دارالعلوم دیوبند اور علم حدیث ایک مطالعہ

ساجد حسین سہرساوی
مالک کون مکاں نے دارالعلوم دیوبند کو اول روز سے ہی جس قدر قبولیت ، شہرت ، شان امتیاز اور انفرادی خصوصیات سے نوازا ہے اس کی مثال شاید ہی کہیں اور دیکھنے اور سننے کو ملے ، جس تیزی سے عالم بھر میں اس ادارے اور مکتبۂ فکر کی دین و ملت کے واسطے بےپناہ خدمات کا ڈنکا بجا ، خلوص و للہیت کے ساتھ ساتھ ، بےنفسی اور بغیر کسی دنیاوی اغراض و مقاصد کے اس پرفتن دور میں تحفظ دین و شریعت کا بیڑا اٹھایا ، وہ خود میں یکتا و منفرد ہے.
دارالعلوم کی شش جہات خدمات سے کسی صاحب فہم و فراست کو راہ فرار حاصل نہیں ، مخلتف افکار و نظریات کے درمیان ، دن بدن ترقی پزیر سیکولر ازم ، لبرل ازم ، فکری ارتداد اور جدت پسندی کے بیچ ، قدامت پسندی اور فرسودہ خیالی کی طعن و تشنیع کو ان سنی کرتے ہوئے دین متین کی صحیح اور بالکل راست ترجمانی میں دارالعلوم کا جو کردار رہا ہے ، وہ جگ آشکارا ہے.
دارالعلوم دیوبند نے دنیا کو جہاں توحید باری تعالی ، اتباع رسول اور نقش اصحاب رسول پر کاربند رہنے اور اسلاف و مخلصین امت
کی تعلیمات و نظریات پر بھروسہ کرتے ہوئے زندگی گزارنے کا سبق پڑھایا ہے وہیں افراد سازی ، فکری بالیدگی ، بلند ہمتی ، خوش اخلاقی اور ظاہر و باطن سنوارنے کا درس بھی دیا ہے ، ہر دور میں منسلکین دارالعلوم جہاں ” آمرون بالمعروف ” کی صف اولی میں نظر آئیں گے وہیں جماعت ” ناھون عن المنکر ” کے سرخیل و امیر کارواں کے طور پر بھی متحرک و فعال دکھے جائیں گے ، جہاں "من رأى منكم منكرًا، فليغيره بيده . الخ ” کی عین تفسیر بن کر خرمن جہل و ضلالت کو آگ لگاتے اور بدمست فراعنہ کو لگام ڈالتے پائے جائیں گے ، وہیں شورزار دنیا کو تختۂ گل و یاسمین بناتے اور انحطاط پذیر علیل روحوں کی دوا سازی کرتے ہوئے بھی مشاہدہ میں آئیں گے ، ایک طرف زبان و بیان کا غازی بن کر قریہ قریہ میں منبر و محراب سنبھالتے نظر آئیں گے تو دوسری طرف میدان تصنیف و تالیف کے شہسوار بن کر تمام خطہ ارضی میں اپنے انمٹ نقوش ثبت کرتے دکھے جائیں گے.
المختصر!
دارالعلوم دیوبند کی دنیا بھر میں مقبولیت اس امت مرحومہ پر خدائے بزرگ و برتر کی خاص نظر کرم اور مشکات نبوت سے فیض یافتہ ، شب زندہ دار ، ، رویۂ روادارانہ اور بقائے باہمی کے جذبے سے مملو صاحب فضل و کمال کی انتھک محنت اور بےپناہ لگن کا خلاصہ ہے ، بحمداللہ فرزندان دارالعلوم کی ہر دینی و ملی تحریک و سرگرمی عنداللہ و عندالناس مقبول ہوئی اور پایۂ ثبوت کو پہنچی ہے نیز اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قدرت نے یہاں کے اساتذہ میں جداگانہ تاثیر و گن گیان ودیعت کی ہے ، یہی وجہ ہےکہ ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے والے طلبہ بھی ہونہار ، صاحب اقبال و خوش بخت ، ہر میدان کا شہسوار اور دین و دنیا میں سرخرو ہوئے ہیں جس کا اعتراف و اقرار مدام ایک دنیا کرتی آئی ہے.
الغرض ؛ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ باطل قوتوں نے جب بھی سر نکالا ہے اور ابھرنے کی ناکام کوششیں کی ہیں تو اول مرحلہ میں طلبہ دارالعلوم نے ہی ان کے سروں کو کچلا ہے اور غرور شکن ثابت ہوئے ہیں ، یہ محض ایک دعوی نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا معترف زبان حال و قال سے غیر بھی ہوتے آئے ہیں ، طلبہ دارالعلوم کی جہاں بےشمار خصوصیات ہیں انہیں میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہےکہ مختلف طرق سے اپنی پاک نسبتوں کو محفوظ رکھتے ہیں اور اپنی سند کو عالی سے عالی تر دیکھنا چاہتے ہیں ، اپنے بزرگوں کی تاریخی احوال اور لازوال خدمات قلم بند کرکے نہ صرف خود کےلیے تعیین راہ عمل کرتے ہیں بلکہ پود نو اور آنے والی نسلوں کی کامیابی و کامرانی کے اسباب بھی بدرجہ اتم مہیا کرنے کی دوادوش کرتے ہیں.
فرزندان دارالعلوم دیوبند کی شش جہات خدمات کا ہر منصف مزاج شخص معترف و معتقد رہا ہے ، خصوصاً خدمات فن حدیث میں تیقظ مغزی ،حزم و احتیاط ، غایت درجہ کی تفتیش و تلاش اور تحقیق و تدقیق سے کام لینا بےمثال و بےعدیل ہے ، اگر ان خدمات کو بالاستیعاب قلم بند نہ کیا جائے اور صرف زبانی روایات پر انحصار اور رکھ چھوڑا جائے تو ان مخلصین و ممدوحین کے حق میں بڑی ناسپاسی اور حق ناشناسی ہوگی ہوگی ، انہیں غیر معمولی وجوہات اور کھٹکے نے ہم عصر و ہم سبق عزیزم مولوی شعیب عالم قاسمی صاحب کو قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ، یہ جرات مندانہ قدم بالیقین قابل داد و تحسین اور لائق ستائش ہے ، کتاب میں مندرجہ عناوین محتاج تعارف نہیں اور کتاب کی تعریف و توصیف کےلیے میرے پاس الفاظ کا فقدان ہے ، موصوف نے کتاب کے اندر دارالعلوم دیوبند کی بےپایاں خدمات حدیث پر تفصیلی کلام کرتے ہوئے ، اساتذۂ دارالعلوم، فیض یافتگان، وابستگان اور دارالعلوم کی فکر سے موافقت رکھنے والے علماء کرام کی تدریسی وتصنیفی خدمات پر بھی روشنی ڈالی ہے _اس اعتبار سے یہ کتاب مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کی خدمات حدیث کا سب سے زیادہ احاطہ کرنے والی دستاویز بن گئی ہے_ کتاب سات ابواب پر منحصر ہے ، صاحب کتاب ” حرف تقدیم ” میں رقم طراز ہیں :
"دارالعلوم دیوبند اور علم حدیث ” سات ابواب پر مشتمل ہے
۱. پہلا باب برصغیر میں علم حدیث کے نام سے موسوم ہے جس میں بر صغیر میں اسلام کی آمد صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین کی تشریف آوری اور پہلی صدی سے بارہویں صدی ہجری تک برصغیر میں علم حدیث اور محدثین پر روشنی ڈالی گئی ہے. ۲. دوسرے باب میں دارالعلوم دیوبند کے قیام ، درس حدیث میں دارالعلوم کی خصوصیات اور اکابر دیوبند کی خدمات کو بیان کیا گیا ہے. ۳. تیسرا باب دور اول کے فضلاء و محدثین کے تعارف پر مشتمل ہے. ۴. چوتھے باب میں دارالعلوم کے نامور محدثین کی خدمات حدیث کا بیان ہے. ۵. پانچویں باب میں عصر حاضر کے محدثین کو موضوع سخن بنایا ہے ۶. اور چھٹے باب میں علوم حدیث میں علماء دیوبند کی تصنیفی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔یہ چھٹا باب نو فصلوں پر مشتمل ہے۔ چھ فصلوں میں بالترتیب صحاح ستہ کی خدمات ، ساتویں فصل میں دیگر کتب حدیث کی خدمات ، آٹھویں فصل میں متون احادیث کی تحقیق وتعلیق ، نویں فصل میں مجموعۂ احادیث اورکتب متعلقہ کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔ ۷. ساتویں باب میں فضلاء دارالعلوم کی سند احادیث درج کی گئیں ہیں.
آخر میں ہم دست بہ دعا ہیں کہ اللہ عز و جل موصوف کو مزید ترقی سے نوازے ، اس سرمائے کو عام و خاص میں قبولیت بخشے ، آخرت میں بلندئ درجات کا سبب بنائے اور دینی و ملی خدمات پر تادم آخر خلوص نیت سے براجمان رہنے کی سعادت عطا کرے ﴿ آمین ﴾
Comments are closed.