زکوٰۃ دینے اور وصول کرنے کے آداب

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے، ان میں ایک اہم نعمت مال و دولت بھی ہے، دنیا کے اکثر مذاہب میں دولت اور کسب دولت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے اور اسے خدا کی قربت میں رکاوٹ سمجھا گیا ہے، ہندو، عیسائی، بدھ، ان سبھوں کے یہاں مذہبی پیشواؤں کو معاشی مصروفیات اختیار کرنے کی ممانعت ہے، ان کا گزارہ عوام کی نذر و نیاز پر ہوتا ہے؛ لیکن رسول اللہ ا جو شریعت لے کر آئے، وہ پوری طرح فطرت انسانی سے مطابقت رکھتی ہے، انسان کی ایک اہم ضرورت مال و دولت بھی ہے؛ کیوںکہ انسان کے زندہ رہنے کے لئے جو چیزیں ضروری ہیں، ان میں سوائے ’’ہوا‘‘کے تمام چیزیں یا تو خود مال ہیں یا مال کے ذریعہ حاصل کی جاتی ہیں، کھانا پینا، دوا، لباس اور مکان لازمی ضرورتیں ہیں اور پیسوں ہی کی رہین منت ہیں؛ اسی لئے اسلام نے مال کو مطلقا ناپسند نہیں کیا ہے، قرآن مجید میں مال کو ’’خیر‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے: { وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ} (البقرۃ: ۲۷۲) ، خیر کے اصل معنی بھلی بات یا بھلی چیز کے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ مال بھی ایک اچھی چیز ہے، قرآن میں مال کو اللہ کے فضل سے تعبیر کیا گیا ہے: { وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ} (الجمعۃ: ۱۰) ، ایک تو فضل کا لفظ خود ہی بہت اونچا ہے، جس میں فضیلت و بزرگی کے معنی موجود ہیں اور مزید اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت کردی جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے، مال و دولت کے لئے کسی مذہب میں اس طرح کے الفاظ استعمال نہیں کئے گئے۔
پھر قرآن مجید میں بعض ان پیغمبروں کا ذکر خیر بھی آیا، جو اپنے وقت کے فرماں روا اور متمول ترین لوگ تھے، جیسے حضرت یوسف ں، حضرت داؤو ں، حضرت سلیمان ں، خود رسول اللہ ا کا شمار بھی نبوت سے پہلے مکہ کے اصحاب ثروت میں ہوتا تھا، نبی بنائے جانے کے بعد یقیناً آپ ا پر فقر وفاقہ بھی گزرا؛ لیکن یہ اختیاری فقر تھا، آپ اکے پاس جب پیسے آتے تو آپ ا اسے راہِ حق میں خرچ کرنے کے لئے بے چین ہوجاتے اور جلد سے جلد تقسیم فرمادیتے، صحابہ ث میں بھی بڑے متمول حضرات گزرے ہیں، حضرت ابوبکر ص، حضرت عمر ص، حضرت عثمان غنی ص، حضرت عبد الرحمن بن عوف ص وغیرہ کا شمار اس زمانہ کے دولت مند لوگوں میں ہوتا تھا اور وہ اپنی دولت اسلام کے راستہ میں بے تحاشہ خرچ بھی کرتے تھے، آپ ا نے فرمایا کہ فرض نمازوں کے بعد اہم ترین فریضہ کسب حلال ہے:
’’طلب کسب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ‘‘(شعب الإیمان للبیہقي، حدیث نمبر: ۸۷۴۱، سنن البیہقي کتاب الإجارۃ، باب کسب الرجل وعملہ بیدیہ، حدیث نمبر: ۱۱۴۷۵)
کوئی بھی نعمت ہو، وہ انسان کے لئے اس وقت مفید ہوتی ہے، جب اس کے حاصل کرنے، اس کے استعمال کرنے اور اس کے خرچ کرنے میں شریعت کے احکام کو ملحوظ رکھا جائے اور قانون فطرت سے بغاوت نہ کی جائے، کھانا اللہ کی نعمت ہے؛لیکن کوئی دوسرے کا کھانا چھین کر کھالے، یا اتنا کھالے کہ اس کے معدہ کے لئے ناقابل برداشت ہو ،یا کھانا خرید کر اسے نالیوں میں ڈال دے تو یقیناً یہ نعمت اس کے حق میں زحمت ہے اور یہ حرکت اسے پولیس اسٹیشن یا پاگل خانہ تک بھی پہنچا سکتی ہے، اسی طرح بہ حیثیت مسلمان ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے مال میں کچھ حقوق بھی رکھے ہیں، ایک حق تو زکوۃ کا ہے، جو صرف ڈھائی فی صد ہے، اس کے علاوہ بھی اگر کوئی سوالی یا نادار شخص سامنے آجائے اور اپنی ضرورت رکھے تو اس کا بھی حق ہے کہ وقت پر اس کی مدد کی جائے: { وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ } (الذاریات: ۱۹) — یہ بات قابل لحاظ ہے کہ قرآن مجید نے ’’حق‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، یعنی یہ تعاون کوئی احسان نہیں ہے؛ بلکہ یہ ان پر واجب ہے، اگر وہ غرباء کی مدد کررہے ہیں تو ان کا حق ادا کررہے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان اہل ثروت میں غریبوں کے حق کا احساس ختم ہوگیا ہے، یہاں تک کہ وہ زکوۃ دینے کو بھی اپنا احسان سمجھنے لگے ہیں، اس کا اندازہ ان کے اس رویہ سے ہوتا ہے، جو انہوں نے زکوۃ کے مستحقین اور دینی مدارس کے نمائندوں کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے، سیٹھ صاحب کے گھر پر یا دکان پر مانگنے والے مردوں اور عورتوں کی قطار لگی ہوئی ہے، لوگ آہ وزاری کررہے ہیں، ان کا الحاح جتنا بڑھتا جاتا ہے، سیٹھ صاحب کے غصہ کی آگ بھی اسی قدر تیز ہوتی جاتی ہے، ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ گالی گلوج کی بھی نوبت آجاتی ہے، مدارس کے نمائندے تو شاید اس طرح لائن میں نہ لگتے ہوں اور اس نوبت سے نہ گزرے ہوں؛ لیکن ان کو دوسرے طریقہ پر ایذاء پہنچائی جاتی ہے، موجود ہونے کے باوجود کہلادیا جاتا ہے کہ موجود نہیں ہیں، بار بار بلایا جاتا ہے، کبھی صبح، کبھی دوپہر، کبھی شام اور کبھی رات، اس کے علاوہ جھڑکیاں بھی دی جاتی ہیں۔
یہ ساری باتیں خدا کو ناراض کرنے والی اور انفاق کے اجر کو ضائع کرنے والی ہیں، رسول اللہ ا نے زکوۃ وصول کرنے والوں سے بہتر سلوک کا حکم دیا ہے، حضرت جریر بن عبد اللہ ص سے مردی ہے کہ جب تمہارے پاس زکوۃ وصول کرنے والے آئیں تو وہ تمہارے پاس سے اس حال میں جائیں کہ وہ تم سے راضی ہوں: ’’إذا أتاکم المصدق فلیصدر عنکم وہو عنکم راض‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۹۸۹) آپ انے ارشاد فرمایا کہ تمہاری زکوۃ اس وقت مکمل ہوگی، جب یہ لوگ تم سے راضی رہیں اور تمہارے حق میں دعاکریں: ’’فإن تمام زکاتکم رضاہم ولیدعوا لکم‘‘ (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۱۵۸۸)۔
عام طور پر لوگ محصلین زکوۃ کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، رسول اللہ ا نے ا س غلط فکر کے تدارک کے لئے فرمایا کہ حق کے ساتھ زکوۃ وصول کرنے والا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہوتا ہے، جب تک وہ اپنے گھر واپس نہ آجائے،(ابو داؤد، حدیث نمبر: ۲۹۳۶) رسول اللہ ا کے اس ارشاد میں خود محصلین زکوۃ کے لئے بھی سبق ہے کہ ان کا زکوۃ وصول کرنا شریعت کے دائرہ میں ہو، کام اللہ کی رضا کے لئے کیا جائے، دین کی ایک اہم خدمت سمجھ کر کیا جائے، اجرت لی جاسکتی ہے، مگر صرف اجرت ہی پیش نظر نہ ہو، اجرت اتنی غیر متوازن نہ ہو کہ زکوۃ کا اچھا خاصا حصہ محصّل کو چلا جائے اور جس چیزکے لئے زکوۃ دینا مقصود ہے، وہ نظر انداز ہوجائے، کمیشن پر زکوۃ وصول کرنے کا سلسلہ نہ ہو، پوری دیانت کے ساتھ رقم مدرسہ تک پہنچائی جائے اور زکوۃ وصول کرنے میں الحاح اور اپنی تحقیر کا رویہ بھی اختیار نہ کیا جائے؛ کیوںکہ آپ کا زکوۃ وصول کرنا اپنی ذات کے لئے نہیں، سوال میں الحاح کو ناپسند کیا گیا ہے، خواہ سوال اپنے لئے ہو یا دوسروں کے لئے، اگر کوئی شخص دینے سے انکار کردے تو اصرار نہ کیا جائے، اسی طرح اگر کوئی شخص ناشائستہ بات کہے تو اس کا تعاون قبول نہیں کرنا چاہئے، ادارے اللہ کی مدد سے چلتے ہیں نہ کہ اصحاب ثروت کی اعانت سے، پھر ان کی خوشامد کیوں کی جائے؟ محصلین کا خو شامدانہ اور اپنی تحقیر کو گوارا کرلینے کا رویہ ایسے خدا ناترس لوگوں کا حوصلہ بڑھا دیتا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا وصول کرنا مدرسہ کے لئے کم اور اپنے ذاتی نفع کے لئے زیادہ ہے، غرض کہ اس حدیث میں ایک طرف زکوۃ دینے والوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ محصلین کو نیچی نظر سے نہ دیکھیں اور خود محصلین کے لئے یہ سبق ہے کہ وہ باوقار طریقہ پر اپنا کام کریں۔
رسول اللہ ا نے زکوۃ لینے اور دینے کے آداب کے سلسلہ میں ایک اہم بات یہ بھی فرمائی ہے کہ جب زکوۃ دو تو اس کے اجر کو بھولو نہیں؛ بلکہ ذہن میں اس کا استحضار رکھو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اس کو ہمارے لئے نعمت میں اضافہ کا سبب بنا دے، اس کو ہمارے حق میں جرمانہ و تاوان نہ بنادے: ’’اَللّٰہَمَّ اجْعَلْہَا مَغْنَمًا وَلاَ تَجْعَلْہَا مَغْرَمًا‘‘ (ابن ماجۃ، حدیث نمبر: ۱۷۹۷) — انسان کی نفسیات یہ ہے کہ اگر کسی شئ کا نفع اس کے ذہن میں مستحضر ہو، وہ سمجھے کہ یہ اس کے لئے خدا کی نعمت میں اضافہ کا باعث ہوگا تو اسے خوشی ہوتی ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں اسے کھو نہیں رہا ہوں؛ بلکہ خرچ کرکے پارہا ہوں؛ اس لئے وہ خوش دلی کے ساتھ خرچ کرتا ہے، کسان کھیت میں بیج ڈال کر اور تاجر مارکٹ سے سامان خرید کر مسرور ہوتا ہے کہ یہ چیز کہیں زیادہ نفع کے ساتھ اس کی طرف واپس آنے والی ہے، اور اگر اس کے ذہن میں ہو کہ جو مال وہ خرچ کررہا ہے، وہ ضائع ہوجائے گا، اس کے عوض اسے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا تو وہ اسے بے جا تاوان اور جرمانہ سمجھ کر گوارا کرتا ہے، دیتے وقت اس کا رویہ بھی بہتر نہیں ہوتا؛ کیوںکہ دل کا یقین انسان کے عمل، اس کے سلوک، اس کے طریقۂ کار اور اس کے رویہ پر اثر انداز ہوتا ہے؛ اس لئے اصل چیز یہ ہے کہ انسان کے اندر اللہ سے اجر و ثواب کا یقین پیدا ہوجائے، یہ یقین جتنا مضبوط ہوگا، خیر کے کاموں میں خرچ کرنا اتنا ہی آسان ہوگا اور یہ یقین جتنا کمزور ہوگا، انسان کی طبیعت پر انفاق اتناہی بوجھ محسوس ہوگا۔
اہل ثروت اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ اللہ کے راستے میں جو کچھ وہ خرچ کررہے ہیں، دراصل اپنی ہی آخرت کے لئے محفوظ کررہے ہیں، اس میں جہاں اخروی زندگی کا اجر و ثواب ہے، وہیں رسول اللہ ا کی زبان حق ترجمان کے مطابق دنیا میں بھی منجانب اللہ ان کی حفاظت کا سروسامان ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ اگر انکم ٹیکس کا آفیسر آپ کے گھر پہنچ جائے تو آپ ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوں، رشوتیں دیں اور خوشامدیں کریں، اگر محلہ کا کوئی پہلوان آپ کی دکان پر آدھمکے تو منت سماجت کرکے لوٹائیں، اگر وزراء اور سیاسی جماعتوں کے قائدین چندہ کے طلب گار ہوں تو لجاجت کے ساتھ بڑی بڑی رقمیں ادا کریں؛ لیکن اگر کچھ لوگ اللہ کا نام لے کر اپنی ضرورت آپ کے سامنے رکھیں، رسول اللہ ا کا حوالہ دے کر آپ سے بات کریں تو آپ کی گردنیں اکڑجائیں، آپ کا سینہ تن جائے، آپ کی آنکھیں چڑھ جائیں، آپ کی زبان بے قابو ہوجائے اور آپ ڈانٹ ڈپٹ کر ان کا استقبال کریں، کیا کسی مسلمان کو یہ بات زیب دیتی ہے؟ کیا اللہ اور اللہ کے رسول ا کا رشتہ سرکاری عہدہ داروں، پہلوانوں، سیاسی لیڈروں سے بھی گیا گزرا ہے، اگر قیامت میں رسول اللہ ا دامن تھام لیں کہ تم میری محبت اور تعلق کے بارے میں شیخیاں بگھاڑتے تھے اور اپنے آپ کو سچا عاشق رسول کہتے تھے؛ لیکن تمہارے نزدیک اس تعلق کی اتنی وقعت بھی نہیں تھی، جو دنیا کے معمولی حکمرانوں کی ہوتی ہے تو اس وقت ہمارا کیا جواب ہوگا؟؟
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.