہ گہار لگائی ہے ۔ معاملہ یہ ہے کہ چیف جسٹس پر کسی خاتون نے جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا ہے ۔ اور ایسے موقع پر یہ الزام عائد کیا ہے جب کئی انتہائی حساس نوعیت کے مقدمات کی شنوائی ہونے والی ہے ۔ چیف جسٹس نے اس معاملے میں وضاحت دےدی ہے ، اور ان کی وضاحت قبول بھی کی جانی چاہیئے، کہ ’’کچھ لوگ ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ میں حساس مقدمات کی شنوائی کروں اس لئے جب مجھ پر الزام تراشی کے لئے ان کے ہاتھ کچھ نہیں لگا تو کسی عورت کا سہارا لے کر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کردیا گیا ۔ ‘‘
چیف جسٹس پر اس طرح کے گھناؤنے الزام کو افسوس ناک ہی قرار دیا جاسکتا ہے ! لیکن اس الزا م اور چیف جسٹس کے ردعمل کے بعد عدلیہ پر منڈلاتے خطرات پھر سے سامنے آگئے ہیں ۔ ریٹائرمنٹ سے قبل جسٹس چلمیشور نے صاف لفظوں میں یہ کہا تھا کہ ’’جمہوریت خطرے میں ہے ‘‘۔ انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے کام کاج کے طریقوں پر انگلی اٹھائی تھی، ان کا اشارہ بہت واضح تھا کہ سپریم کورٹ کے کام کاج میں سرکاری مداخلت ہورہی ہے جس کے سبب سپریم کورٹ جیسے انتہائی اہم ادارے کی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے اور اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو جمہوری ڈھانچہ چرمرا جائے گا ۔۔۔ اور سچ یہی ہے کہ جب سے مودی سرکار بنی ہے ملک کے اہم آئینی اداروں میں سرکاری مداخلت بڑھ گئی ہے اور جمہوریت کے ساتھ عدلیہ کو بھی زبردست خطرات لاحق ہوگئے ہیں ۔ آئندہ ہفتے چیف جسٹس رنجن گگوئی چار اہم معاملات کی شنوائی کریں گے جن میں ایک معاملہ راہل گاندھی کے ذریعے وزیراعظم مودی کو ’چوکیدار چور ہے ‘ کہنے کا ہے ، دوسرا معاملہ وزیر اعظم نریندر مودی کی زندگی پر بننے والی فلم کی نمائش کا ہے ، تیسرا معاملہ اس الزام کا ہے کہ شارداچٹ فنڈ گھوٹالے میں مغربی بنگال پولس افسر راجیو کمار ملوث ہیں ، ایک معاملہ شہریت بل یعنی این آرسی کا بھی ہے ۔ یہ چاروں اہم معاملات ہیں۔ مودی کی زندگی پر مبنی فلم پرالیکشن کمیشن نے فی الحال روک لگا رکھی ہے لیکن الیکشن کمیشن کا یہ عمل ’ مشکوک‘ ہے کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی پر کوئی ’ روک‘ نہیں ہے ، وہ انتخابی مہموں میں چاہے جیسی اشتعال انگیزی کریں ،جیسے چاہیں ضوابطہ کی خلاف ورزی کریں الیکشن کمیشن کو کچھ نظر نہیں آرہا ہے ! اڈیشہ کی انتخابی مہم کی مثال لے لیں ، وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر کی ایک مسلم آئی اے ایس افسر محمد محسن نے تلاشی لے لی ، بس الیکشن کمیشن کو طیش آگیا اور اس نے محمد محسن کو معطل کردیا ۔ الیکشن کمیشن کے سابق سربراہ ایس وائی قریشی کے بقول یہ معطلی غیر قانونی بھی ہے اور من مانی بھی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ الیکشن کمیشن کا یہ عمل متعصبانہ بھی ہے اور جانبدارانہ بھی۔ اگر انتخابی مہموں کے دوران دوسرے سیاسی قائدین کے ہیلی کاپٹروں کی تلاشی لی جاسکتی ہے تو وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر کی کیوں نہیں لی جاسکتی ، وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں اور ان پر بھی اسی قانون کا اطلاق ہوتا ہے جو دوسروں پر ہوتا ہے ! سپریم کورٹ میں جب وزیراعظم کی زندگی پر مبنی فلم کی نمائش سے متعلق شنوائی ہوگی تو یقیناً الیکشن کمیشن کی جانبداری کا بھی ذکر ہوگا ۔۔۔ افسوس ناک بات ہے کہ ایک جمہوری ملک میں الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے پر کوئی الزام لگے ۔ مگر مودی راج میں اس ادارے کی ساکھ متاثر بلکہ شدید متاثر ہوئی ہے ۔۔۔ ٹی این سیشن ، لنگڈوہ اور ایس وائی قریشی کی سربراہی والے الیکشن کمیشن آج بھی لوگوں کو یاد ہیں ، بے حد با اثر اور طاقتور ! لیکن سنیل ارورہ کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کا دبدبہ ختم نظر آرہا ہے ۔ یہ مودی سرکار ہی کی دین ہے ۔
پولس اور تفتیشی ایجنسیاں اس سرکار کے ہاتھوں میں ناچ رہی ہیں ۔ سی بی آئی وہی کام کرتی ہے جو یہ سرکار چاہتی ہے ۔ جیل خانے ’سنگھی مراکز‘ بن گئے ہیں جہاں کوشش کی جاتی ہے کہ اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کی ’ گھرواپسی‘ ہو اور اگر اس میں کامیابی نہیں ملتی تو انہیں مارا پیٹا جاتا ہے ، اور مارپیٹ میں جیلر بھی شامل ہوتے ہیں ۔ تہاڑ جیل کا تازہ واقعہ ثبوت ہے جہاں جیلر راجیش چوہان نے مبینہ طور پر لوہا گرم کرکے شبیر نام کے ایک مسلم قیدی کی پیٹھ پر ’ اوم‘ گود دیا ۔۔۔ اگر یہ سرکار برقرار رہی تو ڈر ہے بلکہ شدید ڈر ہے کہ سارے سرکاری اور آئینی ادارے اس کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن جائیں گے ۔

Comments are closed.