جمعہ کے خطبہ میں مسجدیں خالی کیوں ؟

ڈاکٹر علیم خان فلکی
صد ر ، سوشیو ریفارمس سوسایٹی۔ حیدر آباد
ملک کے تمام مساجد کی انتظامی کمیٹیوں سے مودبانہ درخواست ہے کہ اس مضمون پر غور فرمائیں۔جمعہ کے خطبے میں لوگ شروع سے حاضر نہیں رہتے ۔ خطبہ رسمی طور پر چلتا رہتا ہے اور مسجد خالی رہتی ہے۔ صرف پندرہ بیس بوڑھے حضرات ہوتے ہیں وہ بھی زیادہ تر کرسیوں پر۔ لوگ آخری پانچ منٹ میں دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور سلام پھیرتے ہی الٹے پائوں بھاگتے ہیں؟ نمازیوں کی اکثریت خطبے کے اہم حصوں سے جان بوجھ کر محروم رہتی ہے۔ اس دیری کی وجہ کاہلی ہے یا کچھ اور َ ان سے سبب پوچھئے تو کہیں گے مولوی صاحب وہی گھسا پٹا Stereotypeخطبہ دیتے ہیں ، قصے کہانیاں سناتے ہیں اور Unscientificباتیں کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو یہ احساس نہیں کہ کچھ خطیب آدھے گھنٹے کے خطبے کیلئے کئی گھنٹے مطالعہ کرکے کئی کتابوں کا نچوڑ پیش کرتے ہیں لیکن خطیبوں کی اکثریت چونکہ یہ محنت نہیں کرتی اسلئے خطبے سے عام طور پر بیزاری پائی جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ زبان کا بھی ہے۔ نمازیوں کی اکثریت چونکہ انگلش میڈیم کی پیداوار ہے اسلئے خطیبوں کے عربی اور اردو الفاظ ان کے سروں کے اوپر سے گزر جاتے ہیں۔ اگر یہ خطبے یوں ہی جاری رہے تو ان خطیبوں کی مثال انہی پنڈتوں کی طرح ہوجائیگی جو سنسکرت کے اشلوک پڑھتے ہیں جن کو کوئی سمجھتا نہیں لیکن لوگ اپنی اپنی رسمی پوجا کرکے مندر سے نکل جاتے ہیں۔ تیسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بقول شاعر ۔ ” کیا مرے وقت کا تقاضہ ہے ۔ کیا صدا آرہی ہے منبر سے”۔لوگ زمینی مسائل پر رہنمائی چاہتے ہیں اور خطیبوں کے پاس سوائے زمین کے نیچے یا آسمان کے اوپر کے کوئی اور موضوع ہی نہیں ہے۔ کیونکہ خود خطیبوں کو حقیقی زمینی مسائل کا کوئی ادراک نہیں ہوتا۔ اس لئے اب وقت آچکا ہے کہ خطبوں اور خطیبوں کے پورے نظام کو بدلیں۔ اس کے لئے پہلے خطبہ کی شرعی حیثیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ علما ء کا ا س بات پر اجماع ہے کہ خطبہ سننا واجب ہے ۔ اگر لوگ جان بوجھ کر اس واجب کو ترک کررہے ہیں تو کیوں کررہے ہیں اور اس کا وبال کس کے سر آئیگا یہ سوچنا مسجد کے انتظامی کمیٹیوں کی پہلی ذمہ داری ہے ورنہ ایک اجتماعی غفلت کی جوابدہی کی ذمہ داری ان کے سر ہوگی اس کے بعد محلے کے ہر فر د پر ہوگی۔ خطبہ امر بالمعروف کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ہر اہم موقع کو خطبہ کیلئے استعمال فرمایا ۔جمعہ ، عیدین، تدفین، جنگ و غزوات اور نکاح کے موقعوں پر آپ ﷺ خصوصی خطبہ بیان فرماتے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بشارت بیان فرمائی کہ جو شخص خطبہ شروع ہونے سے پہلے مسجد میں داخل ہوجائے اس کی ہرجائز دعا قبول کی جاتی ہے۔ خطبہ حقیقت میں ایک ایسا Grinding tool ہے جس سے جذبہ ء ایمانی کو تلوار کی طرح تیز کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ ہر ہفتہ سیاست میں ، کنامی میں، سوسائٹی میں اور نیشنل و انٹر نیشنل حالات میں کوئی نہ کوئی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ، لوگوں کے ذہنوں میں مسلسل سوالات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اسلئے لازمی ہے کہ کم از کم ہفتہ میں ایک بار امت کو اجتماعی طور پر یہ رہنمائی ملے کہ نئے حالات میں اسلام کا Applicationکیسے ہوگا۔ آج خطبے اس طرح ہورہے ہیں کہ برسہا برس سے ایک ہی خطیب صاحب منبر سنبھالے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں خطبہ محض ایک رسمی شئے بن کر رہ گیا ہے اس لئے نہ کوئی تبدیلی آتی ہے نہ انقلاب۔ ہر جمعہ ہوتا یہ ہے کہ پہلی مقامی زبان میں کسی عالم یا مفتی صاحب کو منبر سے الگ ہٹ کے تقریر کیلئے کھڑ ا کیا جاتا ہے۔ جس کے ختم ہونے کے وقت ہی لوگ مسجد میں تشریف لاتے ہیں۔ پھر خطیب صاحب منبر پر آکر دو خطبے عربی زبان میں دیکھ کر پڑھتے ہیں جس کو نہ خود سمجھتے ہیں اور نہ سامعین ۔ خطبہ کا جو مقصد شریعت نے بتا یا ہے وہ دور دور تک پورا نہیں ہوتا۔ یہ عربی خطبہ مشکل سے پانچ منٹ کے ہوتے ہیں لیکن انہی پانچ منٹ میں مسجد بھر جاتی ہے۔ گو یا لوگ اردو تقریر کے ختم ہونے کے انتظار میں پاس ہی کہیں تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اردو تقریر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اس کا بھی سننا واجب ہے جس طرح خطبہ سننا واجب ہے ؟کیا یہ اردو یا تلگو تقریر ایک اضافی شئے نہیں ہے جس کو علما نے محض ایک حکمت کی بنا رائج کیا ہے؟ چونکہ شریعت میں خطبے صرف دو ہیں جو خطیب صاحب عربی میں پیش کرتے ہیں اسلئے اردو تقریر کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ۔ اگر اس اردو تقریر کو خطبہ کہا جائے تو پھر خطبے تین ہوجائیں گے جو کہ سنت کے خلاف ہیں۔ اسلئے لوگو ں کے اردو تقریر کے ختم ہونے کے بعد صرف عربی خطبہ شروع ہونے کے وقت آنے پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔ چونکہ خطبہ کا اصل مقصد نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے اسلئے انتظامی کمیٹیاں مجبور ہیں کسی عالم یا مفتی کو معاوضہ دے کر ایک تقریر کروادیں تاکہ اول وقت جو لوگ آجاتے ہیں انہیں خطبہ سننے کا ایک احساس ہو۔ سالہا سال ایک ہی مقرر یا واعظ اس کام کیلئے فکس کردئیے جاتے ہیں اس لئے ان مقرروں یا واعظین کی ایک اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے۔ چونکہ ہر مقرر کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے اسلئے وہ اپنے مزاج ہی کے مطابق تقرریں کرتے ہیں۔ کوئی صاحب مسلسل فقہی مسائل پر بات کرتے ہیں تو کوئی صاحب مستقل اولیا اللہ کے معجزات و کرامات پر، کسی خطیب کا مستقل زور سیاست پر ہوتا ہے تو مسلسل جہاد و قتال پر نوجوانوں کو جوش دلاتے رہتے ہیں تو کہیں توحید، شرک اور بدعت ہی کا مستقل بیان ہوتا ہے۔ کہیں سادے سیدھے آداب زندگی ہی بیان ہوتے رہتے ہیں تو کہیں مسلکی اختلافات پر مناظرہ اور مباہلہ جیسی تقریر یں ہوتی رہتی ہیں جن میں کفر و شرک، بدعت وغیرہ کے فتوے جاری ہوتے رہتے ہیں۔ اسی لئے ایک ہی خطیب جب مسلسل ایک ہی قسم کا خطبہ دینے لگے تو انسانی نفسیات ہے کہ لوگ اکتا جاتے ہیں ۔ ٹہرے ہوئے پانی میں جس طرح جمود اور تعفن پیدا ہوجاتا ہے اس طرح آج خطبوں میں بھی ایک جمود ہے جس کی وجہ سے لوگ خطبے میں شریک ہی نہیں ہوتے۔ کہیں کہیں تو یہ مصیبت ہوتی ہے کہ خطیب صاحب گھڑی دیکھے بغیر خطبہ دینے کے عادی ہیں۔ ایک ایک گھنٹہ ہوجاتا ہے خطبہ ختم ہوکر ہی نہیں رہتا۔ جب کہ حدیت میں خطبہ کو مختصر کرنے کا حکم موجود ہے۔ رسول ﷺ کا کوئی خطبہ بیس پچیس منٹ سے زیادہ کا نہیں ملتا ۔ یہ بھی حدیث میں ہے کہ "خیر الکلام ماقل ودل "یعنی سب سے بہترین کلام وہ ہے جو مختصر ترین ہو اور دلیل کے ساتھ ہو۔ کوئی خطیب چاہے کتنا ہی بڑا عالم اور اچھا مقرر کیوں نہ ہو ، Human Psychologyیہی ہے کہ با ربار اسی کو نہیں سناجاسکتا ۔ لوگ Changeچاہتے ہیں۔ اس کے لئے موجودہ خطبوں کا نظام بدلنا ہوگا۔ یہ نظام کیسے بدلے گا، یہ سمجھنے سے پہلے د وغلط فہمیاں دور کرنی ہوں گی۔ ایک تو انتظامی کمیٹیوں کی یہ فہمی کہ خطبہ یا تقریر پیش کرنے کیلئے خطیب کا عالم ہونا یا مفتی ہونا ضروری ہے۔ یہ غلط ہے۔ خطبہ دینے کے لئے عالم یا مفتی ہونا ضروری نہیں ہے ۔ شریعت میں ایسا کوئی حکم نہیں ملتا۔ چونکہ خطبہ کا مقصد جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے ، وہ یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک بار حالات حاضرہ کی روشنی میں اسلام تقاضے بیان کئے جائیں۔ گویا امت کی قیادت کیلئے منبر ایک بہترین مرکز کا کام کرتا ہے۔ ایسا خطبہ وہی دے سکتا ہے جو ایک طرف حالات حاضرہ سے خاطر خواہ واقف ہو اور دوسری طرف شریعت کے منش سے بھی واقف ہو۔ اسی لئے شریعت نے خطبہ دینے کا پہلا حقدار عالم یا مفتی کو نہیں بلکہ خلیفہ وقت یا امیر شہر یا پھر سب سے زیادہ با اثر فرد کو قرار دیا ہے ، تاکہ وہ خود بھی راہ راست پر رہیں اور لوگوں کو بھی تلقین کریں۔ لیکن جب سے عالم یا مفتی اہل سلسلہ ہونے کی شرطیں عائد کردی گئیں، نتیجتا با اختیار اور بااثر قابل افراد خطبے سے دور ہوتے چلے گئے۔و ہ بھی روایتی اردو خطبہ ختم ہونے کے بعد ہی مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور سلام پھیرتے ہی نکل جاتے ہیں۔ چونکہ مسجدوں کی انتظامی کمیٹیوں نے یہ مفروضہ قائم کرلیا کہ ایک مولوی جس نے میٹرک بھی پاس نہیں کی چند حدیثیں یا آیتیں یاد کرکے منبر سے قیاد ت تو کرسکتا ہے لیکن ایک قابل صحافی، یا ڈاکٹر یا انجینئریا لکچرر ٹیچر امت کے حالات کا ادراک رکھنے کے باوجود خطبہ دینے کا اہل نہیں ۔ فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی نے تمام عرب علماء سے فتح سے قبل جب اس جہاد میں شرکت کی درخواست کی تھی تو عرب کے بڑے علما ء نے یہی کہہ کر اس کو رد کردیا تھا کہ تو عالم نہیں ہے تجھے جہاد کا اعلان کرنے کا حق کس نے دیا ؟ دوسرے یہ کہ تیری زبان عربی نہیں بلکہ کرد ہے تو ہماری قیادت کیسے کرسکتا ہے ؟۔ دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ دونوں خطبوں کا عربی زبان میں ہونا لازمی ہے ۔ یہ بھی غلط ہے۔ اگرچہ بعض علماء نے خطبہ کے مسنوں ہونے کی بنا دونوں خطبوں کا عربی میں ہونا لازمی قرار دیا لیکن یہ ان کا ذاتی اجتہاد ہے۔ اس ضمن میں کوئی آیت یا حدیث ہمیں بطور حکم کہیں نہیں ملتی۔ خطبہ کا مقصد ایک بار پھر سمجھئے کہ عصر حاضر میں اسلام کی رہنمائی کرنی ہو تو سننے والوں ہی کی زبان میں یہ ممکن ہے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے عربی زبان کے لوگ تھے اسلئے آپ ﷺ نے انہیں عربی میں مخاطب کیا۔ مقصد عربی زبان کو دوسری زبانوں پر مسلط کرنا نہیں تھا بلکہ جس زبان میں عوام بات سمجھے اسی زبان میں بات سمجھانا تھا۔ اسی لئے علماء نے یہ حل نکالا کہ پہلا خطبہ اردو یا جو بھی مقامی زبان ہو اسی میں ہو اور دوسرا خطبہ عربی میں باقی رہے جس میں حمد و ثنا ، درود اور دعا شامل ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ بنو امیہ ہی کے دور میں شروع ہوچکا تھا جب عراق اور کرد کے وہ علاقے اسلام میں آگئے جہاں لوگ عربی نہیں سمجھتے تھے ان کیلئے خلیفہ وقت کی جنب سے مقامی زبان میں ہی خطبہ دینے کا رواج شروع کردیا گیا۔ کیرلا کی کئی مساجد میں پہلا خطبہ ملیالی زبان میں اور دوسرا عربی میں ہوتا ہے۔ دوبئی میں کئی مساجد میں غیر عربیوں کی کثرت کی وجہ سے پہلا خطبہ انگلش میں ہوتا ہے۔ خطبوں کے نظام کو بدل کر اس طرح بنا یا جائے کہ جو تقریر پہلے منبر سے ہٹ کر کروائی جاتی ہے اس کو خطبہ کی شرعی حیثیت دی جائے۔ الگ سے تقریر کروانے کا سسٹم بند کروایا جائے جس کو سننے لوگ آنا نہیں چاہتے ۔ دونوں خطبے عربی میں دیکھ کر پڑھنے کے بجائے منبر سے پہلا خطبہ مقامی زبان میں ہو اور دوسرا خطبہ عربی میں ہو۔ ایک جمعہ کوئی عالم یا مفتی خطبہ دے اور دوسرا جمعہ کوئی عصری تعلیم سے فارغ شخص دے۔کسی کو فکس نہ کیا جائے۔ کوشش یہ کی جائے کہ ہر خطیب کی باری چار پانچ جمعہ کے بعد ہی آئے۔ یہ لازمی طور پر دیکھا جائے کہ جو شخص خطبہ دے رہا ہے اس کے پاس دین اور دنیا دونوں کا کامل شعور ہو۔ یہ صحیح ہے کہ جدید تعلیم یافتہ لوگ دین کے معاملے میں کورے ہیں اور دوسر ی طرف مدرسوں سے نکلنے والے دنیاوی معاملات میں کورے ہیں۔ لیکن پھر بھی بعض علماء ایسے ضرور مل جاتے ہیں جن کے پاس دینی بصیرت کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات کا بھر پور ادراک ہے اور دوسری طرف ایسے ڈگری ہولڈر افراد بھی کافی تعدا د میں ہیں جن کے پاس دینی بصیرت بھی ہے۔ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے لو گ ہر شہر ہی نہیں بلکہ ہر محلے میں مل جاتے ہیں۔ منبر صرف خطبہ گاہ نہیں ہے بلکہ صاف ستھری قیادت کو پیدا کرنے کا ایک بہترین اسٹیج بھی ہے۔ قیادت سازی ہم پر فرض بھی ہے اسلئے ہم کو جہاں ایسے افراد ملیں انہیں مسجد لانا چاہئے۔ ہم کو علماء بھی چاہئے اور عصری تعلیم کے دانشور بھی چاہئے۔ ورنہ صرف مدرسوں کا طبقہ خطبوں میں باقی رہے گا اور عصری تعلیم کا طبقہ رفتہ رفتہ مسجدوں سے غائب ہوتا چلا جائیگا۔ جو کہ آج عام طور پر ہورہا ہے۔ خطبوں کو اس نظام کو رائج کرنے کے لئے مسجدانتظامی کمیٹیوں کو سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا۔ یہ مشکل کام ہے ۔ ہوتا یہ ہے کہ اگر کوئی روایت برسوں بلکہ صدیوں سے چلی آرہی ہو تو اس کو بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ کسی فعل کا قدیم ہونا اس فعل کے حق ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ لوگ آسانی سے نہیں مانتے ۔ بقول علامہ اقبا ل کے ۔آئین نو سے ڈر نا طرز کہن پہ اڑنا۔ منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں۔ خطبوں اور خطیبوں کو بدلتے رہنے سے بے شمار فائدے ہیں جیسے سب سے پہلے زبان کا مسئلہ حل ہوجائیگا۔ نئی نسل جس زبان میں بات سمجھتی ہے اس زبان میں اس کو خطبہ سننے کا موقع ملے گا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگوں کے پاس اردو تقریر سننا واجب نہیں ہے کہنے کا بہانہ ختم ہوجائیگا۔ جب اردو تقریر ہی پہلا خطبہ بن جائے اور منبر سے نشر ہو تو لوگ خود بخود مسجد میں وقت سے پہلے آئینگے۔ تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ فرقہ بندیاں کم ہوجائینگی۔ ایک ہی خطیب کو Fixکردینے سے ایک ہی آئیدیا لوجی کو مسلط کردینے کا جو رواج قائم ہوچکا ہے وہ ٹوٹے گا۔ نئے نئے موضوعات پر تحقیقی بائیں جب سامنے آئیں گی تو لوگوں میں اختلاف الرائے کو سننے اور غور کرنے کا Toleranceپیدا ہوگا۔ چوتھا فائدہ یہ ہوگا کہ نوجوان نسل جو بے شک خطبے یا وعظ کم سنتی ہے لیکن اس میں انٹر نیٹ پرپڑھنے کی جستجو ہے ، وہ جب مختلف خطیبوںکو مختلف فکری موضوعات پر سننا شروع کرے گی تو ان میں بھیosity Curiپیدا ہوگی۔ ان میں بھی یہ خواہش پیدا ہوگی کہ مزید ریسرچ کرکے وہ بھی ایک دن منبر پر آئین اور قوم کو لیڈ کریں۔ انہیں یہ حق دیا جانا چاہئے۔ ورنہ ہماری نئی نسل پرانوں سے زیادہ ذہین ہونے کے باوجود قیادت سے دور رکھی جاتی ہے ۔ہم میں اور غیروں میں یہی فرق ہے کہ ہمارے ہاں چاہئے کوئی جماعت ہو کہ سلسلہ یا مسجد کی کمیٹی ، جو بھی صدر یا امیر یا خطیب یا مرشد ہوتا ہے وہ تاحیات ہوتا ہے تا وقتکہ اس کو ہٹایا نہ جائے۔ قابل لوگ ان بزرگوں کے مرنے کے انتظار میں خود بھی بوڑھے ہوجاتے ہیں اور مسلمانوں میں کوئی انقلاب نہیں آتا جبکہ غیرو ں میں نئی نسل پر بھر پور اعتماد کرکے قیادت کو مسلسل نئے خون کے ہاتھو ں میں دینے کی کوشش جاری رہتی ہے۔پانچواں فائدہ یہ ہوگا کہ اہل مدرسہ اور اہل یونیورسٹی میں Interactionُٰپیدا ہوگا۔ Educatedطبقہ عام طور پر اہل مدرسہ کو Visionless سمجھتا ہے اور مذاق اڑاتا ہے۔ دوسری طرف علماء کے غیر علماء سے تعصب اور احساس برتری سے سبھی واقف ہیں۔ کئی علما کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ کیا ٹائی سوٹ والے ہمیں قرآن حدیث سمجھائیں گے؟۔ یہ ایک برہمنانہ سوچ ہے جس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں رویے غلط ہیں ۔آج کالج اور یونیورسٹی سے نکلنے والے کئی افراد میڈیا، سائنس ، ٹکنا لوجی ، ایجوکیشن، اکنامکس اور کامرس کے میدانوں میں اسلام کی سر بلندی کیلئے جو کام کررہے ہیں اس کی برابری کرنے کا علما سوچ بھی نہیں سکتے۔ آج قرآن فہمی اور عربی دانی کے جتنے اہم ادارے ہیں یا بلا سودی بنکنگ کے جتنے کام ہوئے ہیں یا انٹر نیٹ کے ذریعے بڑے بڑے علما کو سوشیل میڈیا میں پھیلانے اور قدیم دینی ذخائز کو انٹر نیٹ پر محفوظ کردینے کے کام جتنے کالج اور یونیورسٹی سے نکلنے والوں نے کیا وہ اہل مدارس نہیں کرسکتے۔ دوسری طرف علما جو گائوں گائوں شہر شہر مدرسوں کا جال پھیلا کر حافظ، عالم، فاضل، امام اور خطیب پید ا کررہے ہیں Ground level پر اس طرح Field workکرنے کا Educated طبقہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگر مدرسوں اور علما کی یہ محنت نہ ہوتی تو آج پوری قوم جال مطلق رہ جاتی۔ اس لئے اگر منبر پر دونوں کو موقع دیا جائے۔ دونوں ایک دوسرے کو بغور سنیں تو ایک دوسرے پر اعتماد بڑھے گا اور سوچ کو بدلنے اور اپنے اپنے دائروں سے ہٹ کر بھی کچھ سوچنے کی صلاحیت پیدا ہوگی ۔ اب اتنا سب کچھ جان لینے کے باوجود اگر کوئی انتظامی کمیٹی یہ ضد کرتی ہے کہ دونوں خطبے عربی میں ہوں اور اردو تقریریں سائڈ میں چلتی رہیں ، خطبہ کے دوران مسجد خالی ہی رہے تو وہ کمیٹی خطبہ کے مقصد اور اہمیت کو ضائع کردیتی ہے۔ یہی وہ موقع ہے جس میں عام جلسوں کی طرح ہزاروں روپیہ خرچ کئے بغیر سینکڑوں لوگ بنا کسی اشتہار کے جمع ہوجاتے ہیں۔ قربان جائیے نبی ﷺ کی اس حکمت اور تدبر کے جنہوں نے ہم کو ہر ہفتہ پوری امت کی بہترین رہنمائی کا اتنا زبردست موقع عطا کیا۔ اگر سینکڑوں لوگ مسجد آکر بھی خالی ہاتھ جائیں تو اس کی جوابدہی مسجد کے ذمہ داروں پر ہوگی۔ چرچ اور اسٹیٹ کی تقسیم کی طرح مسجدوں میں مولویوں ملائوں کی اجارہ داری چلے گی اور عصری تعلیم والے سوشیل میڈیا یا اخبار کے ذریعے اپنے دین کو پھیلاتے رہیں گے، دونوں میں کوئی تال میل نہ ہوگا، بالخصوص آج کی نئی نسل جس تیزی سے اخلاقی برائیوں کی طرف بڑھ رہی ہے ،وہ ایک جمعہ کی نماز کیلئے بھی آّجاتی ہے تو بہت غنیمت ہے۔ اگر اس موقع کا فائدہ اٹھا کر انہیں دین سے قریب کروانے کی کوشش نہ کی گئی تو نئی نسل کیلئے یہ دین بھی دوسرے ادیان کی طرح چند رسمی عبادات کا مذہب بن جائیگا۔ اس لئے ایک بار پھر انتظامی کمیٹیوں کے ذمہ داروں سے التماس ہے کہ ان خطبوں کے نظام کو بدلنے کیلئے تعاون فرمائیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ بس خطبوں کے نظام کو بدل دینے سے ہی کوئی انقلا ب آجائیگا۔ انقلا ب کیلئے اور بھی کئی اقدامات لازمی ہیں لیکن پہلے قدم پر اگر اس مہم میں آپ ساتھ دیں تو انشا اللہ رفتہ رفتہ بہت سارے دوسرے اقدامات آسان ہوجائینگے۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.