کس سے امید رکھیں؟؟؟

مدثر احمد

ایڈیٹر روزنامہ آج کا انقلاب۔ شیموگہ۔

ایک گریجویٹ نوجوان کو میں نے مشورہ دیا کہ وہ اب یو پی یس سی امتحان کے لئے تیاری کرے اور یو پی یس سی امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد آئی اے یس یا آئی پی یس بن کر ملک و ملت کی خدمت کرے ۔ میرے مشورے پر اس نوجوان نے جو جواب دیا ، اسے سن کر میں لاجواب ہوگیا۔ نوجوان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سر، یو پی یس سی میں میں کامیاب ہو بھی جا ئوں تو ملک کی خدمت کرونگا ، لیکن اس ملت کے لئے کیونکر کام کروں جو محمد محسن جیسے مظلوم آئی پی یس افسر کے لئے آج کے وقت میں ساتھ دینے کے لئے آگے نہیں آئی ، جبکہ محمد محسن قوم کے تئیں مخلص افسر مانے جاتے ہیں ۔ جب ہم آگے چل کر قوم کے لئے آواز اٹھاتے ہیں یا پھر قوم کی فلاح و بہبودی کو ترجیح دینے لگیں گے اور ہم پر کسی طرح کی پریشانی ہوجائے تو کون ہمارا ساتھ دیگا ؟۔ واقعی میں اس نوجوان کا جواب سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔ ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں برے وقت میں کسی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتااور قوم کے وہ لوگ جنہوںنے اپنے آپ کو قوم کو رہنما ء ، رہبر اور قائدین کا درجہ دئے ہوئے ہیں وہ لوگ اپنی کرسیوں کو مضبوط کرنے اور اپنے مفادات کی تکمیل تک محدود ہو چکے ہیں ۔ بات سیاست کی ہو یا پھر دیگر شعبوں کی ۔ ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ آگے قیادت کرنے والوں کو قیادت کرنے کے لئے ساتھ نہیں دیا جاتا۔ جب سیاسی میدان میں کوئی آگے آرہا ہوتا ہے تو اس کی تائید کرنے کے بجائے اس کی اس قدر تنقیدیں شروع کی جاتی ہیں کہ وہ پست ہمت ہوجاتے ہیں اور انہیں اس میدان سے بھگانے تک دم نہیں لیا جاتا۔ محمد محسن کی ہی مثال لیں ، ایک قابل افسر کو بلاوجہ اسکی ایمانداری کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اور انہیں معطل کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ، اگر یہی حال کسی اور قوم کے کسی قابل افسر کے ساتھ ہوتا تو نہ صرف اسکے افسرا برادری کی جانب سے آواز اٹھتی بلکہ اس کی ذات اور مذہب کے لوگ سڑکوں پر اتر آتے ، اس افسر کی تائید میں حکومت کو ہلادیتے لیکن ہماری قوم کو اس سے کیا سروکار ؟۔ عام لوگوں کی بات تو دور ، خود اپنے آپ کو مسلمانوں کے قائد کہلانے والے لیڈران ، یم یل اے ، یم یل سی ، یم پی نے بھی کبھی محمد محسن کی تائید میں ایک لفظ کہنا گنوارہ نہیں سمجھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے قوم کے جو لیڈران ہیں انکے سامنے مسلم افسران ہوں یا مسلم صحافی ، گھر کی مرغی دال برابر کی طرح ہیں اور انہیں انکی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے ۔ یہ لوگ صرف انکی جی حضوری کروانا چاہتےہیںاور جب ان افسروں کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے تو اسکے لئے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہوتا۔ جب قوم کے باصلاحیت لوگوں کو پریشانیوں میں کوئی ساتھ نہیں دیتا ہے تو کیونکر وہ قوم کے تعلق سے مثبت سوچ رکھے گا۔ زندگی بھر محنت کرتے ہوئے کوئی مقام حاصل کرلے پھر اسکے مقام کو کوئی عزت نہیں دے گا تو وہ ہندوستان میں رہ کر کیوں اپنے آپ کو غلام بنائے رکھے ، باصلاحیت لوگوں کے لئے کہیں بھی روزگار مل جاتے ہیں جس سے وہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کی زندگیوں کو پر تعیش بنالیتے ہیں ۔ آج امت ان لوگوں کو اہمیت دینا چھوڑ چکی ہے جو حقیقی حقدار ہوتے ہیں اور ان لوگوں کو تخت پر بٹھانا چاہتی ہے جو قوم کے نام پر قوم کا استعمال کرتے ہوئے قوم کے سودا گر بن جاتے ہیں ۔ اسکی ایک مثال کنہیا کمار بھی ہیں ۔ کنہیا کمار ، خالد عمر اور شہلارشید تینوں نے جے ین یو کالج سے مودی حکومت کے خلاف آواز بلند کی ۔ تینوں کا برابر کا حصہ تھا ۔ لیکن کنہیا کمار کو اسکی قوم نے ساتھ دیا ، اسکی ذات نے اسے آنکھوں پر بٹھا لیا اور اسے ہر جگہ اہمیت دی جانے لگی تو آج کنہیا کمار ہندوستان کے بارسوخ افراد کی فہرست میں شامل ہوگیا ۔ وہیں خالد مسعود کے پاس بھی کنہیا کمار سے کہیں زیادہ قائدانہ صلاحیتیں ہیں تو خالد مسعود کو اسکی قوم نے اس طرح سے نظر انداز کردیا کہ وہ اب پس پردہ ہوچکے ہیں ۔ اسی طرح سے شہلارشید کی بات کی جائے تو اس نوجوان لڑکی کی صلاحیتوں پر بات کرنے والے لوگ ہمارے درمیان نہیں ہیں ، اسکے برعکس یہ کہا جاتاہے کہ وہ ایک مسلم لڑکی ہوکر بے حجاب گھومتی ہے ، نوجوانوں کے درمیان رہتی ہے ، ماڈرن کلچر والی ہے ، شہلا اب شیلا یا سوشیلا بن چکی ہے ۔ اس طرح کے طنزو تنقیدیں جب قوم کی ابھرنے والی نسل پر ہونے لگیں گی تو یقینی طور پر قوم قیادت سے محروم ہوجائیگی اور ہم اپنا پرانہ رونا کہ ہمارے پاس قائدین کی کمی ہے کا نہیں چھوڑیں گے ۔ شہلارشید پر جو طنز برسائے جارہے ہیں وہ الگ ہے لیکن میں سوال یہ بھی کرنا چاہوںگا کہ جو لڑکیاں باحجاب ہیں ، ٹریڈیشنل ہیں ، صرف گھروں میں بند ہیں ان میں سے کتنی عورتیں پارسا ہیں ، وہ کس طرح سے قوم و ملت کی کام آرہی ہیں اور کس طرح سے اسلامی اصولوں پر قائم ہیں اسکا جواب بھی چاہئے ۔آج قوم کو دلالوں کی دلالی اور حرام خوروں کی حرامی پن سے بچاکر جو لوگ انکی صحیح رہنمائی کرنا چاہتےہیں وہ نظر انداز ہورہے ہیں اورجو لوگ قوم کے نام پر چندوں کادھندہ کررہے ہیں وہ قائدین ہوتے جارہے ہیں ۔ اب قوم کو ایسے لوگوں سے بچنے کی ضرورت ہے ، آج جو بات میں لکھ رہا ہوں وہ آنے والے دنوں میں صدفیصد صحیح ہونگے اس لئے ہماری قوم کو چاہئے کہ وہ قوم کے باصلاحیت لوگوں کو آگے لائیں ، آپ کے درمیان ڈاکٹر ہیں تو ان ڈاکٹروں کو اپنا قائد تسلیم کریں ، آپ کے پاس اساتذہ ہیں تو انہیں اپنا قائد بنائیں ، آپ کے پاس اڈوکیٹ ہیں تو انہیں اپنا لیڈر مانیں ، آپ کے پاس اچھے تاجر ہیں تو انہیں انکے شعبے میں قیادت کرنے کے لئے ابھاریں ، آپ کے درمیا ن صحافی ہوں تو انہیں صحافت کے شعبے میں لیڈر قرار دیں ، جب قوم اپنوں سے امید بنائے رکھے گی تو اپنے قوم کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھیں گے ، جب تک ہم ہر شعبے میں اپنے قائدین کو نہیں ابھارتے اس وقت تک سیاست میں موجود قوم کے لیڈر نما لوگ قوم کا استحصال کرتے رہیں گے جس کا نقصان آنے والی نسلوں کو اٹھانا پڑے گا ۔موجودہ حالات کا جائزہ لیں ، اگر آپ کو کوئی کہے کہ آپ کی قوم میں کون لیڈر ہیں تو آپ وہی گھسے پھٹے سیاستدانوں کے نام لینگے نہ کہ مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والوں کا تذکرہ کرنے کی آپ کے پاس استطاعت ہے ۔ لیڈر صرف سیاست سے جڑا ہوا شخص نہیں ہوتا بلکہ ہر شعبے میں ہوتا ہے ، بس اسے پہچاننے کی ضرورت ہے ہوتی ہے ۔

Comments are closed.