خیر و برکت کا مہینہ

رضوان احمد ندوی امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
رمضان کا مبارک مہینہ اپنی رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ سایہ فگن ہوچکا ہے ، نیکیوں کے اس موسم بہار میں اللہ کی طرف سے جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، اور سر کش شیاطین کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے پھر بندہ ان اعمال خیر اور روزہ کی برکت سے اللہ سے اتنا قرب حاصل کر لیتا ہے کہ اللہ جل شانہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، اور اپنی خاص رحمت نازل فرماتے ہیں، خطاؤں کو معاف کر تے ہیں، دعاؤں کو قبول کرتے ہیں، اور رحمت ومغفرت اور آگ سے نجات کا فیصلہ فرما دیتے ہیں،پس خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس بابرکت مہینہ اور موسم بہار کی قدر کی ، اپنی زندگی کی قیمت سمجھی اور اس مہینہ کو ذکر وتلاوت، عبادت وریاضت ، صبر واستقامت اور زہد وطاعت میں گذارا، اور بد نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس ماہ مبارک کو فضول گوئی ، بد کلامی اور لغویات میں گنوادیا ، حدیث میں فرمایا گیا ، من لم یدع قول الذور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ جو شخص روزہ رکھ کر بیہودہ باتیں اور لغو حرکتیں نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے ۔ روزہ داروں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ ان کو بات بات پر غصہ آتا ہے ، مزاج میں چڑ چڑے کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ، یہ بات اچھی نہیں، روزہ بندگی ، شکستگی اور در ماندگی کی چیز ہے اس میں تواضع پیدا ہونی چاہئے، یہ روزہ کے منافی عمل ہے اور یہ نہ دیکھئے کہ گناہ کتنا چھوٹا ہے ، بلکہ یہ غور کرنے کا خوگر بنائیے کہ جس کی نا فرمانی کی جا رہی ہے وہ کتنا بڑا ہے ، لہذا وہ روزہ جو تقویٰ اور عفاف کی روح سے خالی ہو ، اللہ کو ناراض کرنے کا باعث ہوتا ہے۔
روزہ ایک سلبی عبادت ہے جس میں ایک محدود وقت تک کھانے پینے اور خواہشات نفس سے پر ہیز کیا جاتا ہے ، لہذا ضروری ہوا کہ جہاں سے اس کی ابتدء ہو وہاں بھی کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا عمل پایا جائے تاکہ کھانے کے بعد سے روزہ شروع ہو اور دوسرے کھانے پر ختم ہوجائے، جس کھانے سے روزہ کی ابتدا ہوتی ہے اس کو سحری کہتے ہیں اس کے ذریعہ انسان کو روزہ رکھنے میں طاقت ملتی ہے اور حدیث میں اس کھانے کو برکت کا کھانا کہا گیا ہے ، تسحروا فان فی السحور برکۃ ، سحری کھایا کرو اس میں بڑی برکت ہے ، جب شام کے وقت روزہ مکمل ہوجائے تو افطار کے ذریعہ روزہ کھولا جائے ، مگر وہ وقت دعاؤں کی قبولیت کا ہوتا ہے جب کوئی بندہ احساس ندامت کے ساتھ اللہ کے سامنے دست دراز ہوتا ہے تو اللہ اس کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہیں، طبرانی کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ افطار کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزادی عطا ہوتی ہے ، اس ماہ مبارک میں دعاؤں کا خاص اہتمام کرنا چاہئے ، دعاء ماثورہ ، کلمہ توحید وتمجید کی کثرت سے ورد کرنا چاہئے ، اور اس دعا ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار کے پڑھنے کا بڑا ثواب حدیثوں میں آیا ہے ۔ بلکہ رمضان کے تین عشرے کو اس دعاء کا مصداق قرار دیا گیا ہے ۔ پہلا عشرہ رحمت کا ہے ، ربنا آتنافی الدنیا حسنۃ۔ دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے ، وفی الآخرۃ حسنۃ ۔ تیسرا عشرہ دوزخ سے نجات کا ہے ۔ وقنا عذاب النار ۔
اس مہینہ کو قرآن کے ساتھ خاص مناسبت ہے، قرآن مجید اسی مہینہ میں نازل کیا گیا ، شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتاراگیا ، حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات حضور ٔ کے پاس آتے اور قرآن پاک کا دور کرتے تھے ، صحابہ تابعین وتبع تابعین سب اس ماہ میں کثرت سے تلاوت کرتے تھے ، اس لئے کہ قرآن کی تلاوت بھی عبادت ہے، اس سے روحانی زندگی میں تازگی وشگفتگی پیدا ہوتی ہے ، آپ بھی قرآن پاک کی تلاوت کیجئے اور اس کے معنی ومفہوم پر غوروفکر کی عادت ڈالئے تراویح کی نماز کا اہتمام پورے رمضان کرنا چاہئے ،ا س لئے کہ تراویح کی نماز سنت مؤکدہ ہے اور اس میں ایک ختم قرآن سننا یا سنانا بھی سنت مؤکدہ ہے ، جو لوگ پانچ ، دس دن میں ایک ختم قرآن کرکے تراویح پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں وہ تارک سنت ہیں، اس لئے کہ تراویح ایک مستقل سنت ہے ، اور قرآن کا سننا دوسری سنت ہے ، ایک سنت کو توادا کر لیا گیا ، مگر دوسری سنت کے ترک سے گناہ لازم آتا ہے ، تراویح کی یہ نماز مردوں کی طرح عورتوں پر بھی سنت ہے۔
یاد رکھئیے کہ ماہ رمضان کے آخری دس دن بہت ہی قیمتی اور قابل قدر ہیں ، احادیث میں ان کی بڑی فضیلت آئی ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جب ماہ مبارک کے آخری دس دن شروع ہوجاتے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کمر کس لیتے تھے اور رات رات بھر عبادت میں مصروف رہتے ، گھر کے لوگوں اور خویش واقارب کو بھی جگا تے تھے ، تاکہ اللہ کی یاد سے اپنے دلوں کو منور کریں، عبادت ، ذکر وتلاوت اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مسجد کے کسی گوشہ تنہائی میں بیٹھ جاتے ، جس کو اعتکاف کہتے ہیں اور وہاں اپنے دل کو اللہ کے ساتھ وابستہ کر لیتے ، علامہ ابن قیم ؒنے لکھا ہے کہ اعتکاف کی روح ہے دل کا اللہ کی طرف متوجہ ہوجانا اور مخلوقات سے الگ ہو کر صرف ایک خدا کی یاد میں مشغول ومنہمک ہوجانا ، اسی کی سوچ وفکر یہی تذکرے، اسی کی بات چیت یہاں تک کہ انسان کے دل ودماغ پرخدا ہی کا تصور چھا جائے اور اسی کی یاد دل میں سما جائے اور بجائے مخلوق کے خالق ہی سے دل لگنے لگے۔ اسی آخری عشرہ کی طاق راتوں میں وہ عظیم ومتبرک رات ہے جس کو قرآن پاک میں شب قدر کہا گیا ہے ، انا انزلناہ فی لیلۃ القدر، وما ادراک ما لیلۃ القدر ، لیلۃ القدر خیر من الف شہر، ہم نے قرآن پاک کو شب قدر میں نازل کیا، اور کیا آپ جانتے ہیں کہ شب قدر کیا ہے ، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر رات ہے، جو شخص اس رات اللہ کے حضور روتا گڑگڑاتا ہے ، عاجزی وانکساری کا اظہار کرتا ہے ، اللہ اس کے گذشتہ تمام گناہ بخش دیتے ہیں، اس رات کو اللہ نے اپنی حکمت ورحمت سے پوشیدہ رکھا تاکہ مسلمان اس کی تلاش میں رہیں، اور عبادات ومناجات کے ساتھ ان طاق راتوں کو گذاریں، بعض روایات وآثار میں مزید توقع ستائیس ،تئیس ، یا اکیس کی شب میں بتائی گئی ، اس لئے جو جس قدر ہمت کر سکے ان قیمتی راتوں سے فائدہ اٹھائے ، کیا معلوم آئندہ سال اس کا موقع ملے یا نہ ملے ۔
یہ مہینہ جس طرح بدنی عبادتوں کے لئے خاص ہے اسی طرح مالی عبادتوں کے لئے بھی اس کی بڑی اہمیت ہے ، روزہ دار کو افطار کرانا ، فقیروں ومسکینوں کی مدد کرنا ، یتیم ونادار بچوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کی کفالت کرنا بڑے اجر وثواب کی بات ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یا ابن آدم انفق انفق علیک اے آدم کی اولاد تو میری راہ میں مال خرچ کر میں تیرے اوپر خرچ کروں گا ، جو بھی مسلم بندہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا، حق تعالیٰ سبحانہ اس کے اجر کو بڑھا دے گا، اس ماہ میںنوافل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا زیادہ کر دے گا، دعاء ہے کہ اللہ جل شانہ ہم سبھوں کو رمضان کے فیوض وبرکات سے بہرور کرے ، لغزشوں اور خطاؤں کو معاف کرے اور نیک اعمال کی توفیق بخشے۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.