فرقہ پرستانہ سیاست ؛ مسلم مفادات پر بھگوا تواقوتوں کی یلغار: مسلمان ہوش کے ناخن لیں

مسلمان دستوری حقوق کا استعمال بڑی حکمت سے کریں تا کہ اقتدار سازی سے فرقہ پرست دور رہیں
غلام مصطفی رضوی (نوری مشن مالیگاؤں)
بی جے پی حکومت کی ملکی ترقی کے تئیں ناکامی جگ ظاہر ہے۔ معاشی طور پر ان کے عہد میں ملک میں جو تباہی ہوئی اس نے زندگی دوبھر کر دی۔ ہر طبقہ پریشان حال رہا۔روزگار کے ذرائع متاثر ہوئے۔ معاشی پالیسیوں نے بحران سے دوچار کیا۔ اس درمیان بی جے پی نے اپنی فرقہ پرستانہ ذہنیت کی پرورش کھل کر کی۔ اسلام دُشمنی کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ بلکہ مسلمانوں سے نفرت کی پرورش کی گئی۔ اور فرقہ وارانہ ماحول کی سرپرستی کی گئی:
[۱] ذبیحہ پر پابندی عائد کی گئی۔ شک و شبہے کی بنیاد پر مسلمانوں کو ستایا گیا۔ ہجومی قتل و غارت کی فضا استوار کی۔ سیکڑوں مسلمانوں کو محض شک کی بنیاد پر شہید کیا گیا۔ اس میں بھاجپا توا ذہنیت کارفرما رہی۔ ملزمین پر کوئی سخت کارروائی نہیں کی گئی کہ یہ واردات تھمتی اور ظالم کی حوصلہ شکنی ہوتی۔
[۲] خواتین کے اسلامی حقوق پر نقد و نظر کو ہوا دی گئی۔ اسلام نے جو حقوقِ نسواں وضع کیے؛ ان کے خلاف ماڈریٹ و اسلام بیزار طبقے کو مہرہ بنا کر کورٹوں میں لایا گیا اور ان کے ذریعے شریعت پر نشانہ سادھا گیا۔ اس ضمن میں طلاق جیسے خالص اسلامی مسئلے میں لا دینی کورٹوں نے ریمارکس دیے۔ بلکہ قانون سازی کی کوششیں ہوئیں۔ بل لایا گیا۔ خواتین سے جُڑے ہزاروں مسائل کو پس پشت ڈال کر اسلام دُشمنی کی فضا بنائی گئی۔ جن کے یہاں روز خواتین کو ظلم کا شکار بنایا جاتا ہے۔ جن کے یہاں جہیز کے نام پر استحصال کیا جاتا ہے۔ جینے کے حقوق سلب کر لیے جاتے ہیں؛ وہ مسلم خواتین سے متعلق کمینٹ کر رہے ہیں! یہ ماحول بی جے پی کے دورِ حکومت میں تیار کیا گیا۔
[۳] منافرت کے شعلے بھڑکائے گئے۔ فکروں کو پراگندہ کیا گیا۔ ہندو مسلم قوموں کے درمیان نفرت کی فصل بوئی گئی۔ نفرت انگیز ماحول کو پروان چڑھایا گیا۔ دلوں کو بغض و عناد سے بھر دیا گیا۔ امن و امان راس نہیں آیا۔
[۴] بابری مسجد کی تعمیر نہ ہو سکے؛ اس ضمن میں کورٹوں کو نظر انداز کر کے بھگوا توا قوتوں کا از خود مندر بنا لینے کا اعلان بھی سامنے آیا۔ مودی حکومت نے اسلام مخالف عنوانات میں اکثر پر کام کر لیا ہے؛ ہاں! یہ ضرور ہے کہ ان کا مندر کا خواب ابھی خواب ہی ہے۔ جسے عملی جامہ پہنانے کے لیے حالیہ الیکشن میں اسے ہی عنوان بنا کر ہندو ووٹوں کو حاصل کرنے کی جدوجہد ہے۔
[۵] عشق و محبت کے دام میں مسلم بچیوں کو پھنسا کر انھیں گھروں سے نکال کر؛ بیاہ کی آڑ میں ہندو بنانا کی کوششیں بھی شباب پر ہیں۔ یا مذہب سے بغاوت کو ہوا دی جا رہی ہے۔مسلم بچیوں کی زندگی تباہی کی زد پر ہے۔
سادھوی کی سیاست میں دستک:
سادھوی پرگیہ جو مالیگاؤں بم دھماکوں میں ملزم ہے، اسے مہلک بیماری کی آڑ میں بیل ملی ہے۔ اسے بی جے پی نے پارلمنٹ الیکشن میں امیدوار بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ گویا مسلمانوں کی نسل کشی یا قتل عام میں کی جانے والی واردات کی سرپرستی بھگوا توا بی جے پی کر رہی ہے۔اس طرح اپنا متشدد چہرہ کھل کر واضح کیا ہے۔ یہ ایک پیغام ہے مسلمانوں کے لیے کہ اسلام دُشمنی کی تمام وارداتوں کی سرپرستی بی جے پی کر رہی ہے۔ اور جتنے فرقہ پرستانہ سوچ کے حامل ہیں؛ ان کی ووٹیں اسی طریقے سے یک طرفہ گروائی جائیں گی کہ بی جے پی ہی اس وقت ہندوستان میں مسلم دُشمنی میں سب سے مضبوط پارٹی ہے اور ہندو توا کے فروغ میں کوشاں۔ مذہبی جذبات بھڑکا کر ووٹوں کی سیاست کرنے کے لیے سادھوی کو میدان میں اُتارہ گیا ہے۔
مسلمان ہوش کے ناخن لیں:
حالات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مرحلہ وار مسلم دُشمنی کے خفیہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ بی جے پی کو مزید اقتدار حاصل ہوا تو وہ اپنے بقیہ اہداف بھی حاصل کر لے گی اور یہاں مسلمانوں کے لیے نفرت کی مزید آبیاری کی جائے گی۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ:
[۱] مسلمان خوف و ہراس کے ماحول میں سانس لے گا۔
[۲] خواتین کی آزادی خطرے میں پڑے گی۔ان کی زندگی اجیرن بن جائے گی۔ تین طلاق کے ضمن میں شوہروں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے ساتھ خاندانی تنازعات بڑھیں گے۔ اور رشتوں کا تقدس مسلسل پامال ہو گا۔
[۳]شعائر اسلامی کے خلاف رفتہ رفتہ قدغن کی پالیسی عملی صورت اختیار کر لے گی۔
[۴] اذانوں پر بھی پابندی اگلا قدم محسوس ہوتا ہے۔
[۵] مساجد، مدارس، خانقاہ، درگاہ کی املاک خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ جن کی قانونی حیثیت کو مختلف حیلوں بہانوں سے کم زور دائرے تک لایا جا سکتا ہے۔
[۶] مسلم روزگار بھی زد پر ہیں۔ کئی ایسی صنعتیں جن کا تعلق مسلمانوں سے ہے؛ انھیں بحران کا شکار بنایا جا رہا ہے۔
[۷] مساجد میں اسلامی قوانین کی بالا دستی ہے۔ مساجد کے امور میں کورٹوں کی مداخلت ایک بڑی سازش کا حصہ ہے۔ اس سمت کئی اشارے سازشی فکر کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جیسا کہ ابھی مساجد میں خواتین کی نماز سے متعلق کورٹ کا سہارا لیا گیا۔ بعض وہ طبقے بھی ہیں جو فرقہ پرستوں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں، بعض وہ ہیں جو مادی منفعت کے لیے اپنے ضمیر بیچ چکے؛ وہ اپنی لبرل ذہنیت کی تسکین کے لیے اور شریعت بیزارفکر کی اشاعت کے لیے کورٹوں میں جاتے ہیں اور مُردہ ضمیر کو تسکین فراہم کرتے ہیں۔ خواتین کامسجد میں نماز سے متعلق مسئلہ خالص دینی ہے؛ جو مسئلہ بھی نہیں-دین سے لاعلمی کا نتیجہ ہے؛ لادینی کورٹیں اس میں مداخلت کا کیا حق رکھتی ہیں! ظاہر ہے بی جے پی اپنے مفادات کے حصول کے لیے قانون سازی کا بہانہ لے گی؛ اور ہندو ووٹ بنک مضبوط کرے گی؛ کہ مسلمانوں پر مسلسل قدغن کے لیے بی جے پی ہی کچھ کر سکتی ہے! ماڈریٹ طبقہ کو دین بیزاری میں مبتلا کرکے مفادات حاصل کرنے سے متعلق تاج العلماء مولانا سید اولاد رسول محمد میاں مارہروی رحمۃ اللہ علیہ نے نصف صدی قبل ہی یہ فرمایا تھا کہ:
’’ہمارے ملک میں مذہب شکنی کے لیے در پردہ اور بے پردہ بڑی بڑی زبردست کوششیں ہو رہی ہیں اور بعضے دُشمنانِ حیا صاف طور پر احکامِ دین پر زبانِ طعن دراز کرنے پر جری ہو گئے ہیں۔‘‘(ماہ نامہ ’پاس بان‘ الہ آباد، شمارہ :جون ۱۹۶۳ء)
بہر کیف! ضروری ہے کہ سازشوں سے باخبر رہ کر اسلامی زندگی گزاری جائے۔ اپنی جمہوری قوت کو تقسیم سے بچا کر فرقہ پرست بی جے پی کے مقابل ووٹ دیں۔ ووٹوں کو تقسیم سے بچائیں۔ یہ حالات کا تقاضا بھی ہے ۔ گرچہ دیگر قوتوں نے بھی مسلمانوں کی بربادی کے لیے بہت کچھ کیا؛ تاہم موجودہ حکومت کی کارروائیاں ان کے مقابل زیادہ رہی ہیں- اس لیے بڑی مصیبت کو دور کرنا حکمت کا تقاضا ہے۔٭٭٭
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.