Baseerat Online News Portal

ووٹ کا قرآنی اصول

نوائے بصیرت 
غفران ساجدقاسمی
چیف ایڈیٹر بصیرت آن لائن

’’یٰایھاالذین آمنواکونواقوامین بالقسط شھداء للہ ولوعلیٰ انفسکم اوالوالدین والاقربین،ان یکن غنیااوفقیرافاللہ اولیٰ بھما۔‘‘(النساء:۱۳۵)
ترجمہ:۔اے ایمان والو!قائم رہوانصاف پر،گواہی دواللہ کی طرف اگرچہ نقصان ہوتمہارایاماں باپ کایاقرابت والوں کا،اگرکوئی مالدارہے یامحتاج ہے ،تواللہ ان کاخیرخواہ تم سے زیادہ ہے۔(معارف القرآن)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں اپنے بندوں کواپنی بندگی کاطریقہ سکھلایا،معاشرے میں زندگی گذارنے کے آداب سکھلائے وہیں اللہ جل جلالہ نے انہیں دنیامیں عدل وانصاف اورامن وامان قائم رکھنے کی ہدایت بھی دی کہ اے ایمان والوانصاف پرقائم رہو،کسی کے ساتھ ناانصافی نہ کرو،گواہی اور شہادت دینے کی ضرو رت پیش آئے توبالکل سچی گواہی دوخواہ وہ گواہی تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو، تمہارے والدین کے خلاف ہی کیوں نہ ہو،یاتمہارے عزیزواقارب اورقریب ترین رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو،ہرحال میں عدل وانصاف پرقائم رہو،اورحق بات کہنے سے نہ ڈرو۔اگرکوئی مال دار ہے یامحتاج توتم سے زیادہ اس کاخیرخواہ اللہ ہے۔تم اس کی فکرنہ کرو۔
آیت کریمہ میں تین باتیں واضح طورپرذکرکی گئی ہیں:۱) انصاف پرقائم رہو۔ ۲) حق بات کی گواہی دویعنی سچی بات کہو۔۳) حق بات کہنے میں والدین یا قرابت داروں کاخیال نہ رکھو۔
اسلامی نظام کایہ ایسابنیادی اصول ہے کہ اگرپوری دنیااس پرعمل پیراہوجائے تو دنیا میں ہر طرف امن وامان اورعدل وانصاف ہی نظرآئے گا۔اگرہرشخص اپنی جگہ ٹھان لے کہ اسے خوداپنے تمام معاملات میں انصاف سے ہی کام لیناہے ،اورہرمعاملے میں سچی گواہی دیناہے خواہ وہ گواہی خوداس کی اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ پڑے تویقینادنیاعدل وانصاف کاگہوارہ بن جائے گی۔
اس آیت کاایک ٹکڑاجس پہ ہمیں خاص طورسے روشنی ڈالنی ہے وہ ہے’’شھداء للہ‘‘اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوںکوخطاب کرتے ہوئے فرمارہاہے کہ ایسی گواہی دوجوصرف اللہ کے لیے ہو۔گواہی کی بہت ساری قسمیں ہیں:ایک یہ بھی ہے کہ عدالت میں جج کے سامنے کسی کے حق میں یاکسی کے خلاف گواہی دے،ایک قسم یہ بھی ہے کہ چاندکے دیکھنے یانہ دیکھنے کی شہادت دے۔لیکن میرامقصودیہاں آیت کے اس ٹکڑے سے الیکشن میں ووٹ دینے کی شرعی حیثیت اوراس سلسلے میں اسلامی نقطۂ نظرپیش کرنا ہے۔ آپ ذراغورکریں تومعلوم ہوگاکہ آپ جوووٹ ڈالتے ہیں جوکہ آپ کااپنا حق ہے،وہ بھی ایک طرح کی گواہی ہے۔آپ کی یہ گواہی اس شخص کوجسے آپ ووٹ دے رہے ہیں اسے اسمبلی یاپارلیامنٹ میں بحیثیت آپ کے نمائندہ کے پہونچائے گی۔اب آپ کو دیکھناہے کہ آپ جس کے حق میں ووٹ دے رہے ہیں وہ اس لائق ہے کہ وہ حق وانصاف کی آواز بلند کر سکے۔خودبھی انصاف پرقائم رہے اورامن و امان کاعلمبردارہو۔آپ ووٹ ڈالتے وقت یہ نہ دیکھیں کہ وہ آپ کے والدہیں،بھائی ہیں یاآپ کے کوئی بہت ہی عزیزترین رشتہ دار۔اگرآپ نے اپنے ووٹ کا استعمال محض رشتہ داری اورقرابت کی وجہ سے کیا تو یقینااس کے ظلم وجورکے کاموں میں آپ بھی برابرکے شریک ہوں گے۔
حضرت مفتی شفیع صاحبؒ معارف القرآن میں تحریرفرماتے ہیں:جس طرح نیک صالح قابل آدمی کوووٹ دیناموجب ثواب عظیم ہے،اوراس کے ثمرات اس (ووٹر)کوملنے والے ہیں اسی طرح نااہل یاغیرمتدین شخص کوووٹ دیناجھوٹی شہادت بھی ہے اوربری شفاعت بھی ہے اور ناجائز وکالت بھی اوراس کے تباہ کن اثرات بھی اس (ووٹر)کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے، اس لئے ہر مسلمان ووٹر پر فرض ہے کہ ووٹ دینے سے پہلے اس کی پوری تحقیق کرلے کہ جس کوووٹ دے رہے ہیں، وہ کام کی صلاحیت رکھتاہے یانہیں اوردیانتداری ہے یانہیں؟محض غفلت وبے پروائی سے بلاوجہ ان عظیم گناہوں کا مرتکب نہ ہو‘‘۔(معارف القرآن:۳؍۷۰)اسی طرح حضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی تحریر فرماتے ہیں: ’’ایک شخص کوغیرمفیدسمجھنے کے باوجوداس کوووٹ دیناشہادت زور(جھوٹی گواہی) جھوٹا مشورہ اورغلط سفارش جیسے گناہوں کاحامل ہے‘‘۔(جدیدفقہی مسائل:۱؍۴۵۸)ایسے ہی کسی غیراہل کواپنی رائے سے کسی منصب پرفائزکرنازمین میں فسادمچانے سے کم نہیں۔اسی سلسلے میں ارشادنبوی ؐ ہے:’’اذا وسدالامر الیٰ غیراہلہ فانتظرالساعۃ‘‘جب حکومت نااہل لوگوں کے سپردکئے جائیں توقیامت کا انتظار کرنا۔ (بخاری:۱؍۱۴)
الغرض!ہمیں چاہیے کہ ووٹ جوکہ ایک شہادت ہے،اسے ہم بالکل اسی اندازسے استعمال کریں جیساکہ مذکورہ آیت میں فرمایاگیا،ورنہ کہیں ایسانہ ہوکہ بے خبری میں یاجان بوجھ کرمحض کسی منفعت یاقرابت کے جھانسے میں آکرایسے شخص کواپناووٹ نہ دیدیں جوکہ اس کااہل نہ ہو،اوراس کے گناہوں میں ہم برابرکے شریک ہوتے رہیں۔٭٭٭

Comments are closed.