Baseerat Online News Portal

دل کا علاج

شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
شریعت نے انسان کے لئے زندگی کا جو نظام مقرر کیا ہے، وہ اس کے پورے وجود کا احاطہ کرتا ہے، سر سے لے کر پاؤں تک جسم کا کوئی عضو نہیں جس کے لئے شریعت کی کوئی ہدایت موجود نہیں ہو؛ کیوںکہ انسان کو خدا سے بندگی کی نسبت حاصل ہے، اللہ معبود ہیں اور انسان عبد، اللہ خالق ہیں اور انسان مخلوق ، اللہ مالک ہیں اور ہم سب اس کے مملوک، آقا کا حق ہے کہ غلام کی ہر حس و حرکت اس کے منشا کے مطابق ہو اور مالک کو حق ہے کہ اپنی ملکیت میں ایک ایک ذرہ پر اس کا تصرف جاری رہے؛ اس لئے انسان کی بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا پورا وجود احکام الٰہی کے تابع ہو اور اسی لئے شریعت کے احکام انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔
جیسے شریعت نے انسان کے ظاہر کے لئے احکام دیئے ہیں، اسی طرح اس کے باطن کے لئے بھی بہت سے احکام دیئے ہیں، مثلاً جب کوئی شخص نماز پڑھے تو وہ کھڑا ہو، رکوع کرے، سجدہ کرے، قیام میں قرآن مجید کی تلاوت اور رکوع و سجدہ میں تسبیحات کا اہتمام کرے، رمضان المبارک میں صبح کے طلوع ہونے سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کھانے پینے سے رکارہے، یہ اور اس طرح کے ہزاروں احکام ہیں، جن کا تعلق ظاہری افعال سے ہے، اس کے ساتھ ساتھ بہت سے باطنی افعال بھی ہیں، جن کا حکم دیا گیا ہے، نماز کے وقت انسان کے اندر خشوع کی کیفیت ہو، { الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ} (المؤمنون:۲)نماز پڑھنے کی وجہ سے یہ کیفیت حاصل ہو کہ اللہ کی یاد اس کے دل میں بس جائے، { وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ} (طہ: ۱۴)، انسان کے اخلاق بہتر ہوں، اس میں نرم خوئی ہو، مخلوق کے ساتھ ایثار و شفقت ہو، تواضع اور کسر نفسی ہو، ریا اور دکھا وے کا جذبہ نہ ہو، خدا کا خوف بھی ہواور خدا کی محبت بھی، گناہ پر شرمندگی اور ندامت کا احساس ہو، اللہ کی توفیق سے کوئی نیک کام کرے تو خوشی کا احساس ہو اور کوئی گناہ سر زد ہوجائے تو رنج و ملال ہو، یہ اور اس طرح کے بہت سے افعال ہیں جن کا تعلق باطن سے ہے۔
ظاہری افعال کا صدور جسم کے مختلف ظاہری اعضاء — زبان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں وغیرہ — سے ہوتا ہے اور باطنی افعال کا سرچشمہ انسان کا دل ہے؛ اسی لئے قرآن مجید میں اس انسان کو کامیاب و بامراد بتایا گیا ہے، جو اللہ کے دربار میں اللہ کی طرف جھکنے اور اللہ کی مرضیات کو بجالانے والا دل لے کر آئے؛ کیوںکہ جس دل میں انابت ہوگی، اسی میں اللہ کی خشیت بھی ہوگی: { مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاۗءَ بِقَلْبٍ مُّنِيْبِ} (ق: ۳۳)، قیامت کے دن ایسا ہی پاکیزہ دل انسان کے کام آئے گا: { يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ۔ اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ} (الشعراء: ۸۸۔۸۹) جو لوگ ہدایت سے محروم ہیں، ان کا سب سے بڑا مرض یہ ہے کہ ان کے دلوں میں قبولیت کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے: { لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا} (الاعراف: ۱۷۹)یہاں تک کہ بعض دفعہ تو انسان اپنی اس بے توفیقی پر اترانے لگتا ہے اور اس کے دل کے دروازے اس طرح بند ہوجاتے ہیں کہ وہ جذبہ خیر سے بالکلیہ محروم ہوجاتا ہے: { وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ۭ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِھِمْ} (البقرۃ: ۸۸) قلب انسانی کی اسی اہمیت اور اعمال و اخلاق میں اس کے غیر معمولی کردار کی وجہ سے قرآن مجید میں باربار اس بات کا حوالہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے احوال سے واقف ہیں: { وَهُوَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ} (الحدید: ۶)۔
انسان کے لئے ایک بہت بڑی ضرورت دل کے اصلاح کی ہے؛ کیوںکہ تمام اچھے اور برے اعمال کا اصل سرچشمہ انسان کا دل ہے؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب اس کا رخ درست ہوجاتا ہے تو انسان کی ساری زندگی درست ہوجاتی ہے اور اگر وہ درست نہ رہا تو انسان کا پورا وجود بگاڑ میں مبتلا ہوجاتا ہے: ’’إن فی الجسد مضغۃ إذا صلحت صلح کلہ وإذا فسدت فسد کلہ ألا وہي القلب‘‘ (السنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۰۱۸۰)۔
اس وقت دنیا میں شاید سب سے اہم مسئلہ یہی ہے کہ انسان کے دل بدلے جائیں، صنعت و ٹکنالوجی نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ زمین کی گہرائیوں سے لے کر فضاء کی اتھاہ بلندیوں تک ہر جگہ انسان رسائی حاصل کرچکا ہے اور مسلسل اس کی ترقی کا سفر جاری ہے، راحت و آسائش کے ایسے ایسے سامان اس نے کرلئے ہیں کہ گویا وہ جنت کا مقابلہ کرنے کے لئے کوشاں ہے؛ لیکن دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ اس کی یہ علمی ترقی انتہائی غلط مقاصد کی طرف بڑھتی جارہی ہے، اس نے انسان کی زندگی بچانے کے لئے جتنی دوائیں ایجاد کی ہیں، اس سے زیادہ انسان کو ہلاک کرنے والے ہتھیار بنالئے ہیں، میڈیکل سائنس ترقی کے اوجِ کمال پر پہنچ چکی ہے، اس نے علاج کے نت نئے طریقے دریافت کرلئے ہیں؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علاج کو تجارت بنا لیا گیا ہے، تعلیمی اداروں کی بہتات ہے اور شرح تعلیم میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تعلیم جیسے مقدس پیشہ کو خالصتاً کسب زر کا ذریعہ بنالیا گیا ہے اور تعلیم نے زبردست کاروبار کی حیثیت اختیار کرلی ہے، پھر ان اداروں سے سند فراغت حاصل کرکے جو لوگ میدانِ عمل میں اترتے ہیں، دن و رات وہ سنگین قسم کے الزامات میں ماخوذ ہوتے رہتے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ جو لوگ دین کے مختلف شعبوں سے جڑے ہوے ہیں،مال کی طمع اور عہدۂ و جاہ کی حرص نے انہیں بھی اپنی زلفوں کا اسیر بنارکھا ہے، بڑی بڑی دینی جامعات میں اس بات کی لڑائی ہے کہ ناظم اور صدر مدرس کون بنے گا؟ تنظیموں میں صدر اور جنرل سکریٹری بننے کے لئے جنگ و جدال کا ایسا بازار گرم ہے کہ عام مسلمان ان کا حال سن کر انگشت بد نداں ہیں، دینی جماعتوں میں جھگڑا ہے کہ امیر کون ہوگا اور شوری میں کس کی حصہ داری ہوگی؟ بخاری شریف کا آغاز ایک ایسی حدیث سے ہوتا ہے، جس میں اخلاص نیت کی تعلیم دی گئی ہے؛ لیکن صورت حال یہ ہے کہ جن لوگون نے پوری پوری عمر قرآن و حدیث کی تدریس میں گذاری ہے، وہ اس بات پر لڑتے ہیں کہ بخاری شریف کا درس تجھ سے متعلق ہو یا مجھ سے؟ کیوںکہ مدارس کے اندر بخاری شریف کے درس سے لوگوں نے عزت و وقار کو متعلق کرلیا ہے، انتہاء یہ ہے کہ دینی جامعات اور دینی تنظیموں کے مقدمات سرکاری عدالتوں میں چل رہے ہیں، جو لوگ عام مسلمانوں کو سرکاری عدالتوں میں جانے سے روکتے ہیں،وہ خود عدالتوں کی چوکھٹ پر کھڑے ہیں، خانقاہیں تزکیۂ قلوب کا مرجع تھیں؛ لیکن یہاں تولیت کے جھگڑے ہیں اور اوقاف پر قبضہ وتصرف کی لڑائی ہے۔
آخر یہ سب کچھ کیوں؟۔ کیا اس کا سبب علم کی کمی ہے؟ کیا اس کا باعث معاشی پسماندگی ہے؟ کیا اس کی وجہ تعلیم کا پچھڑا پن ہے؟؟ نہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے درد دیوار کو سجانے کی کوشش کی، جسم و تن کو آراستہ کیا، علوم و فنون کے چراغ روشن کئے، ایجادات واختراعات پر اپنی بہترین صلاحتیں صرف کیں، عیش و عشرت کے نقشے سجائے؛ لیکن دل کی دنیا کو سجانے کی کوئی کوشش نہیں کی، یہ دنیا اندھیری کی اندھیری رہ گئی،اور اس دنیا کی تاریکیاں بڑھتی چلی گئیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری مثال اس ظاہر بیں کاشت کار اور باغبان کی ہوگئی ہے،جو پودوں کے تنوں اور درختوں کی ٹہنیوں پر تو پانی کا ایک دریا بہادے؛ لیکن جڑوں کو پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پہنچائے؛ حالاںکہ جب تک جڑوں میں تراوٹ و تازگی نہ پیدا ہوگی، اس وقت تک تنوں اورشاخوں کو پانی دینا کچھ کام نہ آئے گا۔
اسی لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کی اصلاح کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا؛کہ جب دل کی دنیا روشن ہوگی تو دین کے تمام شعبوں میں روشنی آئے گی، اسی کو قرآن مجید میں تزکیہ سے تعبیر کیا گیا ہے،اور اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ ذمہ داری قرار دیا گیا ہے کہ وہ انسان کے باطن کو گناہ کی آلائشوں سے پاک کریں: { يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰاتہ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ} (آل عمران: ۱۶۴)اور اسی کو حدیث میں ’’احسان‘‘فرمایا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو،یا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ اگر تم اللہ کو نہیں دیکھ رہے ہو تو اس بات کا استحضار ہو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہے ہیں: ’’أن تعبد اللہ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: ۴۸)۔
عبادت، نماز و روزہ ہی تک محدود نہیں ہے، یہ تو عبادت کے اعلیٰ ترین مظاہر ہیں؛ لیکن اصل یہ ہے کہ عبد کے ہر عمل میں عبادت کا رنگ ہو اور بندہ کا ہر لمحۂ زندگی بندگی کے نور سے روشن ہو، خاندانی زندگی ہو، لوگوں کے ساتھ معاملات ہوں، یا انسان کے اخلاق، ہر جگہ اور ہر موقع پر خدا کا استحضار ہو، جیسے انسان کتنی بھی تیز سواری چلا رہا ہو، اگر سواری کو کنٹرول کرنے والا کیمرہ آجائے تو آدمی اپنی رفتار پر فورا کنٹرول کرتا ہے؛ حالاںکہ سامنے رو کنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی، ٹوکنے والی کوئی زبان نہیں ہوتی اور بظاہر ایکسیڈنٹ کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا؛ لیکن اس کے باوجود گاڑی چلانے والا احتیاط کا دامن تھام لیتا ہے، اس کے بڑھتے قدم تھم جاتے ہیں، دل کی اصلاح سے انسان کے رویہ میں یہی مثبت تبدیلی آتی ہے۔
دل میں صالح تبدیلی ہی کا نام تقوی ہے؛ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’التقوی ہہنا وأشار إلی الصدر‘‘ رمضان المبارک تقوی کا مہینہ ہے اور روزے اسی لئے فرض کئے گئے ہیں کہ انسان کے اندر تقوی پیدا ہو: { كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ} (البقرۃ: ۱۸۳)تقوی کی تربیت کے اس مہینے میں ہر مسلمان کو اپنا جائزہ لینا چاہئے اور دل کی دنیا روشن کرنے کی فکر ہونی چاہئے، ہر عہد میں اللہ کے جو نیک بندے گذرے ہیں، معروف کرخیؒ اور بشر حافیؒ، شقیق بلخی ؒاور بایزید بسطامیؒ، جنید بغدادیؒ اور ابوبکر شبلیؒ، شیخ شہاب الدین سہروردیؒ اور شیح محمد رفاعیؒ، شیح ابو الحسن شاذلیؒ اور خواجہ عثمان ہارونیؒ، خواجہ معین الدین چشتیؒ اور خواجہ بہاؤ الدین نقشبندیؒ، خواجہ باقی باللہؒ اور شیخ احمد سرہندیؒ،اور پھر ان کے بعد آنے والے علماء و مشائخ، یہ سب دل کی دوا بیچنے والے، باطن کے معالج اورروحانیت کے سودا گر تھے، جن کے ذریعہ لاکھوں انسانوں کی اصلاح ہوئی اور بے شمار افراد ہدایت سے سرفراز ہوئے، آج بھی انسان کو حقیقی انسان اور مسلمان کو سچا مسلمان بنانے کے لئے اسی علاج کی ضرورت ہے، اور اسی کی کمی ہے کہ ظاہری کمالات میں ترقی کے باوجود متاع انسانیت گم ہوتی جارہی ہے، انسان اگر اپنے من میں ڈوب جائے، اپنی حقیقت کو اچھی طرح سمجھے اور قلب وروح کی تروتازگی کا سامان کرے تو اس کے لئے سراغِ زندگی کو پانا چنداں دشوار نہیں:
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.