علماءِ دیوبند—ترکی میں شیخ احسان قاسم صالحی کے ساتھ پہلی مجلس

محمد انوار خان قاسمی بستوی
آج ترکی میں احقر کا دوسرا دن ہے۔ لیکچر ہال میں جوں ہی اندر داخل ہوا، وہاں پہلے ہی سے علامہ نورسی پر منعقد کردہ پروگرام کے روحِ رواں، ‘نورسیات’ کے سب سے بڑے عالمی شارح ومروج ومفکر، رسائل نورسی کے مترجم ومفسر، غیور عالمِ دین جناب احسان قاسم صالحی موجود تھے۔ داخل ہوتے ہی ڈاکٹر احسان نے احقر سے پوچھا کہ کیا آپ ہی انوار خان قاسمی ہیں؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں، میں ہی ہوں۔ اس کے بعد انھوں نے مجھ سے فرمایا: أخبرني بعض العلماء من أهل الهند بأنك تجيد العربية والإنجليزية، ولك اشتغال جيد بالعلم والأدب. یعنی کہ مجھے ہندوستان کے کسی عالم نے بتایا ہے کہ آپ کی عربی اور انگریزی اچھی ہے اور آپ کا علم وادب سے اچھا تعلق ہے۔ جواباً میں نے کہا کہ مہارت کسی بھی فن میں نہیں ہے؛ لیکن شوق ضرور ہے۔
بعد ازاں فوراً ہی گفتگو کا رخ دیوبند کی طرف مڑ گیا، اور شیخ نے دیوبند سے متعلق کافی دلچسپی ظاہر کرنی شروع کردی۔ دیوبند کا ذکر آتے ہی شیخ نے پوچھا: من هم أكابر علمائها؟ یعنی کہ اس مکتبِ فکر کے اکابرِ علماء کون ہیں؟ چنانچہ میں نے اس مکتبِ فکر کے مشاہیر واساطین: امام محمد قاسم نانوتوی، فقیہ ومجتہد، سید الطائفہ، امام رشید احمد گنگوہی، شیخ الھند، امامِ حریت، مولانا محمود حسن دیوبندی، امام العصر، علامہ انور شاہ کشمیری، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، محققِ جلیل، متکلمِ اسلام، علامہ شبیر احمد عثمانی اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ کا ذکر کیا۔ شیخ صالحی نے تبصرہ فرماتے ہوئے کہا کہ: ہم الحمد للہ شیخ انور شاہ کشمیری سے اچھی طرح سے واقف ہیں۔ میں نے استفسار کیا کہ علامہ انور شاہ کشمیری کی کون سی کتابیں آنجناب کے مطالعہ سے گذری ہیں۔ موصوف نے جواب میں فرمایا کہ انھوں نے شیخ کشمیری کی التصريح بما تواتر في نزول المسيح کا بہت پہلے مطالعہ کیا تھا، اور واقعی اس کتاب کو اپنے موضوع پر بہت نافع پایا۔
قارئین کو معلوم ہونا چاہئے کہ علامہ انور شاہ کشمیری کی یہ کتاب عالمِ عربی میں سب سے پہلے شیخ المحققین، محدث الشام، ادیب العصر، علامہ عبد الفتاح ابو غدہ حلبی نور اللہ مرقدہ نے اپنی نادر ونایاب تحقیقات سے شائع کی۔ علامہ کشمیری کی یہ کتاب اس موضوع پر نہایت وقیع اور جامع مانی جاتی ہے۔ گویا کہ یہ کتاب نزولِ مسیح سے متعلق احادیث وآثار کا جامع ترین دستاویز ہے۔ اس موضوع پر ایک طویل زمانہ سے کچھ خلا سا محسوس کیا جارہا تھا جس کو علامہ کشمیری نے پُر کیا، اور گویا ایک قرض چلا آرہا تھا جو تمام امت کی طرف سے ادا کردیا۔ اس کتاب کے منصئہ شہود پر آتے ہی عالم عربی میں امام کشمیری کا نہایت زوردار تعارف علماء کے سامنے آیا۔ اگرچہ اس کتاب سے پہلے علامہ کشمیری کی فيض الباري شرح صحيح البخاري عالمِ عربی میں شائع ہوچکی تھی اور خواص اہلِ علم کی جانب سے خراج تحسین حاصل کرچکی تھی؛ لیکن التصريح بما تواتر في نزول المسيح کے شائع ہونے کے بعد پہلی بار کسی عرب عالم کے قلم سے علامہ کشمیری کا ایک مفصل تعارف علماءِ عرب کے سامنے آیا۔ علامہ ابوغدہ نے شیخ کشمیری کی اس کتاب پر محض تحقیق وتعلیق پر اکتفا نہیں کیا؛ بلکہ اس کتاب کے شروع میں علامہ کشمیری کے حالات زندگی پر ایک طویل وعریض مقالہ بھی رقم فرمایا۔ علامہ کشمیری کی حیات پر اتنا وقیع مقالہ پہلی بار عالم عربی کے سامنے پیش کیا گیا۔ شیخ ابو غدہ کے اس دلنشین سوانحی خاکہ نے امام کشمیری کی ہشت پہل شخصیت کے تمام اطراف وجوانب کا نہایت دقیق اور عمیق احاطہ کیا۔ چونکہ شیخ ابوغدہ کو اپنے زمانہ کا ایک عظیم المرتبت محدث، بلند پایہ ادیب، ودقیق النظر محقق شمار کیا جاتا ہے، اس لیے امام کشمیری کے بارے میں التصريح میں شائع کردہ ان کا یہ مضمون ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، اور اس کو بڑی پذیرائی ملی۔
اس کے بعد شیخ ابو غدہ نے علامہ کشمیری کی حیات پر ستة من فقهاء العالم الإسلامي میں مستقل ایک طویل مقالہ شائع فرمایا جو التصريح میں شائع کردہ مضمون سے کئی طرح سے مختلف اور حجم میں کافی بڑا اور نہایت جامع ہے۔ اس طرح سے شیخ ابو غدہ نے عالم عربی میں امام کشمیری کا تعارف کرایا اور شیخ کشمیری کے واسطے سے علماءِ دیوبند کی ایک مثبت شبیہ عالم عربی کے سامنے ظاہر ہوئی۔
خود ہی اندازہ لگائیں کہ ایک طرف شیخ ابوغدہ جیسے شہنشاہِ قلم کا والہانہ اندازِ بیان، ادیبانہ سحر طرازی، ناقدانہ نکتہ سنجی، محققانہ قلمکاری، اور مفکرانہ گہر باری ہو، اور دوسری طرف امام کشمیری جیسا بر صغیر کا عظیم ترین محدث، مفسر، محقق، فلسفی، اور متکلم ہو، تو پھر اس سوانحی نقوش کا عالم کیا ہوگا؟
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
میں نے شیخ صالحی سے کہا کہ علامہ کشمیری کے بارے میں مختلف علماء نے مختلف تبصرے کیے ہیں؛ ہر ایک نے اپنے اپنے ظرف کے اعتبار سے اس عبقری شخصیت کو ناپنے کی کوشش کی ہے؛ لیکن امام کوثری نے علامہ کشمیری کو کچھ الگ ہی نظر سے دیکھا ہے۔ علامہ کوثری فرماتے ہیں: ابن الھمام متوفی ۸۶۱ھ کے زمانے سے لے کر آج تک کوئی ایسا محقق پیدا نہ ہوا جو کشمیری کی طرح نصوصِ شریعت سے دقیق مسائل کا استنباط کرسکے۔ علامہ کوثری شیخ کشمیری کی تصانیف کے اتنے شیدائی تھے کہ ایک جگہ فرماتے ہیں: میں شیخ کشمیری کی کتاب التصريح بما تواتر في نزول المسيح اپنے سرہانے تعویذ کی طرح رکھتا ہوں۔
علامہ انور شاہ کشمیری کی علمی حیثیت متعین کرنے کے لیے میں نے کسی ہندوستانی عالم کی تعریف اس لیے نقل نہیں کی کیوں کی شیخ صالحی عموماً ہندوستانی علماء اور خاص کر قدیم دیوبندی علماء کے افکار اور کارناموں سے زیادہ واقف نہ تھے؛ جب کہ شیخ صالحی امام کوثری اور ان کی محققانہ تصانیف اور علمی کارناموں سے بخوبی واقف تھے، اور ہونا بھی چاہئے۔
چونکہ وقت کم تھا، اور تھوڑی ہی دیر میں محاضرات کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا، اس لیے مزید اس موضوع پر گفتگو نہ ہوسکی، اور اس مجلس میں علماء دیوبند میں سے صرف علامہ کشمیری ہی کا مختصر تذکرہ ہوسکا۔
نوٹ: علامہ انور شاہ کشمیری کی حیات پر اردو میں ایک درجن سے زیادہ وقیع کتابیں لکھی جا چکی ہیں جو اس وقت دستیاب بھی ہیں۔ عربی زبان میں سب سے پہلی مفصل سوانح خود حضرت امام کے شاگرد رشید علامہ محمد یوسف بنوری نے ‘نفحة العنبر في حياة الشيخ أنور’ تصنیف فرمائی۔ اس کتاب میں علامہ بنوری نے نہایت وقیع اور شستہ اسلوب میں امام کشمیری کی زندگی کے تمام پہلووں کا احاطہ فرمایا ہے؛ لیکن یہ کتاب عالم عربی تو دور کی بات خود ہمارے یہاں بھی مشکل سے دستیاب ہے۔ شیخ عبد الفتاح نے امام کشمیری کی حیات سے متعلق بنیادی معلومات اسی کتاب سے اخذ کی ہیں۔ پچھلے جند سالوں سے عالمِ اسلام کی بعض یونیورسٹیوں میں علامہ کشمیری کے افکار کی تحقیق وریسرچ کے لیے دکتوراہ اور ماجستیر کے مقالات ورسائل بھی قلم بند کئے گئے ہیں۔
جاری
۱۷ اپریل ۲۰۱۹
Comments are closed.