Baseerat Online News Portal

روزہ ،چند اہم مسائل

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ

انسان کے لئے وقت جاننے کے دو ذریعے ہیں ، سورج اور چاند ’’ الشمس والقمر بحسبان‘‘ ( الرحمن : ۵ ) لیکن سورج کی رفتار سے واقف ہونا دقیق ترین سائنسی وسائل کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہ بات بھی ممکن نہیں ہے کہ سوج کو دیکھ کر تاریخ کا اندازہ کیا جاسکے ؛ کیوںکہ سورج روزانہ مکمل طلوع ہوتا ہے اور شروع سے آخرتک اپنے پورے حجم کے ساتھ ہماری اس زمین سے نظر آتا ہے ، چاند ایسا سیارہ ہے جو تاریخوں کے لحاظ سے گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے ، اس کی ابتداء ہلال سے ہوتی ہے ، جو باریک نصف دائرہ کی شکل میں ہوتا ہے اور اس کی انتہاء بدر پر ہوتی ہے ، یعنی چودھویں کا چاند جس میں چاند کا پورا دائرہ روشن نظر آتا ہے ، اس لئے چاند کو دیکھ کر تاریخوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور پہلے زمانہ میں تو چاند ہی تاریخوں کی تعیین اور اس کو جاننے کا واحد ذریعہ تھا ، آج بھی دنیا کے بہت سے علاقے وہ ہیں جہاں معلومات کے جدید وسائل دستیاب نہیں ، اس لئے اسلام میں تاریخوں سے جڑی ہوئی عبادتوں کو چاند سے متعلق رکھا گیا ہے ۔
بعض اوقات چاند کے سلسلہ میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے اور یہ اختلاف انتشار کا سبب بنتا ہے ، بعض لوگ اسے شریعت کا قصور سمجھتے ہیں ، یہ محض نادانی اور ناسمجھی کی بات ہے ، شریعت کے احکام بالکل واضح ہیں ، اصل میں ملک کے مختلف صوبوں میں موجود رؤیت ہلال کمیٹیوں کے درمیان ارتباط کے مفقود ہونے کی وجہ سے اختلاف و انتشار کی نوبت آتی ہے ، ضرورت ہے کہ ہر صوبہ کی رؤیت ہلال کمیٹی کا ملک گیر سطح پر ایک وفاق ہو اور وہ آپس میں معلومات کا تبادلہ کریں اورایک دوسرے سے مشورہ کرکے فیصلہ کریں ، اس طرح نہ صرف یہ کہ مسلمان باہمی انتشار سے بچیں گے؛ بلکہ دوسروں کو اور خاص کر ذرائع ابلاغ کو جو ہم پر ہنسنے کا موقع ملتا ہے ، اس کا بھی تدارک ہوسکے گا ، بہرحال روزہ کی ابتداء اور انتہاء دونوں چاند دیکھنے ہی سے متعلق ہے اور اس سلسلہ میں محض فلکیاتی اُصول و معلومات کا اعتبار نہیں ۔
روزہ ایسی چیزوں سے ٹوٹتا ہے جو جسم کے اندر داخل ہوں ، اُصولی طورپر جسم سے خارج ہونے والی چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اسی لئے اگر جسم سے خون نکالا جائے یا میڈیکل ٹسٹ کے لئے کسی اور جزو کو نکالا جائے ، تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ، ہاں، جسم سے اتنا خون نکالنا کہ کمزوری کی وجہ سے روزہ کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو ، مکروہ ہے ۔
اگر کان میں دو ا ڈالی جائے تو ہمارے فقہاء نے عام طورپر اسے روزہ کے ٹوٹنے کا باعث قرار دیا ہے ؛ کیوںکہ قدیم اطباء کان اور جوف دماغ کے درمیان راستہ مانتے تھے ، اور ان کا خیال تھا کہ کان میں ڈالی جانے والی چیز جوف دماغ تک پہنچ جاتی ہے ؛ لیکن جدید میڈیکل تحقیق اس کے برخلاف ہے کہ کان سے دماغ تک راستہ نہیں جاتا ہے ؛ بلکہ کان کا سوراخ پردۂ سماعت پر ختم ہوجاتا ہے ؛ اس لئے اس حقیر کی رائے میں کان میں دوا ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ، البتہ احتیاط کرنا بہتر ہے ۔
رسول اﷲ ا نے روزہ کی حالت میں سرمہ کا استعمال کیا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ اگر روزہ دار آنکھ میں کوئی دوا ڈالے تو اس سے اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا ، رہ گئی یہ بات کہ آنکھ کی دوا کا ذائقہ حلق میں محسوس ہوتا ہے تو فقہاء نے اس کی وجہ بیان کی ہے کہ آنکھ سے حلق تک اصل شیٔ نہیں پہنچتی؛ بلکہ اس شیٔ کا اثر پہنچتا ہے اور روزہ اصل شیٔ کے داخل ہونے سے ٹوٹتا ہے نہ کہ کسی چیز کا اثر پہنچنے سے ۔
ناک کا راستہ حلق کی طرف پایا جاتا ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ؛ اسی لئے مریضوں کو ناک سے غذا پہنچائی جاتی ہے ؛ لہٰذا ناک میں کوئی دوا ڈالی جائے تو بالاتفاق روزہ ٹوٹ جائے گا ؛ البتہ اگر کوئی دوا ایسی ہو جو صرف سونگھی جاتی ہو یا کسی نے عطر کا استعمال کیا ، تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ؛ کیوںکہ سونگھنے کے ذریعہ اصل شیٔ جسم کے اندر داخل نہیں ہوتی ، صرف اس کا اثر جسم تک پہنچتا ہے اور انسان کی سونگھنے کی قوت اس کا ادراک کرتی ہے ۔
منہ معدہ تک کسی چیز کو پہنچانے کا فطری و بنیادی راستہ ہے ، منہ میں کسی چیز کے داخل کرنے کے مختلف مراحل ہیں ، ایک صورت یہ ہے کہ کسی چیز کو صرف زبان سے چکھ لیا جائے اور چکھ کر تھوک دیا جائے ، بلا عذر ایسا کرنا گو مکروہ ہے ؛ لیکن اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا؛ کیوںکہ کھانا حلق سے نیچے کسی شیٔ کے اترنے کا نام ہے ، دوسری صورت یہ ہے کہ حلق سے نیچے جائے؛لیکن جانے والی چیز کسی شیٔ کے بہت ہی دقیق ذرات ہوں ، جیسے :گرد و غبار ، دھواں ، اس سلسلہ میں حکم یہ ہے کہ یہ بلا ارادہ حلق سے نیچے گیا ہوتو روزہ نہیں ٹوٹے گا ؛ کیوںکہ بعض اوقات اس سے بچنا دشوار ہوتا ہے ، گویا یہ ایک مجبوری ہے اور اگر قصداً ایسی چیزیں لی جائیں ، جیسے عود کی دھونی ، بھپارہ ، یا دمہ کے مریضوں کے لئے انہیلر، توروزہ فاسد ہوجائے گا ، کیوںکہ ان صورتوں میں بعض اشیاء کے ذرات حلق سے نیچے تک پہنچتے ہیں ، اسی حکم میں بیڑی ، سگریٹ اور حقہ بھی ہے ، ان سے بھی روزہ ٹوٹ جائے گا ، فرق یہ ہے کہ عود کی دھونی یا کسی بھی دھواں کو قصداً لینے کی وجہ سے روزہ تو ٹوٹے گا ، کفارہ واجب نہیں ہوگا ، لیکن سگریٹ وغیرہ سے چوںکہ لذت اور تسکین نفس بھی متعلق ہے؛ اس لئے اس سے کفارہ بھی واجب ہوتا ہے ، فقہاء کی صراحت سے یہ معلوم ہوتا ہے ۔
اگر منہ کے ذریعہ معدہ تک کوئی چیز پہنچائی جائے؛ لیکن اسے معدہ میں چھوڑا نہ جائے ، نکال لیا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ، فقہ کی کتابوں میں اس کی نظیر موجود ہے ؛ چنانچہ بعض میڈیکل ٹسٹ ایسے ہوتے ہیں کہ باریک وائر اور کیمرہ معدہ تک پہنچائے جاتے ہیں ، پھر اسے واپس نکال لیا جاتا ہے ، نیز بعض میڈیکل آلات معدہ کے اندرونی حصہ میں بھیجے جاتے ہیں ، جو میڈیکل ٹسٹ کے لئے گوشت کا کوئی ٹکڑا لے کر واپس آجاتا ہے ، اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔
معدہ کی طرف جانے والا دوسرا فطری راستہ انسان کا پچھلا راستہ ہے ، قدیم زمانہ میں بھی اطباء بہت سے امراض کے علاج میں حقنہ استعمال کرتے تھے ، حقنہ میں نلکی کے ذریعہ سیال دوائیں براہ راست معدہ تک پہنچائی جاتی تھیں ، اب بھی یہ طریقہ علاج بہت سے امراض میں استعمال ہوتا ہے ، اسی طرح بواسیری مسوں پر مرہم لگانے کا مسئلہ ہے ، یہ مسے بعض اوقات جسم کے اندرونی حصہ پر ہوتے ہیں اور اوپر کی طرف چڑھ جاتے ہیں ، ان صورتوں میں بھی روزہ ٹوٹ جائے گا ؛ البتہ اگر میڈیکل ٹسٹ کے لئے انڈواسکوپی کی جائے، جس میں وائر کے ذریعہ کیمرہ آنت تک پہنچایا جاتا ہے اور فوٹو حاصل کی جاتی ہے؛ تاکہ زخم وغیرہ کی موجودگی اور اس کی کیفیت کا اندازہ کیا جاسکے ، اور اس میں کوئی دوا استعمال نہ کی جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔
انجکشن دوا پہنچانے کا ایک ایسا ذریعہ ہے ، جو جسم کے اندرونی حصہ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے بہت ہی باریک سوراخ کرتا ہے ، اور دوا پہنچاتا ہے ، انجکشن کے ذریعہ گوشت یا رگوں میں دوا پہنچتی ہے ، براہ راست معدہ میں دوا نہیں پہنچتی ؛ اس لئے انجکشن کی وجہ سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ، ہاں اگر کوئی انجکشن براہ راست معدہ ہی میں دیا جاتا ہو ، جیساکہ غالباً سگ گزیدہ شخص کو پہلے دیا جاتا تھا ، تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا ، گلوکوز چڑھانا بھی انجکشن ہی کی ایک صورت ہے ؛ اس لئے راجح یہی ہے کہ گلوکوز کے چڑھانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا ؛ البتہ اگر گلوکوز غذائی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہو اور اس کے چڑھانے کی وجہ سے بھوک و پیاس کا احساس ختم ہوجاتا ہوتو یہ صورت کراہت سے خالی نہیں ہوگی ؛ کیوںکہ روزہ کا مقصد شہوات اور خواہشات پر قابو پانا ہے اور اس سلسلہ میں ہونے والی مشقتوں کو برداشت کرنا ہے ، اگر انسان مشقتوں سے دو چار ہی نہ ہوتو روزہ کا یہ مقصد مجروح ہوگیا ؛اس لئے اس سے احتراز کرنا چاہئے ۔
شریعت میں بعض لوگوں کو وقتی طورپر روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اور ان پر قضاء واجب کی گئی ہے ، جیسے: مسافر اور مریض ، اس سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ مسافر سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے گھر سے ۷۷ کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ کا سفر کرے ، اور اس کا سفر روزہ کی ابتداء سے پہلے شروع ہوگیا ہو ، اگر کوئی شخص دن کے ابتدائی حصہ میں مقیم تھا ، بعد میں مسافر ہواتو اس کے لئے روزہ توڑنا جائز نہیں ہوگا ، سفر خواہ آرام دہ ہو یا تکلیف دہ ، معمولی رفتار کی سواری ہو یا تیز رفتار سواری ، ہر ایک کے لئے یہی حکم ہے ۔
مریض سے مراد ایسا شخص ہے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کی بیماری میں اضافہ کا ، یا اس کی صحت یابی میں خاصی تاخیر کا اندیشہ ہو ، معمولی بیماریوں کی وجہ سے روزہ توڑ لینا درست نہیں ، اس سلسلہ میں قابل اعتبار مسلمان معالج کے مشورہ کو بنیاد بنانا چاہئے اور خود نفس کے دھوکوں سے چوکنا رہنا چاہئے ۔
بہت بوڑھے شخص کے لئے روزہ نہ رکھنے اور اس کی جگہ فدیہ ادا کردینے کی گنجائش ہے ، ایسے شخص کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ شیخ فانی ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اس کے لئے کوئی عمر متعین نہیں ہے؛ کیوںکہ مختلف لوگوں کے قویٰ الگ الگ ہوتے ہیں ، مقصد یہ ہے کہ عمر کے زیادہ ہونے کی وجہ سے پورے دن بھوک و پیاس برداشت کرنے کی قوت باقی نہ رہے ، یہی حکم ایسے شخص کے لئے بھی ہے جو بیمار ہو ، اور جس کے اس بیماری سے شفایاب ہونے کی توقع نہ ہو ۔
جو عورتیں حیض یا نفاس کی حالت میں ہوں، ان کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ؛ البتہ وہ بعد میں قضاء کریں گی ، بعض خواتین روزہ نہیں رکھتی ہیں ؛ لیکن رمضان کے احترام کے طورپر کھانے پینے سے رکی رہتی ہیں ، ایسا کرنا مکروہ ہے ،کھانے پینے سے رکا رہنا روزہ داروں کی مشابہت اختیار کرنے کے لئے ہے ، اور اس حالت میں روزہ کی مشابہت اختیار کرنا اس عبادت کی بے احترامی کے مترادف ہے ؛ اس لئے فقہاء نے اس سے منع کیا ہے ۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.