سفراء اور امراء کی خدمت میں چند معروضات

✏ فضیل احمد ناصری
عام خیال یہی ہے کہ نصف شعبان ہوتے ہی سارے دینی مدارس بند ہو جاتے ہیں اور دو ماہ کی طویل چھٹی۔ طلبہ اور اساتذہ سب کے لیے مزے ، مگر ایسا ہے نہیں۔غیر حافظ طلبہ کی چھٹی تو خیر امرِ واقع بھ ہے، تاہم حفاظ طلبہ اور اساتذہ کے لیے سالانہ تعطیل در اصل حرفِ فریب ہے۔ ان کی کوئی زمینی حقیقت نہیں۔ ان کی رخصت کا امتداد زیادہ سے زیادہ بیس دنوں تک ہے۔ دس دن شعبان کے اور دس دن شوال کے۔ پھر وہی مشقِ سخن اور چکی کی مشقت۔ ماہِ رمضان آتے ہی یہ اساتذہ اپنے گھروں سے نکل جاتے ہیں۔ وہ بھی تین چار دن پیش تر۔ پھر پورے ماہ ملک کے طول و عرض میں ایسا گھن چکر ہوتا ہے کہ خدا کی پناہ! عاشقِ بدنام کی طرح کبھی یہاں اور کبھی وہاں۔ کبھی اس ضلع کبھی اس صوبہ۔ پرندے بھی اپنی ڈالیاں اتنی تبدیل نہیں کرتے جتنی یہ علما کرتے ہیں۔ ان کی حالت دیکھ کر بسا اوقات رونا آتا ہے کہ یہ علما اپنے بیوی بچوں کو آخر کتنا وقت دے پاتے ہوں گے۔ گیارہ مہینے مدرسے میں اور ایک ماہ اسفار میں۔ پورے سال میں صرف ایک ماہ!!! یا اللہ! یہ اساتذہ کتنے غم دیدہ ہیں!! انہیں گھر کی فضا بھی ٹھیک سے نہیں ملتی۔ اے اللہ! ان پر رحم فرما!
*تکلیف دہ اسفار پر روانہ علما*
کئی دہائیاں پیش تر عازمینِ حج سفر پر نکلتے تو ان کے سامنے خطرات تھے۔ ہوائی جہاز کی سہولت ابھی آئی نہ تھی۔ پانی جہاز سے حج کا یہ سفر پورا کیا جاتا۔ جانے والے یہی سمجھتے کہ واپسی کی امید نہیں، اس لیے رو دھو کر جاتے۔ معافی تلافی کر کے نکلتے۔ آج مدارس کے اساتذہ کے ساتھ بھی یہی صورتِ حال ہے۔ سفر پر نکلنا گویا سر بہ کف نکلنا ہے۔ پورا ملک گجرات بن چکا۔ امن و سکون غارت ہے۔ داڑھی والے ہر جگہ موجبِ ملامت اور مستحقِ تعزیر ہیں۔ ایک بھیڑ امنڈتی ہے اور مولوی صاحب پر حملہ آور ہو جاتی ہے۔ اسی رمضان میں ایک چندہ کنندہ مولانا پر جان لیوا حملہ بھی ہوا اور پیسے بھی چھین لیے گئے۔ سفر قطعی آسان نہیں رہا، مگر یہ علما اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لیے مدرسے کی خیرخواہی میں نکل رہے ہیں۔ نہ بیوی بچے کی فکر، نہ اقارب کی پروا، نہ مصلحتِ زندگی ۔ واقعی! یہ مدارس والے کتنے سخت جان ہوتے ہیں!
*سفر یا عذاب؟*
احادیث میں سفر کو عذاب کا ایک جز بھی کہا گیا ہے۔ یہ درست کہ سفر سے اسرارِ زندگی کھلتے ہیں، چناں چہ بعض احادیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سفر کے بعد آدمی پختہ ہوتا ہے، مگر ہے یہ عذاب ہی۔ آپ ان علما کو دیکھیں گے کہ کس طرح سفر پر نکلتے ہیں۔ اے سی ٹکٹ ان کے پاس نہیں ہوتا۔ سلیپر کا ٹکٹ ہوتا تو ہے، لیکن بھیڑ اتنی کہ جنرل ڈبے کا گمان ہونے لگے۔ ادھر سے ادھر کھسکنا کارے دارد۔ پتھر کے صنم کی طرح ایک جگہ بیٹھے رہیے۔ گرمی کا موسم۔ لو کے شدید تھپیڑے۔ پانی کی قلت۔ جیب بھی ساتھ نبھانے سے عاری۔ ان پر مستزاد مختلف الانواع مسافروں کی ہم رکابی۔ کوئی بیڑی پی رہا ہے۔ کوئی سگریٹ اڑا رہا ہے۔ کوئی تمباکو مل رہا ہے۔ کوئی بار بار تھوک رہا ہے۔ بیت الخلا تک آدمیوں سے اٹے ہوئے۔ بہتوں کے پاس سلیپر کا ٹکٹ نہیں ہوتا تو جرمانے دے کر سفر کرتے ہیں۔ رہے جنرل ڈبے والے! اللہ کی پناہ! کسی مجرم کی سزا کے طور پر اس کا سفر تجویز ہو تو اس سے بڑی سزا نہیں ہو سکتی۔ لایموت فیہا ولا یحییٰ۔ موت و حیات کی کش مکش۔ سارا سفر کھڑا رہنا ہے۔ جسم چھل رہا ہے۔ ٹس سے مس ہونے کی کوئی سبیل نہیں۔ کھڑے ہونے کی بھی گنجائش نہیں۔ جنرل میں گھسے ہیں تو آپ پانی نہ پئیں وہی اچھا ہے۔ کھانا نہ کھائیں یہی بہتر ہے۔ استنجائی تقاضے پر جبر کیجیے۔ بیت الخلا کا راستہ ہی بھول جائیے۔ ایک دن نہیں، پورے دو دو، تین تین دن اسی انداز کا سفر۔ یہ اساتذہ چندے کے لیے اس طرح نکلتے ہیں، بقول کلیم عاجز:
کیسے کیسے دکھ نہیں جھیلے، کیا کیا چوٹ نہ کھائے
پھر بھی پیار نہ چھوٹا ہم سے، آفت بری بلائے
*ان کا احترام تو بنتا ہے*
عالم اور مدرسے سے وابستہ شخص تو یوں بھی محترم ہے کہ اللہ کے دین کی نصرت کے لیے گھر بار چھوڑ کر پڑا ہوا ہے۔ سفر میں نکلنے والے علما کا احترام تو اور بھی فرض ہے۔ یہ اللہ کے نمائندے ہیں۔ یہ رسول کے ترجمان ہیں۔ کس کس طرح آپ تک پہونچ رہے ہیں۔ خدا خدا کر کے آپ کے شہر میں پہونچے بھی تو انہیں کسی پل قرار نہیں۔ فرمانِ رسولؑ: *کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل* اس موقعے پر زیادہ یاد آتی ہے۔ سحری کہیں ہوتی ہے، فجر کہیں اور۔ ظہر کہیں، عصر کہیں، افطار کہیں۔ ساری نمازیں مختلف مساجد میں۔ دیوانوں کی طرح بھاگتے ہیں۔ سعی بین الامراء۔ ایک بار نہیں، بار بار۔ وہ بھی پورے ایک ماہ تک۔ ان کا احترام بنتا تو ہے۔
*امراء سے شکایتیں*
اتنی پر مشقت مہم اور عذابِ جاں محاذ، مگر ہمارے امراء ان سب سے قطعِ نظر ویسا ہی سلوک کرتے ہیں، جیسا کہ عام بھیک منگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ سخت و درشت لہجے میں بات ہوتی ہے۔ انہیں دھکے دیے جاتے ہیں۔ لمبی لمبی قطاروں میں انہیں کھڑا کیا جاتا ہے۔ حالان
کہ ان میں شیوخ الحدیث بھی ہیں اور اساتذۂ حدیث بھی۔ کوئی مفسر ہے تو فقیہ۔ کوئی امام المنطق ہے، کوئی امام الفلسفہ۔ کوئی مصنف ہے تو کوئی مناظر۔ کوئی دنیائے خطابت کا شہ سوار ہے۔ ان سب کے اپنے حلقے ہیں۔ ان کا اپنا ایک مقام ہے۔ مگر یہ لائن میں کھڑے ہیں۔ حقیر و ذلیل بن کر۔ عزتِ نفس کو مجروح کیے ہوئے۔ متاعِ آبرو لٹائے ہوئے۔ ایسا لگتا ہے کہ مجرمین عدالت میں کھڑے ہیں اور ان کا حساب و کتاب چل رہا ہے۔ ان کی کاپیاں دیکھی جاتی ہیں۔ ان سے دستاویزات کا مطالبہ ہوتا ہے۔ ضروری کاغذات نہ ہونے پر بیرنگ واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
*علاقائی تصدیقات کا عذاب*
ان کے ساتھ ایک بڑا ستم علاقائی تصدیقات بھی ہیں۔ اگر آپ ممبئی میں ہیں تو جمعیۃ علما مہاراشٹر کی تصدیق کے بغیر کسی سیٹھ کے پاس ہرگز نہ جائیں۔ آپ کے پاس دارالعلوم دیوبند کی تصدیق ہو، وقف دارالعلوم کی ہو، جامعہ امام محمد انورشاہ، دیوبند کی ہو۔ مظاہرِ علوم کی ہو۔ ہندوستان کے بڑے سے بڑے ادارے کی تصدیقات ہوں، اگر آپ ممبئی آئے ہیں تو جمعیۃ کی تصدیق ضرور حاصل کیجیے، ورنہ ساری تصدیقات کوڑے دان میں ڈال دیجیے۔ پھر جمعیۃ علما مہاراشٹر کے دفاتر میں ایسے لوگ بیٹھے ہیں جن سے ان کے ملاقاتی سخت نالاں ہیں ۔ ان کے رویے سے شدید افسردہ۔ مجھ سے کئی لوگوں نے بتایا کہ یہاں علما کے ساتھ بڑی سخت گیری ہے۔ اس جگہ یہ خط بھی پڑھ لیجیے جو میرٹھ کے ایک مولانا نے مجھے بھیجا ہے:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہونگے۔۔
خدمت آنجناب میں درخواست یہ ہے کہ۔۔۔۔
جمعیة(ارشد مدنی)
(محمود مدنی)
ان کے رویہ پر پر بھی کچھ تحریر کردو۔۔۔۔ بداخلاق اہلکاروں کو آفسوں میں بٹھا رکھا ہے۔۔۔
تھوڑی اس طرف بھی توجہ ہوجائے کہ دارالعلوم دیوبند کی تصدیق کی جمعیت کے مقابلے میں کوئی اہمیت ہی نہیں سمجھی جاتی۔۔۔حالانکہ دارالعلوم دیوبند سب کے نزدیک جمعیت سے زیادہ قابلِ اعتماد ہے۔
میں نے ازراہِ مصلحت مکتوب نگار کا نام قصداً حذف کر دیا ہے۔ اگر فی الواقع ایسا ہے تو یہ رویہ قطعاً بہتر نہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس کی اطلاع دونوں جمعیتوں کے مرکزی دفاتر تک پہونچائی جانی چاہیے۔ بڑے بڑے ادارے کی تصدیقات کے بعد ایسا ہونا مناسب نہیں ۔ ٹھیک اسی طرح کی شکایت گجرات کے بعض علما سے بھی ہے۔ آپ گجرات چندے کے لیے گئے ہیں تو دارالقرآن احمد آباد کی تصدیق آپ کے لیے ناگزیر ہے۔ آپ بھلے ہی دارالعلوم، امارتِ شرعیہ اور دارالعلوم کنتھاریہ کی تصدیقات کا طومار لیے بیٹھے ہوں، اگر آپ کے پاس دارالقرآن کا تصدیق نامہ نہیں تو آپ کعبہ نہیں، ترکستان تشریف لے گئے ہیں۔ کچھ ملنے والا نہیں ہے۔ یہ رویہ سراسر غیرمنصفانہ ہے۔ کیا ایک چھوٹا سا ادارہ دارالعلوم جیسے اداروں پر بھاری پڑ سکتا ہے؟ افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب ذمے داروں کے حلیے پر نظر پڑتی ہے۔ یہ لوگ اچھے خاصے مولوی ہوتے ہیں۔ چہرہ اسلامی۔ لباس شرعی۔ داڑھی مذہبی۔ مگر گفتگو غیرمہذب۔ سلوک آمرانہ۔ سی بی آئی والے اتنی تحقیق کیا کریں گے، جتنی یہ "مقدس شخصیات” کرتی ہیں۔ یہ سب احوال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہم نے مدرسے میں پڑھ کر کوئی جرم کر لیا؟ جب مولوی ہی مولوی کا اکرام نہیں کرے گا تو دوسروں سے اس کی امید کیوں؟
*علما سے شکایتیں*
یہاں دوسروں کے ساتھ اپنوں سے بھی شکایتیں ہیں۔ دفعِ دخلِ مقدر کے طور پر ایک بات عرض کردوں۔ دارالعلوم دیوبند سمیت ملک کے کئی ادارے ہیں جہاں اساتذہ پر چندہ لازم نہیں ہے، انہیں میں سے ہمارا ادارہ بھی ہے، لہذا میری تحریر سے میری آپ بیتی کا گمان نہ کیا جائے۔ یہ آنے جانے والوں کا بیان کردہ درد ہے جو میری تحریر کی صورت میں اجاگر ہو رہا ہے۔ دوسروں پر تبصرے کے ساتھ اپنوں پر تبصرہ بھی ضروری ہے۔ تو بے تکلف عرض ہے کہ ہمارے بہت سے علما رمضان کے تقاضے پر پورے نہیں اترتے۔ ان کی تراویح تو جاتی ہی ہے، خاکم بدہن، ان کے روزے بھی جاتے ہیں۔ یہ لوگ سفر کے عنوان پر اپنے لیے رخصت ڈھونڈتے ہیں۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ جمعہ کے احترام میں اس دن کے سفر کو بہتر نہیں سمجھا گیا۔ اگر علما یوں ہی جواز و رخصت ڈھونڈیں گے تو عرض کروں گا کہ رمضان میں چندے کے لیے سفر کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ چندے کا نظام رمضان سے باہر لے جایا جائے، اس کے لیے ملکی سطح پر امرا اور علما کی مشاورتیں ہوں اور باہم گفت و شنید کے بعد اس نظام کو ختم کر کے غیر رمضان کی طرف منتقل کر دیا جائے، تاکہ یہ خرابی لازم نہ آئے۔ علما کی اس غلط حرکت کی وجہ سے امت کی بڑی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ علما کا ایک طبقہ وہ ہے جو جعلی رسیدیں چھاپ کر چندہ کر رہا ہے۔ مدرسے کا کہیں اتہ پتہ نہیں۔ نہ در، نہ دیوار، لیکن چندہ ہزاروں اور لاکھوں میں۔ بڑے ادارے کی تصدیقات بھی ان کے پاس نہیں ہوتیں، مگر چرب زبان ہیں۔ باتیں بنالیتے ہیں۔ فریب دے لیتے ہیں، اس لیے کامیاب بھی ہیں۔ ایسے فراڈی لوگوں کو چندہ دینا ہی جائز نہیں۔ چندہ دہندگان ایسے لوگوں پر نظر
رکھیں تو امت کا عظیم فائدہ ہے۔ وہ لوگ بھی چندے کرتے دیکھے جا رہے ہیں جو سرکاری مدرسے سے وابستہ ہیں اور وہاں نظامیہ کا کوئی نظام نہیں، مگر چندہ چل رہا ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ بھی داد و دہش جائز نہیں۔
یاد رکھیے! زکوٰة و صدقات کا تعلق مستحقوں سے ہے، انہیں وہیں پہونچانا ہم سب کی ذمے داری ہے، ورنہ آخرت کی سزا کے لیے تیار رہیے۔
Comments are closed.