ذراغور فرمائیں

محمد فرید سعیدی ، بھوپال
صدر قاسمی ایجوکیشن اینڈ ویلفئر سوسائٹی ، ادارہ باب ادب بھوپال –
اللہ تعالیٰ قران کریم میں فرماتا ہے ـ’’زکوٰۃ جو ہے سو وہ حق ہے مفلسوں کا اور محتاجوں کااورزکوٰۃ کے کام پر جانے والوں کا اور جن کا دل پر چانا منظور ہے اور گردنوں کے چھڑانے میں اور جو تاوان بھریں اور اللہ کے راستہ میں اور راہ کے مسافر کو ٹھرایا ہوا ہے اللہ کا اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے ‘‘۔سورہ توبہ ایت ۶۰
چونکہ تقسیم صدقات کے معاملہ میں پیغمبر پر طعن کیا گیا تھا ،اس لئے متنبہ فرماتے ہیں کہ صدقات کی تقسیم کا طریقہ خدا کا مقرر کیا ہو ہے ۔ اُس نے صدقات وغیرہ کے مصارف متعین فرماکر فہرست نبی کریم ﷺ کے ہاتھ میں دیدی ہے ۔ آپ ﷺ اُسی کے موافق تقسیم کرتے ہیں اور کرینگے ۔کسی کی خواہش کے تابع نہیں ہو سکتے ۔ حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا ’’خدا نے صدقات (زکوٰۃ )کی تقسیم کو نبی یا غیر نبی کسی کی مرضی پر نہیں چھوڑا ۔ بلکہ بذات ِخود اُس کے مصارف متعین کردئے ہیں ‘‘۔ جو آٹھ ہیں۔ (۱)’’ فقرا ء ‘‘جن کے پاس کچھ نہ ہو ۔(۲) ’’مساکین ‘‘ جن کو بقدر حاجت میسر نہ ہو ۔(۳)’’عاملین ‘‘جو اسلامی حکومت کی طرف سے تحصیل صدقات وغیرہ کے کاموں پر مامور ہوں ۔(۴)’’مئوُلفتہ القلوب‘‘ جن کے اسلام لانے کی امید ہو یا اسلام میں کمزور ہوں وغیرہ ذالک من الانواع ‘ اکژ علما ء کے نزدیک حضور کی وفات کے بعد یہ مد نہیں رہی ۔(۵ ) ’’ رقاب ‘‘ یعنی غلاموں کا بدل کتابت ادا کرکے آزادی دلائی جائے ۔ یا خرید کر آزاد کئے جائے ۔ یا اسیروں کا فدیہ دے کر رہا کرائے جائیں ۔(۶)’’ غارمین ‘‘جن پر کوئی حادثہ پڑا اور مقروض ہو گئے یا کسی کی ضمانت وغیرہ کے بار میں دب گئے ۔(۷) ’’ سبیل اللہ ‘‘ جہاد وغیرہ کے جانیوالوں کی اعانت کی جا ئے ۔(۸) ’’ ابن سبیل ‘‘مسافر جو حالت سفر میں مالک نصاب نہ ہو ‘ مگر مکان پر دولت رکھتا ہو ۔حنیفہ کے یہاں تملیک ہر صورت میں ضروری ہو اور فقر شرط ہے ۔
اب خود بخود یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سب سے پہلا حق مفلسوں کا محتاجوں کافقراء کا ہے ۔یہ تفصیل بھی دی ہوئی ہے کہ پہلا حق فقراء میں ان لوگوں کا ہے جو فاقہ کشی کا شکا ر ہوں مگر ہر ایک سے اپنی فاقہ کشی کی تکلف چھپائے ہوئے ہوںاور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھلاتے ہوں اور لوگوں سے لپٹ کر سوال نہ کرتے ہوں۔ اُن کو ڈھونڈو اور ان کو دو۔ مگر آج یہ مشقت اُٹھانے کو کوئی تیا ر نہیں ہے۔ بھول کر بھی کسی کو ایسے لوگوں کی نشاندہی کا خیال نہیں آتا اور وہ آسان راستہ چن لیتے ہیں کہیں بھی جاکر کسی کو بھی زکوٰۃ دیکر زکوٰۃ کے فرض سے سبکدوش ہونے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔لہذا صدقات اور زکوٰۃ کے لئے جو پہلا اور آسان طریقہ نظر آتا ہے وہ ہیں مدارس ۔ مدرسہ کس نہج کا ہے ؟اس میں تعلیم کا معیار کیا ہے؟ اس کا نظم کیسا ہے؟ آیا مدرسہ کو حقیقتاََروپئے کی ضرورت ہے یا نہیں یہ دیکھے بھالے بغیر اپنے صدقات اور زکوٰۃ کا روپیہ آنکھ بندھ کرکے انہیں سونپ آتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج مدرسہ تعلیم گا ہ سے زیادہ جائے پیشہ بن گیا ہے،جو روپیہ مدارس میں دیا جاتا اس کا عموماََبالکل صحیح استعمال بہت کم مدارس میں ہو تا ہے،اور بہت کم مدارس ایسے ہیں جو واقعتا صدقات اور زکوٰۃ کے حقدار ہیں ۔
عموماََ یہ دیکھا جا تا ہے کہ اس روپیہ کا مصرف تعلیم پر کم اور صاحب مدرسہ کے عیش وعشرت پر زیادہ ہو تا ہے وہاں طالب علم اور اساتذہ حالاتِ کسم پرسی میں رہتے ہیں ۔ شدید گرمی میں ٹین کی تپتی ہوئی چادروں کے نیچے اپنی زندگی کے دن گزار تے ہیں اور ان کے ناظم اے سی میں موسم گرما کا لطف اُٹھاتے ہیں۔آپ ہی بتا ئے کیا یہ صدقات اور زکوٰۃ کا صحیح مصرف ہے یا اللہ تعالیٰ نے تقسیم کا جو طریقہ بتا یا ہے اس کے ساتھ بدترین مذاق ہے۔
فقراء و مساکین کو صدقات اورزکوٰۃمیں اول نمبر پر اللہ نے اس لئے رکھا ہے کہ اسلامی سوسائیٹی میں وہ دولت کی تقسیم صحیح کرنا چاہتا ہے ۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ ایک طرف تو اس کی سوسائیٹی کے کچھ لوگ کچرہ میںسے پڑا ہوا کھانا بین کر کھا رہے ہوں اور دوسری طرف کچھ لوگوں کے پیٹھ مرغوں کا قبرستان بنے ہوئے ہوں ۔وہ یہ نہیں چاہتا کے ایک طرف تو اس کے ماننے والوں کے بچے بھوک سے بلبلارہے ہوں اور دوسری طرف اعلیٰ کھانے کے ڈھیر کچرہ میں پھیکے جا رہے ہو ں ۔ جس طرح اگر خون پورے جسم میں گردش نہ کرے تو جسم یا تو مفلوج ہو جا تا ہے یا لاش میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر دولت پوری سوسائیٹی میں گردش نہ کرے تو سوسائیٹی دولت کی بد ترین تقسیم کا شکار ہوکر مفلوج ہو جاتی ہے اور نہ برابری کا وہ نقشہ پیش کرتی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جا تے ہیں ۔
آج دنیا میں دولت کی بدترین تقسیم کا لرزہ بر اندام کر دینے والا نقشہ ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے ۔وہ ملک جو اپنے آپ کوبڑا مہذب کہتے ہیں وہاں سوسائیٹی کا ایک چھوٹا سا حصہ وہا ںکی تقریباََپوری دولت پر کنڈلی مار کر بیٹھا ہو ا ہے،اور باقی افراد بچی کچی دولت سے کسم پرسی کے عالم میں اپنی زندگی گذار رہے ہیں ۔ایک طرف افریقہ کے وہ بدحال لوگ ہیں کہ وہ بھوک کی وجہ سے اپنے پائوں پر کھڑے بھی نہیں ہو پا تے اور گھسیٹتے ہوئے وہاں پہونچتے ہیں جہاں کھانے کے پیکٹ مل رہے ہوتے ہیں ، دوسری طرف مہذب ملکوں کی ایک چھوٹی سی آبادی اتنی پیٹ بھری ہوتی ہے کہ وہ اپنے کتوں کو مرغاََ غذائیں کھلاتے ہیں ۔
اسلام اسی بدترین دولت کی تقسیم کا شدید مخالف ہے ۔ لہذا اس نے اولیت فقراء اور مساکین کو دی ہے ۔ اب یہ ہماری بد بختی ہے کے ہم اپنی آسانی اور اپنی آسائش کے کے لئے اللہ کے اس حکم کی شدید نا فرمانی کر رہے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف پھٹے حال بچے بھوک سے بلبلارہے ہیں۔بشمار گھر فاقہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں اور دوسری طرف لاکھوں روپئے کے قربانی کے بکرے خرید کر فوٹو کھچوائے جا رہے ہیں ۔
خدا را ہوش میں ائیے اللہ کے حکم کی فرمابرداری کیجئے مشقت اُٹھائیے اور اپنے زکوٰۃ اور صدقات ان فقراء اور مساکین تک پہونچائیے جو اس کے سب سے پہلے حقدارہیں۔ دیکھئے ایسا نہ ہو کے عید الفطر کی نماز میںچمچماتے کپڑے پہنے کچھ لوگ کھڑے ہوں اور باقی پھٹے حال نمازِ عید ادا کررہے ہوں۔آپ کے گھر میں سوئیاں ،شیر خورمہ اور اعلیٰ قسم کے کھانوں سے آپ کے احباب کی خاطر داری ہورہی ہو اور دوسری طرف عید کے دن گھروں میں چولہاجلنے کا بھی انتظام نہ ہو ۔
اُ ٹھئے اسلام پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہو کر وہ انقلاب لائیے کے دنیا پکا ر اُٹھے کے اگر انسانیت کا صحیح سبق کہیں موجود ہے تو وہ قرآن میں ہے اسلام میں ہے۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.