Baseerat Online News Portal

آہ! قاری محمد ایوب مظاہری نہیں رہے

قاضی سید افضل حسین قاسمی

نورنگ دواخانہ، بنگلور

آج بتاريخ 29 اپریل 2019، صبح فجر کے وقت نماز کی تیاری کرتے ہوئے مولانا حافظ و قاری محمد ایوب صاحب مظاہری رحمہ اللہ 56 سال کی عمر میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے، انا للہ و انا الیہ راجعون.
حضرت قاری صاحب ،عالم با عمل، نہایت شریف، کم گو، با اخلاق عالم دین، جید حافظ و قاری اور قرآن مجید کے خادم تھے، 1984 سے آج تک مسلسل ایک ہی ادارے سے منسلک رہ کر حفظ و قرأت قرآن پاک کی خدمت انجام دیتے رہے، اس دوران، ہند و بیرون ہند ہزاروں طلباء نے قاری صاحب سے کسبِ فیض کیا، قاری صاحب کے بعض شاگردوں نے فنّ قرات میں عالمی درجے کی شہرت و مقبولیت حاصل کی، حضرت نے اپنی زندگی کا مقصد سمجھ کر قرآن پاک کی خدمت کی، دنیاوی رنگ و روغن سے دور شہر سہارنپور کی گنجان آبادی کے بیچ ایک قدیم و معیاری، بظاہر چھوٹے سے ادارے سے مربوط رہ کر قابلِ رشک خدمات انجام دیں، قاری صاحب نے مدرسے کی جانب سے دئیے گئے دو کمروں کے گھر میں خود کو چھپائے رکھا اور اسی گھر سے داعی اجل کو لبیک کہا.
قاری صاحب کے پسماندگان میں اہلیہ، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جو حفظ کا طالب علم ہے اور اپنے والد کا شاگرد ہے. قاری صاحب شوگر کے مریض تو تھے ہی لیکن گزشتہ چند مہینوں میں قلب کا عارضہ بھی لاحق ہوگیا جو آج ایسی افسوس ناک خبر کا باعث بنا، اللہ تبارک تعالیٰ ان کی خدمات کو بیحد قبول فرمائے، کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر و اجر عطا فرمائے.
قاری ایوب صاحب ،عالم باعمل، حافظ و قاری ہونے کے ساتھ صاحب نسبت بزرگ، مربی، امین، معتمد، معاون اور شب بیدار بھی تھے، محدث کبیر حضرت شیخ محمد یونس صاحب رحمہ اللہ سے اصلاحی تعلق رکھنے والے مُجاز تھے، حضرت شیخ کے رازدار، نہایت معتمد اور حضرت کی تمام ضروریات کے منتظم و نگراں رہے.
قاری صاحب کے انتقال سے ذاتی طور پر مجھے جو صدمہ پہنچا ہے وہ بہت گہرا ہے، مظاہر علوم میں وہ مرے ہم سبق رہے اور فراغت کے بعد بھی انہوں نے طالب علمی کے دور کے برادرانہ روابط کو قائم رکھا، سہارنپور میں وہ میرے نہایت خلیق میزبان تھے، میں نے انکو چھوٹا بھائی سمجھا یا نہیں مجھے نہیں معلوم، لیکن وہ مجھے ہمیشہ بڑا بھائی ہی سمجھتے رہے، 2016 کے سفر حج میں وہ میرے رفیق رہے اور اس سال یعنی 2019 کا حج وہ میرے ساتھ ادا کرنے کی خواہش رکھتے تھے.
قاری ایوب اب نہیں رہے، بمشکل یقین کرنا پڑتا ہے، میری آنکھیں نم اور دل غم سے چور ہے، غم موت کا نہیں بلکہ اچانک جدائی کا ہے، موت تو برحق ہے، ہر متنفس کو اس کا ذائقہ چکھنا ہے. آج 29 اپریل ہے، پچھلے ماہ 29 مارچ کو فجر کے بعد میں قاری صاحب سے ملنے گیا تھا اور صبح کی چائے ان کے ساتھ پی تھی، لیکن اس بار وہ مرے میزبان نہیں تھے بلکہ مظاہر علوم وقف کے ناظم صاحب میزبان تھے، ملاقات مختصر تھی بہت مختصر، میرے ساتھ جو طالب علم تھا اسے انہوں نے یہ کہہ کر باہر بھیجا کہ مجھے بھائی سے کچھ بات کرنی ہے، لیکن انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی جو تنہائی میں کہی جانے والی ہو، آخر وہ تنہائی میں کیا کہنا چاہتے تھے جو نہ کہہ سکے اور میں ان سے 21 دن میں پوچھ نہ سکا، امروز و فردا میں پھر 29 تاریخ آگئی، صبح سوا نو بجے جب موبائل آن کیا تو میرے اوسان خطا ہو گئے.

Comments are closed.