متھلانچل کا دل دربھنگہ لوک سبھا حلقہ میں دلچسپ ہوگا مقابلہ

نور السلام ندوی،پٹنہ
دربھنگہ کومتھلانچل کا دل کہا جاتا ہے۔اسےمتھلا تہذیب وثقافت کا مرکز ہونے کا فخر بھی حاصل ہے،مکھانا اور آم کی پیداوار کے لئے یہ پورے ملک میں مشہورہے۔دربھنگہ لوک سبھا حلقہ کا الیکشن آئندہ 29 اپریل کو ہوگا۔انتخاب کا دن جیسے جیسے قریب آرہا ہے ویسے ویسے انتخابی تشہیری مہم شباب پر پہنچ رہی ہے۔یہاں بی جے پی اور مہا کٹھ بندھن کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے۔2014 کے مودی لہر میں اس سیٹ پر کامیاب ہوئے مشہور کرکیٹر کرتی جھا آزاد اس بار دھنباد سے کانگریس کے ٹکٹ پر اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔اس وقت بھی کرتی جھا کے لئے مقابلہ آسان نہ تھا لیکن مودی لہر میں ان کی کشتی پار اتر گئ تھی۔این ڈی اے میں سیٹوں کی تقسیم کے بعد اس بار یہ سیٹ بی جے پی کے پاس گئ ہے۔بی جے پی نے یہاں سے سابق ایم ایل اے گوپال جی ٹھاکر کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔وہیں مہا گٹھ بندھن نے راجد ایم ایل اے اور سابق ریاستی وزیر عبد الباری صدیقی کو ٹکٹ دیا ہے۔دو دہائیوں تک دربھنگہ کی سیاست پر حکمرانی کرنے والے راجد کے قد آور لیڈر علی اشرف فاطمی کو پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ٹکٹ نہیں ملنے سے ناراض علی اشرف فاطمی نے الیکشن سے عین قبل پارٹی کے تمام عہدوں سے استعفی دے دیااور پارٹی کو خیر آباد کہ دیا ہے۔فاطمی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مجھے یقین تھا کہ پارٹی مجھے دربھنگہ سے ٹکٹ دے گی۔لیکن پارٹی نے مجھے اعتماد میں لے کر کہا کہ دربھنگہ کے بجائے مدھوبنی سے ٹکٹ دیا جائے گا۔میں نے اپنے آدمیوں کے ساتھ مدھوبنی میں محنت شروع کر دی لیکن مجھے ٹکٹ نہیں دے کر مدھوبنی سیٹ مکیش سہنی کی ویکاس شیل پارٹی کے حصہ میں دے دی گئ۔سیاسی ماہرین کے خیال میں فاطمی کے پارٹی چھوڑنے سے راجد کو یہاں نقصان اٹھا پڑ سکتا ہے۔فاطمی نے پارٹی چھوڑنے کے بعد مدھوبنی لوک سبھا حلقہ سے بی ایس پی کے ٹکٹ سے پرچہ نامزدگی داخل کیا تھا،ادھر مدھوبنی سے کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر شکیل احمد نے بھی ٹکٹ نہ ملنے سے ناراض بطور آزاد امیدوار اپنا پرچہ داخل کیا۔ایسے میں مدھوبنی حلقہ کے ووٹرس خاص طور مسلم ووٹرس کافی شش وپنچ میں مبتلا ہو گئے تھے،ان کے لئے کوئ حتمی نتیجہ نکالنا مشکل ہو گیا تھاکہ کس کو ووٹ کریں،ان حالات کو محسوس کرتے ہوئے اور سیکولر ووٹوں کو منتشر ہونے سے بچانے کے لئے علی اشرف فاطمی نےپرچہ نامزگی واپس لینے کی آخری تاریخ کو اپنا پرچہ واپس لے لیا۔
ملک میں ہوئے پہلے عام انتخاب 1952 سے لے کر 1971 تک یہاں سے کانگریس کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ایمر جنسی کے بعد 1977 میں یہ سیٹ کانگریس کے ہاتھ سے نکل گئ۔1977 کے لوک سبھا الیکشن میں سریندر جھا بھارتی لوک دل کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔1984 میں اندرا گاندھی کے انتقال کے بعد ہری ناتھ مشرا نے کامیابی حاصل کی تھی۔1989 میں شکیل الرحمن متھلا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے،انہوں نے یونیورسٹی میں کئ تعلیمی اصلاحات کئے اور تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے کئ بڑے اقدامات کئے،انہوں نے نوجوانوں کا اعتماد صاصل کیا اور ان کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔انہوں نے لیو( Live )لے کر انتخاب میں قسمت آزمایا،اور جنتا دل کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔لیکن انتخاب جیتنے کے بعد دوبارہ علاقہ گھوم کر نہیں آئے۔شکیل الرحمن کی انتخابی تشہیر کی کمان فاطمی کے ہاتھ میں تھی۔فاطمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر رہے تھے،اور یونیورسٹی کی سیاست چھوڑ کر دربھنگہ آئے تھے،شکیل الرحمن کے ساتھ وہ ہر جگہ نظر آتے،اس سے ان کی اپنی شناخت اور پہچان بھی بنی۔اس کا فائدہ جلد ہی فاطمی کو ملا ،1991 میں جنتا دل نے فاطمی کو دربھنگہ سے ٹکٹ دیا،اور وہ جیت گئے،دربھنگہ لوک سبھا حلقہ سے سب سے زیادہ بار جیت درج کرنے کا ریکارڈ بھی فاطمی کے نام ہے۔انہوں نے دربھنگہ سیٹ سے چار بار کامیابی حاصل کی ہے۔دو بار جنتا دل کے ٹکٹ پر اور دو بار راجد کے ٹکٹ پر۔
1999 میں کرتی جھا آزاد نے پہلی بار اس حلقہ سے بی جے پی کا کھاتہ کھلوایا ،کرتی آزاد اس کے علاوہ 2009 اور 2014 میں بھی بھاجپا کے ٹکٹ پر جیت حاصل کی ہے۔
دربھنگہ لوک سبھا حلقہ میں اسمبلی کی کل چھ سیٹیں آتی ہیں۔گورا بورام،بینی پور،علی نگر،دربھنگہ دیہی،دربھنگہ اور بہادر پور۔2015 کے اسمبلی انتخاب میں چھ اسمبلی سیٹوں میں سے تین سیٹ راجد،دو جدیو،اور ایک پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کی تھی۔دربھنگہ لوک سبھا حلقہ میں ووٹروں کی تعداد تقریباً 27 لاکھ (2694078)ہے۔ان میں مرد ووٹرس کی تعداد 1427871 ہے اور خواتین ووٹرس کی تعداد 1266164 ہے۔اس سیٹ پرمسلم،برہمن اور یادو برادری کے ووٹرس امیدوار کی ہار جیت میں اہم رول اداکرتے ہیں۔لالو کے ایم وائ سمی کرن کم وبیش اب تک اثر انداز ہوتا آیا ہے۔پسماندہ اور انتہائ پسماندہ برادری کے ووٹرس پر بھی امیدواروں کی گہری نظر رہتی ہے۔اب تک کا جو سیایسی ماحول ہے اس سے یہ رجحان صاف ہو گیا ہے مہا گٹھ بندھن اور این ڈی اے امیدوار کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا۔
یہاں کے لوگوں کے لئے غریبی،بے روزگاری کے علاوہ ایک بڑا مدعا باڑھ اور خشک سالی ہے۔ضلع کو ہر سال سیلاب کا زبردست سامنا کرنا پرتا ہے،سیلاب کہ وجہ کر اس ضلع کا بڑا حلقہ اس کی چپیٹ میں آتا ہے،اور لوگوں کو بھاڑی تباہی اٹھانی پڑتی ہے۔وہیں قحط کی وجہ کر بھی کسانوں کو پریشانی جھیلنی پڑتی ہے۔یہاں کے کسان مکھانا کی کھیتی کے لئے پورے ملک میں مشہور ہیں،بارش کی کمی کا اثر مکھانا کی کھتی پر بھی پرتا ہے،ہر سال ہزاروں افراد روزگار اور کسب معاش کی تلاش میں دوسری جگہوں کا سفر کرتے ہیں۔کئ کارخانے ہیں جو بند پڑے ہیں،سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کی کمیاں ہیں۔تعلیمی معیار چوپٹ ہے۔
دربھنگہ آج بھی اپنی گوناگوں خصوصیات کے لئے جانا جاتا ہے۔یہاں کے لوگ بڑے دانا اور جفاکش ہوتے ہیں،سیاسی سوجھ بوجھ میں اس کی مثال دی جاتی ہے۔مجاہد آزادی اور قدآور کانگریسی لیڈر للت نارائن مشرا کی کرم بھومی رہی ہے،جے پی اندولن کی شروعات متھلانچل کی سرزمین سے شروع ہوئ تھی۔سترہویں لوک سبھا انتخاب میں اس بار راجد کے عبد الباری صدیقی اور بی جے پی کے امیدوار گوپال جی ٹھاکر کے درمیان کانٹے کامقابلہ ہے۔29 اپریل کو یہاں ووٹ ڈالے جائیں گے۔

Comments are closed.