چندے کے لیے خلافِ شریعت علاقائی تصدیقات (قسط اول)

 

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی گونڈوی
(مہدپور ضلع اجین ایم پی)
ashrafgondwi@gmail.com

بسم اللہ الرحمن الرحیم

چندے سے اجرائے مدارس کی حکمت

مسجدوں میں خدماتِ دینیہ کے لیے ائمہ ومؤذنین اور مبلغین، مدارس سے ہی فراہم ہوتے ہیں۔ اور مدرسوں کے اخراجات اور ضروریات کی تکمیل، عام مسلمانوں کے تعاون یعنی چندوں سے ہوتی ہے۔ مسجد نبوی کے تذکرے میں یہ بات آتی ہے کہ دینی و ملی مفادات کے لیے مسجد نبوی میں چندہ ہوتا تھا۔ اسی سنت کو جاری رکھتے ہوئے آج بھی مسجدوں میں اس پر عمل کیا جارہا ہے؛ اس لیے اس مبارک سلسلے کو جاری رکھنے میں مسلمانوں کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ تجربات اور مشاہدات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ: ’’چندہ کا نظام‘‘ دینی تعلیم کے اجراء و استمرار میں کافی مفید ہے۔ اسپین میں آٹھ سو سال کی اسلامی حکومت کے زوال کے ساتھ حکو مت اسلامیہ کی سرپرستی میں چلنے والے تمام مدارس بند ہو گئے، جب کہ ہندوستان میں چندوں پر مدارس کا انحصار ہونے کی وجہ سے اسپن کی طرح بند نہیں ہوئے، بلکہ ملت اسلامیہ کو برابر اپنی خدمات سے فیضیاب کرتے رہے ہیں۔ قندھار (افغانستان) میں سو سے بھی زائد مدارس ہیں؛ اسی لیے اس شہر کو ’’ام المدارس‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہاں برابر حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، ان حکومتوں میں ان مدارس سے جذباتی محبت کرنے والے اور اسی طرح کھلے طور پر معاند، دونوں طرح کے افراد ہوتے ہیں ۔ موافق حکومتوں سے ان مدارس نے امداد نہیں لیا، اس لیے ہم مزاج حکومتوں کے سقوط کے بعد بھی وہ اپنی خدمات میں علی حالہا مصروف ہیں۔ غدر اور تقسیم وطن کے ہنگاموں میں ہر طرح محفوظ رہنے والے ایک شہر میں اوقاف کی کثرت، ائمہ و مؤذنین اور مفتیوں و قاضیوں کی سرکاری تنخواہوں نے یہی نہیں کہ دینی و ملی خدما ت سے انہیں غافل کردیا ہے، بلکہ ان کے سرکاری وظائف کی وجہ سے مسلمان بھی ان کے تعاون سے دست کش ہو گئے۔ انجام کار صورت حال یہ ہے کہ اوقاف میں ایک طرف نوچ گھسوٹ مچی ہے، تو دوسری طرف سرکاری تنخواہیں وقت پر نہ ملنے یا کم ہو نے کی وجہ سے ائمہ و مؤذنین اپنا اصل کام چھوڑ کر اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے، گھر گھر یومیہ اخبارات پہونچانے والوں کی طرح، صبح وشام، سائیکل (cycle) سے سرپٹ دوڑتے نظر آتے ہیں۔ اگر سرکاری امداد کے بجا ئے عوامی چندے سے ان کے ماہانہ اکرامیہ کا انتظام ہوتا تو اس قدر بے سہارا ہوکر وہ اپنے کام سے دور اور مسلمان ان کی خدمات سے غافل نہ ہوتے۔

مدارس میں عطیات کا درست استعمال

مختلف رفاہی اداروں (NGOs) میں پائی جانے والی بد عنوانیوں کی بہ نسبت، مدرسوں میں کبھی کبھی ظاہر ہو جانے والی بد احتیاطی کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ مدارس میں پائی جا نے والی امانت داری اور احتیاط پر حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی کی تحریر کا ایک اقتباس ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
’’راقم السطور ایک صا حب ثروت انگریزی داں طبقے اور مدارس اور اہل مدارس دونوں طرح کے لوگوں کے بہت قریب رہنے اور غور کرنے کے بعد بہت ذمہ داری سے یہ با ت کہہ سکتا ہے کہ اما نت و دیانت اور اللہ کے یہاں جوا ب دہی کے سلسلہ میں، گئے گزرے سے گزرا ایک عالم دین جس قدر حساس ہوتا ہے، دوسرا محتاط سے محتاط غیر عالم نہیں ہو سکتا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے وہ تمام فرمان جو حقوق العباد کے سلسلہ میں کوتاہی اور خیانت کے سلسلہ میں ہیں، اس کے سا منے ہیں وہ اپنا اثر ضرور دِکھاتے ہیں۔
دیانت و امانت کے سلسلے میں اہل مدارس کی طرف سے اس غلط فہمی کے سلسلے میں راقم السطور ایک با ت اکثر عرض کیا کرتا ہے کہ: یہ حقیر سال کے شب و روز سفر میں گزارتا ہے اور یہ سفر اکثر اہل مدارس کے حکم پر مدرسوں میں حاضری کے عنوان سے ہی ہوتے ہیں، کسی مدرسے میں حاضری ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر ایک پلا ٹ لے کر چھپر یا ٹین کے شیڈ ڈال کر شروع کردیا گیا ہے، دوسری بار حاضری ہوئی تو معلوم ہو تا ہے کہ بلڈنگ بن گئی ہے، اور دوسرے پلاٹ کا بیعانہ دے دیا گیا ہے، تیسری بار حاضری ہوئی تو معلوم ہوتا ہے کہ استنجا خانہ اور مطبخ وغیرہ بن گئے ہیں؛ غرض سینکڑوں میں کوئی ایک دو مدرسے ایسے ہوتے ہیں جو سالوں سال اپنی حالت پر باقی رہتے ہیں۔۔۔۔۔ مسلسل بڑھتی مہنگائی کے دور میں سالانہ اخراجات پورا کرنے کے بعد، مدرسوں میں یہ ترقی اس بات کی کھلی شہادت ہے کہ مدرسے میں جو چندہ دیا جاتا ہے وہ دیانت کے سا تھ لگایا جاتا ہے، اس کے باوجود یہ ذہن بنا لینا کہ دیانت وامانت کے سلسلہ میں ذمہ دارانِ مدارس میں نہ صرف یہ کہ احتیاط نہیں ہے، بلکہ بے حسی ہے؛ کیسا بڑا ظلم ہے؟‘‘ (ماہنامہ: ارمغان ولی اللہی پھلت، جولائی ۲۰۱۳ء)

(٦؍ رمضان ١٤٤۰ھ / 12 مئی 2019ء)

Comments are closed.