Baseerat Online News Portal

بدگمانی اور عیب جوئی ایک شنیع عمل

 محمد قمرالزماں ندوی 

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

سورہ حجرات میں اللہ تعالی نے انسانوں کو تجسس اور بدگمانی سے منع کیا ہے ارشاد خداوندی ہے یا ایھا اللذین آمنوا اجتبوا کثیرا من الظن الاخ

اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور ٹوہ میں نہ لگو ۔

انسان کی ایک بہت بڑی کمی یہ ہے کہ جب وہ کسی کے بارے میں جب بدگمان ہوجاتا ہے تو اس کی ہر بات اس کو غلط معلوم ہونے لگتی ہے ۔ اس کے بارے میں اس کا ذہن منفی رخ پر چل پڑتا ہے ۔اس کی خوبیوں اور اچھائیوں سے زیادہ وہ اس کے عیوب تلاش کرنے لگتا ہے ۔ اس کی برائیوں کو بیان کرکے اسے بے عزت کرنا اس کا محبوب اور پسندیدہ مشغلہ بن جاتا ہے ۔

بدگمانی اکثر سماجی خرابیوں اور معاشرتی برائیوں کی جڑ اور بنیاد ہے ۔ اس لئے سماج کے ہر فرد کو اس معاملہ میں چوکنا رہنا چاہیے اور اس کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ بدگمانی کو اپنے ذھن میں داخل نہ ہونے دے ۔

آپ کو اگر کسی سے بدگمانی ہوجائے تو آپ اس سے گفتگو کرکے اس کی حقیقت سے واقف ہونے اور مسئلہ کی اصل تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔ مگر یہ اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی بات ہے اور سخت غیر اخلاقی فعل ہے کہ کسی کی غیر موجودگی میں اور کسی کے معاملہ میں بغیر کسی تحقیق کے ان کو برا کہا جائے ان کے بارے میں بدگمانی پھیلائی جائے ۔ ان کے آرام و راحت اور خوشحالی کی زندگی کو مشکوک نظر سے دیکھا جائے ،ان کی آمدنی کے بارے میں غلط ریمر اور افواہ پھیلائی جائے ان کو متہم کیا جائے اور ان کی نیک نامی شہرت اور قبولیت کو کم کرنے کے لئے ان پر الزام تراشی کی جائے ۔ جب کہ وہ شخص صفائی اور وضاحت کے لئے وہاں موجود نہ ہو ۔ وقتی طور پر کسی سے اس طرح کی غلطیاں ہوسکتی ہیں وہ کسی کے بارے میں بدگمان ہوسکتا ہے لیکن اگر وہ اللہ سے ڈرنے والا ہے تو وہ اپنی غلطی پر ڈھیٹ نہیں ہوگا ۔ اس کا خوف اس کی خشیت اور اس کا تقوی اس کو فورا اپنی غلطی پر متنبہ کرے گا ،وہ اپنی روش کو چھوڑ کر اللہ سے معافی کا طالب بن جائے گا ۔

بدگمانی درحقیقت ایک قسم کا جھوٹا الزام ہے جو آج ہمارے معاشرے میں خطرناک حد تک پھیل چکا ہے ۔ اس کے نتیجے میں ایک شخص کو دوسرے شخص کے ہر کام میں بدنیتی معلوم ہوتی ہے اور وہ ٹوہ میں لگ کر دوسروں کے عیوب اور خامیوں کو تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ ان عیوب اور خامیوں کا دوسرے سے بھی تذکرہ کرنے لگتا ہے تحریر و تقریر کے ذریعہ اس کو دوسروں تک پہنچانے لگتا ہے ۔

ایسا نہیں ہے کہ اس فعل شنیع میں ناخواندہ لوگ شامل ہیں بلکہ ان سے زیادہ خواندہ اور پڑھے لکھے اور ذی ہوش اس برائ میں زیادہ مبتلا ہیں ۔ جو اچھے اور کلیدی عہدے پر فائز ہیں ملی اور تعلیمی حیثیت سے لوگوں میں متعارف ہیں ۔ ابھی کل ایک صاحب نے جو عالم بھی ہیں اور سماجی و ملی حیثیت سے لوگوں میں متعارف ہیں انہوں نے اپنے ایک پوسٹ کے ذریعہ ایک معروف و مشہور عالم دین پر جو عرب و عجم میں یکساں شہرت کے حامل ہیں ان کی آمدنی اور بظاہر عیش و آرام کی زندگی پر سوالیہ نشان اٹھا دیا اور اس کو واٹسیپ اور فیس بک پر شئیر کردیا ۔ اس کے لئے اسلوب یہ اختیار کیا کہ ان کے والد ماجد کا حوالہ دے کر پہلے رشوت دیا کہ وہ سادگی پسند سادہ لوح صاحب تقوی اور نام و نمود سے کوسوں دور تھے ۔ یہ رشوت دے کر قارئین کو اگلے جملے پر اور آگے کے مطلب پر آمادہ کرنا چاہا کہ میرا اصل مدعا یہ ہے ۔ جیسا کہ بعض یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ اسلام تو اچھا ہے پر مسلمان اچھے نہیں ہیں ۔ ان کو اسلام کی اچھائی بتانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ یہ رشوت دے کر مسلمانوں کو غلط بتانا اور بدنام کرنا ہوتا ہے ۔

ایک مسلمان کا یہ شیوہ نہیں کہ کسی کے بارے میں کوئی تحقیق کئے بغیر بدگمان ہوجائے اور لوگوں میں اس کا چرچا کرے۔

اگر واقعتا کسی میں کوئ کمی ہے اور کوئی شخص کسی کی اصلاح کرنا چاہتا ہے اور مقصود یقینا اصلاح اور خیر خواہی ہے تو وہ خفیہ طریقہ سے خاموشی سے سمجھائے ان سے بات کرے اور بدگمانی کو دور کرنے کی کوشش کرے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور طریقہ یہ تھا کہ اگر کسی کی کوئی کمی اور خامی دیکھتے تو نام لیکر نہیں بلکہ مبھم انداز میں اپنی بات کہتے برائ پر نکیر کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے موقع پر فرمایا کرتے تھے : ما بال اقوام یفعلون کذا و کذا

لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی ایسی حرکتیں کر رہے ہیں ۔

اہل علم کی نگاہ سے سورئہ حجرات کی آیتیں گزرے اور اس کے باوجود وہ ان سماجی اور اخلاقی برائیوں سے اپنی حفاظت نہ کرپائے تو پھر ہمہ شما کس قعر مذلت میں گر پڑے گیں اس کا کوئ اندازہ نہیں لگا سکتا ۔

Comments are closed.