Baseerat Online News Portal

مرحوم قاری نثار غفرانی: زمین کھاگئی آسمان کیسے کیسے!

افتخاررحمانی ، نئی دہلی

 

کل جب موبائل کی گھنٹی بجی تو ریسیو کرنے کے بعد جوخبر میرے برادرِ ا کبر مولانا شہاب الدین مظاہری نے سنائی ، اس سے رنجیدہ خاطر ہوگیا۔ جواں سال قاري و حافظ نثار غفرانی خورجہ،بلند شہر، یوپی میں ایک سڑک حادثہ میں اللہ کے پیارے ہوگئے ۔(انا للہ و انا الیہ راجعون) مجھے تقریباً اس کی اطلاع شام کے پانچ بجے کے قریب ملی تھی، اس لیے چاہ کر بھی خورجہ پہنچ کر نماز جنازہ میں شریک نہ ہوسکا ۔ میرا ان سے تعلق اتنا گہرا تو نہیں تھا؛لیکن جان پہچان اور آشنائی ضرور تھی۔ میری ان سے ملاقات جب اپنے وطن جاتا تو عیدین کے موقعہ پر ہوتی تھی ۔ مولوی ہونے کے ناطے علیک سلیک ا ور پھر مزید راہ و رسم بڑھی ۔ مرحوم کی تعلیم یوں تو خادم الاسلام ہاپوڑ میں ہوئی تھی ، حفظ قرآن کے بعد ہاپوڑ میں ہی روایت ِ حفص کیاتھا ،بعد ازاں فراغت کے خورجہ میں اپنے والد کے قائم کردہ” مدرسہ عبدالرحمن بن عوف “میں دینی خدمات انجام دینے لگے۔ ان کی شادی ا پنے چچا کی لڑکی سے ہوئی تھی ، ان کے والد چوں کہ مستقل طور پر خورجہ (بلند شہر ) میں ہی سکونت پذیر ہوگئے تھے ، اس لیے ا نہوں نے بھی خورجہ میں ہی زمین خرید کرمکان بنوایا تھا ۔ 2014کے اواخر میں ، میں جب خورجہ ان کے والد کے قائم کردہ مدرسہ میں بحیثیت مدرس پہنچا تو انہوں نے میرا استقبال كيا اور آؤ بھگت اور خاطر تواضع کیا ۔ گاؤں کے رشتہ کی وجہ سے اپنے گھر لے جا کر چائے ناشتہ کروایا آدھ پون گھنٹہ ادھر ادھر کی بات بھی کی۔ یہ الگ بات ہے کہ ناگزیر وجوہات کے باعث راقم ان کے والد کے مدرسہ میں زیادہ وقت نہ دے سکا ۔ تاہم میرے بارے میں انہیں جان کر خوشی ہوئی تھی ۔آج جب کہ وہ اس دنیا سے جا چکے ہیں ، تو ان کو”عزیزم یا صاحب “کے بجائے ”مرحوم“ لکھتے ہوئے رنجیدہ ہوں ۔

 

آج حافظ نثار غفرانی مرحوم کی یاد بہت آرہی ہے، ان سے زیادہ ربط و تعلق تو نہ تھا ، لیکن پھر بھی رہ رہ کر ان کی صورت یاد آرہی ہے ۔ وہ میرے گاؤں کے تھے، گرچہ وہ اپنے آبائی گاؤں میں زیادہ وقت تو نہیں گزارا ؛لیکن دوچار سال میں وہ گاؤں ضرور آتے تھے ، ان کے والد حافظ انصار الحق 1984-85 میں گاؤں سے ہجرت اختیار کرلی تھی ، اور مکمل طور پر وہ ”بہاری “ کے بجائے خود کو ”یوپی والے “ سمجھنے لگے تھے ، اور ان کو اس پر ’فخر‘ بھی تھا کہ وہ یوپی والے ہں،حتیٰ کہ ’بہاریت‘ سے اس قدر الرجی تهي کہ انہوں نے اپنی زبان، اپنا لہجہ حتیٰ کہ بودوباش وغیرہ وغیرہ سے بھی ’بہاریت‘ کو آٹے میں بال کی طرح سے نکال پھینکا تھا ۔ لیکن ع :کافر نتوانی شد ناچار مسلماں شو“ کے مصداق’ ڈی این اے‘ میں سرایت کردہ ”بہاریت “سر ابھارتی ہی دیتی تھی، اس لیے وہ بیچارے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر چار و ناچار چار -پانچ سال پر گاؤں چلے آیاکرتے تھے ۔ وہ جب سنہ 2008-7میں گاؤں آئے تھے ، تو پتہ چلا تھا کہ اپنے صاحبزداہ نثارغفرانی مرحوم کی شادی اپنے بھائی کی لڑکی سے چاہتے هیں ،گاؤں والوں کو یہ سن کر حیرانی بھی ہوئی تھی ،اور کچھ حدتک یہ حیرانی بجا بھی کہ آخر ایک مکمل ”یوپی والا “کیوں گاؤں میں آکر گاؤں کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے؛لیکن یہ حیرت اس وقت دور ہو ئی جب انہوں نے ’پنچایت ‘ میں یہ بات رکھی کہ:’ ہم تقریباً تیس چالیس سال سے گاؤں سے الگ رہے ہیں ؛ اس لیے میری خواہش ہے کہ اپنے لڑکے کی شادی اپنی بھتیجی سے کروں تاکہ گاؤں پھر آنا جانا ہواور پرانی باتیں ، پرانے رشتے ، پرانے تعلقات پھر نئے سر ے سے قائم ہوجائے “۔ یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ گاؤں میں ہی ایک آدھ کٹھہ رہائشی زمین خرید کر مکان بنانے کا ارادہ تها۔ آج قاری نثار غفرانی مرحوم کی وفات سے ایک بار پھر ”بہاریت “ اور ”یوپی والے“ کے درمیان خود ساختہ بنائی گئی ’خلیج‘ قائم ہوگئی ۔ قاری نثار غفرانی نے اپنے پیچھے غم نصیب ا ہلیہ اور تین لڑکے چھوڑے ہیں ،مجھے ان غم نصیبوں کی بهت یاد آرہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کی مغفرت فرماکر ان کے درجات بلند کرے ،آمین ثم آمین ۔ قاری نثار غفرانی نے والد کے قائم کردہ ادارہ کی ترقی کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ نچھاور کردیا تھا ، یہ الگ بات ہے کہ علمی قابلیت محض رسمی اردو کے ساتھ روایت حفص (تجوید و قرأت )تک ہی محدود تھی ،لیکن وہ مالی فراہمی کے سلسلے میں ’مشاق و ماہر‘ سمجھے جاتے تھے ، مالی فراہمی نیز مدرسہ کی نمائندگی کے لیے خورجہ ، علی گڑھ ، بلند شہر اور ا طراف کے گاؤں گاؤں تک پہنچے،اس کے علاوہ وہ بڑے بڑے شہردہلی ، پنجاب،آگرہ ، ہاتھرس ، جالندھر ، پانی پت وغیرہ جاکر مدرسہ کی نمائندگی کی ۔مدرسہ کا تعارف پیش کیا اور اہل خیر سے مدرسہ کے تعاون کے لیے توجہ دلائی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مدرسہ کی ترقی میں ان کے والدحافظ انصار الحق سے زیادہ مرحوم نثار غفرانی کی شراکت ہے۔( واللہ اعلم بالصواب )

 

ان کی شہادت یقینا تکلیف دہ اور رنج آور ہے ؛ لیکن یوں جواں سال کا دیکھتے دیکھتے چلے جانا قابلِ غور بھی ہے ۔ اب وہ اس دنیا سے جاچکے ہیں ،لیکن اپنے پیچھے یہ سوال ضرور چھوڑ گئے ہیں کہ ایک جواں سال کیوں لقمہ اجل بن گیا ۔”وما تدری نفس بای ارض تموت“ کاکلیہ ہمیشہ مسلم رہا ہے اس سے فرار ممكن نهيں ۔ تاہم اسباب و عوامل پر بھی ہمیں غور کرنا چاہیے ۔ شنید کہ مرحوم نثار غفرانی کی موت سڑک حادثہ میں ہوئی ، وہ بائیک چلا رہے تھے ، مخالف سمت سے آنے والی ٹرک سے ان کی موٹر سائیکل جا ٹکرائی اور وہ موقعہ پر دم توڑ گئے ۔ ان کے مدرسہ میں ہم کارو مدرس رہ چکے قاری انتخاب عالم ، جو اب ان کے ادارہ سے سبکدوش ہو کر اپنے وطن پورنیہ میں ایک مدرسہ میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں ، نے کل جب میں نے ان کو اس اندوہناک خبر کی اطلاع تو بہت رنجیدہ ہوئے ، دوران گفتگو کہنے لگے کہ :’مرحوم اپنی جواں سالی کے جوش میں بائیک بہت تیز چلایا کرتے تھے ، کئی مرتبہ ایک ساتھ بکار مدرسہ اطراف کے گاؤں کا سفر بھی کیا ہے ، ان سے بارہا میں نے درخواست کی کہ آپ بائیک اس قدر اسپیڈ نہ چلایا کریں ، لیکن انہوں نے بات سنی ان سنی کردی ‘۔ جیسا کہ شنید ہے کہ :’یہ حادثہ علی گڑھ -دہلی ہائی وے کے پاس پیش آیاتھا‘۔ اس میں کچھ بعید نہیں کہ یہ حادثہ اسپیڈ اور عین سامنے ٹرک آجانے کے باعث توازن برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے پیش آیا ہو۔ اللہ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے ، آمین ۔ ہمارے نوجوان جوانی کے جوش میں سڑکوں پر بائیک کے ذریعہ اسٹینڈ کیا کرتے ہیں ، اور اس طرح کے حادثات روز خبروں کی زینت بھی بنتے ہیں ؛لیکن ہم اور ہماری نئی نسل اس سے کوئی سبق لینا نہیں چاہتی ۔ جوان تو کجا چھوٹی چھوٹی عمر کے لڑکے بھی نوجوانوں کی دیکھا دیکھی ، بائیک تیز رفتار میں چلانا ’فخر ‘ سمجھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نئی نسل کوہدایت دے اور بائیک کی لعنت سے نفرت کی توفیق بھی بخشے ۔ آمین ۔ بائیک چلانا اور اس کی سواری کرنا میرے نزدیک بقدر ضرورت مباح ہے ، ورنہ میرا بھی نظریہ بائیک چلانے کے تعلق سے مفتی زرولی خان صاحب پاکستان کی طرح ہے، بائیک چلتی پھرتی تعاقب کرتی ہوئی موت ہے ۔ اور اسپیڈ بائیک چلانا گویا خودکشی کا اقدام ہے ۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ جب مرحوم کے پسماندگان کے تعلق سے سوچتا ہوں تو دل دھک سے رہ جاتا ہے کہ ایک ہنستے کھیلتے خاندان پرغموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ خدائے پاک و برتر ان کی مغفرت فرما کر اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے ،آمین ۔

Comments are closed.