کامیابی کا راستہ

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل
وقت ایک سیل رواں کی طرح ہے جس کو روکا نہیں جاسکتا ہے۔ ہمیں ہر طرح کے حالات میں ایک مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ہندوستانی مسلمان پچھلے ستر سال سے خوف اور عدم اطمینان کے ماحول میں جی رہے ہیں، جس نے ان کے اندر سے ہمت و حوصلہ چھین لیا ہے اور ان کے اندر اقدامی صلاحیت مفقود ہوگئی ہے۔ یہ کسی زندہ قوم کا وطیرہ نہیں ہوسکتا ہے۔ دشمنوںکا بڑا سے بڑا جتھہ جتنا نقصان نہیں پہنچاسکتا ہے وہ محض اس احساس نے پیدا کردیا ہے۔ ایک زندہ قوم جیتے جی مردہ نظر آتی ہے کیونکہ اس کے اندر جینے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ ختم ہوچکا ہے۔ ہم دوسروں کے سہارے اور مدد کے بغیر ایک قدم چلنا نہیں چاہتے ہیں۔ یہ کیسی ذہنیت ہے؟ یہ کیسی نفسیات ہے؟ اللہ نے ہمیں سالم جسم عطا کیا ہے۔ عقلی رہنمائی سے نوازا ہے۔ ہمارے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں، پھر ہم خود کو اتنا کمزور اور بے سہارا حقیر اور ذلیل کیوں سمجھتے ہیں؟ مجھے معلوم ہے حالات سخت ہیں، معاندین اور مخالفین کی ایک بڑی جماعت ہمیں اچک لینا چاہتی ہے۔ ان کے عزائم اور منصوبے بہت خطرناک ہیں۔ وہ بہت منظم، صاحب وسائل اور طاقتور ہیں۔ پوری اسٹیٹ مشنری اور ذرائع ابلاغ ان کی پشت پناہی کررہی ہے۔ عالمی حالات بھی ان کے لیے سازگار ہیں۔ لیکن یہ تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے حالات آتے رہے ہیں۔ قوم بار بار آزمائشی حالات سے دوچار ہوتی رہی ہے اور اب تک نہ جانے وہ آگ کا کتنا دریا عبور کرچکی ہے۔ موجودہ وقت اور حالات پر بھی یقین محکم، عمل پیہم اور محبت فاتح عالم کے جذبے کے ساتھ قابو پایا جاسکتا ہے۔ ضرورت ہے اپنا احتساب کرنے کی۔ اپنی خامیوں اور کمیوں کا ناقدانہ اور ایماندارانہ جائزہ لینے کی اور پوری ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ اس کی اصلاح کرنے کی۔ ہم دوسروں کی کمزوریوں اور خامیوں پر تو بہت سخت ہوتے ہیں اور اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ یہ احتساب نہیں ہوا بلکہ یہ الزام تراشی ہوئی۔ یہ ہمارے مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص جواب دہ ہے۔ فرد سے خاندان بنتا ہے۔ خاندان سے برادری بنتی ہے، برادری سے قوم بنتی ہے۔ لہٰذا ہر فرد کو، ہر خاندان کو، ہر برادری کو اور اس طرح پوری قوم کو اپنے حصے کی ذمہ داری ایمانداری سے نبھانی ہوگی تبھی مسئلہ حل ہوگا ورنہ ہم چاہیں کہ ہمارے حصے کی ذمہ داری کوئی اور نبھائے اور ہم محض ہدایت دیں، تنقید کریں، تبصرہ کریں یا بے پرواہ ہوکر خاموش تماشائی بنے رہیں تو صدیاں بیت جائیں گی حالات میں کوئی سدھار نہیں ہوگا اور ہم سب حالات کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ اس لیے اگر آپ کے ذہن میں اصلاح کا کوئی منصوبہ ہے، بہتری کی کوئی صورت ہے، چاہے وہ بات کتنی چھوٹی ہو اور مقامی سطح پر ہی ہورہی ہو، وہیں سے اس کا آغاز کیجیے، اس طرح چھوٹی چھوٹی کوششیں بڑی کوشش کا پیش خیمہ بن جائیں گی۔
ٹالسٹائی کی ایک کہانی ہے جس میں تین سوال پوچھے گئے ہیں۔ کون سا وقت سب سے اچھا ہے؟ کون سی جگہ سب سے اچھی ہے؟ اور کون سا کام سب سے اچھا ہے؟ ان سوالوں کا فلسفیانہ جواب دیا جاسکتا ہے۔ مگر ٹالسٹائی نے اس کا بہت سنجیدہ اور صاف جواب دیا ہے۔ اس کے خیال میں جس وقت میں ہم ہیں، ہمارے لیے وہی وقت سب سے اچھا ہے۔ اس لیے کہ جب ہم نہیں تھے یا جب ہم نہیں ہوں گے ، اس وقت ہماری کوئی ذمہ داری بھی نہیں ہوگی۔ ہماری ذمہ داری آج اور ابھی کی ہے کیونکہ اس وقت ہم ہیں، زندہ ہیں، لہٰذا وقت کی اہمیت زندوں کے لیے ہوتی ہے مردوں کے لیے نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس وقت کو اپنی حیات اور مہلت عمل کو غنیمت جانتے ہوئے اس کا بہتر استعمال کرنا کامیاب زندگی کا راز ہے۔ حدیث میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانوں۔ موت سے پہلے زندگی کو، بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، بیماری سے پہلے صحت کو، تنگی سے پہلے فراخی کو اور مشغولیت سے پہلے فرصت کو۔ وقت میں زندگی ہے اور اللہ نے قرآن میں قسم کھا کر کہا ہے کہ سارے انسان گھاٹے میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائے، اچھے عمل کرتے ہیں اور حق اور صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ (سورہ العصر)
دوسری چیز ہے ہم جہاں ہیں وہی جگہ سب سے اچھی ہے اور ہمیں اس جگہ پر رہ کر اپنا احسن عمل پیش کرنا ہے کیونکہ یہی ہمارا میدانِ کار ہے اور اسی میدانِ کار میں ہم کو اپنی خوبی اور کمال کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اس وقت ہم ہندوستان کے جس شہر، گاؤں، محلے، بستی اور مقام پر بھی ہیں ہمارا دائرئہ کار ہے اور یہی ہمارا دائرئہ عمل ہے۔ اگر ہم گاؤں کے میدان میں کرکٹ میں سنچری مارنے کے قابل ہوجائیں گے تو کل لارڈس کے میدان میں بھی سنچری مار سکتے ہیں۔ اگر گاؤں کے اسکول میں ٹاپ کریں گے تو بورڈ کے امتحان میں ٹاپ کرنے کا چانس ہے۔ اگر ہم مقامی بازار میں کامیاب ہوتے ہیں تو بڑے بازار میں بھی مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اس لیے پہلے اپنی فطری اور پیدائشی مقام پر اپنی جوہری صلاحیتوں کو پروان چڑھائیے آگے کا راستہ خودبخود کھلتا چلا جائے گا۔ پہلے کوئی جوہر مقامی طور پر ابھرتا ہے پھر وہاں سے فضائے بسیط میں پرواز کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔
اور تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ جس کام کو کریں اس خوبی اور کمال کے ساتھ کریں کہ لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوں پھر وہ کام آپ کی کامیابی کا زینہ بنے گی۔ آپ دنیا کے کسی بھی بڑے اور کامیاب شخص کی سوانح اٹھا کر پڑھ لیں آپ کو ملے گا کہ اس نے جو کام کیا اس لگن، اس ایمانداری، اس خوبی، اس انہماک اور اس محنت اور جانفشانی سے کیا کہ لوگوں نے اس کو اپنا رول ماڈل بنالیا۔ یہی زندگی کی کامیابی کا راز ہے۔ ہارورڈ بزنس اسکول کا ایک طالب علم اپنے ضروری اخراجات کے لیے ایک بڑے صنعت کار کے گھر ہاؤس کیپنگ کا کام کرتا تھا اور اس کے ذمہ شیشے کاپینل صاف کرنے کی ذمہ داری تھی۔ وہ یہ کام اس صفائی اور خوبی کے ساتھ کررہا تھا کہ اس صنعت کار کی نظر اس کے کام کے طریقے پر پڑی۔ اس نے اس طالب علم کو اپنے قریب بلایا اور اس کے بارے میں جاننا چاہا۔ اس نے بتایا کہ وہ ہارورڈ بزنس اسکول میں مینجمنٹ کا کورس کررہا ہے اور اپنے ضروری اخراجات کے لیے پارٹ ٹائم اس نے یہ کام کرنا شروع کیا ہے۔ وہ صنعت کار یہ جان کر حیرت زدہ ہوگیا کہ اس کے ہاؤس کیپنگ گروپ میں اتنا اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد بھی ہے اور وہ یہ چھوٹا سا کام اس خوبی کے ساتھ کررہا ہے جس سے اس کے انہماک، دلچسپی، محنت، ایمانداری اور کام کو اچھی طرح کرنے کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس لیے فوراً اس شخص کو اس کام سے ہٹا کر اپنی کمپنی میں ایک بڑے عہدے پر بحال کردیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر آپ میں کوئی خوبی اور کمال ہوگا تو وہ جوہر کام چھوٹا ہو یا بڑا ظاہر ہوکر رہے گا اوریہ چیز ایک دن آپ کو سرخرو کردے گی۔ ہمیں یہ گُر سیکھنا ہوگا اور اسی ذریعے سے موجودہ ذلت و نکبت سے باہر آنے کی راہ تلاش کرنی ہوگی۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.