عمرہ ٹوریزم ، عبادت یا پکنک

شہاب مرزا ،
آنکھوں میں خون اتر جاتا ہے جب میانمار، کٹھوا، دادری اور ملک کے 37 کروڑ بھوک مری کا شکار بے یارومددگار لوگوں کا منظر آنکھوں کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور اس کے مقابل مرمری سیلوں سے بنا آنکھوں کو چکا چوند کرنے والا منظر یاد آتا ہےپردے مجازی حقیقت سے صاف اور بے بہرہ نظر آتا ہے مسلمانوں کی خبین نیاز اخلاص سے خالی اور دل لالچ و ہوس سے بھرپور باہمی عداوتوں اور نفرتوں کے ساتھ ساتھ مسلکی اختلافات میں چور چورگویا ایک ہاتھ سو پاگل کتوں کے درمیان گھرا ہوا ہو رسم عبادت عمرہ کا تقدس پامال اور انانیت خود پسندی وجاہت پرستی کے خبیث جذبے کو مقدس عبادت عمرہ کا پیرہن مسلمانوں کی بربادی کی داستانیں سنا رہا ہےسورہ بقرہ کی آیت نمبر ١٨١میں رب العالمین نے فرمایا کہ تقویٰ یہ نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق کی طرف کرو یا مغرب کی جانب کرو بلکہ تقوٰی یہ ہے کہ تم اپنا محبوب ترین مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو لہذا یہ وہی تقویٰ ہے جس کے اخلاق کا تصدیق نامہ دینے کا حق ایک مظلوم محروم یتیم اور محتاج کا ہوتا ہے ملک عزیز بھارت میں عمرہ کرنے کا ایک ایسا فیشن بنا ہوا ہے جو قیصر روم کے دور میں چرچ کا نظام اور ادیہ جگت گرو شنکر آچاریہ کے دور میں مندر کی پوجا پاٹ اور کرم کانڈ کا نظام یاد دلاتا ہےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قسم خدا کی وہ شخص مسلمان نہیں ،قسم خدا کی وہ شخص مسلمان نہیں ، قسم خدا کی وہ شخص مسلمان نہیں ، جس کا پڑوسی بھوکا ہو(بحوالہ ابوداؤ باب الفتن)
ہمارے مسلمان نہ ہونے اور کافر ہو جانے کے لیے اب کسی دارالعلوم دیوبند کی یا جامعہ ازہر مصر کی یا امام بیت اللہ کی یا مدینہ یونیورسٹی کے فتوی کی ضرورت نہیں سوچ لیجئے کہ ہم کیا ہے
ظاہر ہے کے باطل نظام حیات میں کہ جب خلافت قائم نہ ہوئی کسی انسان کا بھوکا سونا مظلوم ہونا محتاجی کی زندگی بسر کرنا ہمارے ایمان پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے کیونکہ گئے وہ دن خب بھولے بھالے شیاطین رمضان میں قید ہوا کرتے تھےاب تو مذہب کے چولے میں موجود مکاری کو دیکھ کر شیطان خود روزے رکھ رہا ہےآپ صل وسلم نے یہ بھی فرمایا جب کوئی مظلوم مدد کے لیے آواز دے اور باوجود ستار کی تم لبیک ناک آؤ تو یوں سمجھ لو کتنی اسلام کا نام و نشان مٹ گیا ( بحوالہ ابو داؤد باب الفتن)غرض کے ثابت ہوا کہ عمرہ مسلمانوں کے لیے نفل عبادت ہے لیکن اگر ہم مسلمان ہی نہ ہو تو عمرے کا تقدس ہمارے ہاتھوں ایسے پامال ہو رہا ہے جیسے قیصر روم کے دور میں چرچ کا تقدس پامال کیا جارہا تھااور حضرت عزیر علیہ السلام کے دور میں بیت المقدس کا تقدس یہودیوں کے ہاتھوں پامال ہو رہا تھا (بحوالہ قرآن الکریم سورہ توبہ آیت نمبر ٣٤)لہذا عمرہ سے پہلے ایمان قبول کرنا لازمی ہے اور اس کے بعد تقوے کے معیار پر اترنے کے خاطر سورہ بقرہ کی آیت نمبر ١٨١ کے تحت مسلمان بننے کے لیے ضروری ہے یعنی کہ اپنا محبوب ترین مال اللہ کی راہ پر خرچ کیا جائےاس لئے میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کے کسی مظلوم کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائے بغیر اسے چہرے پر موجود اطمینان بخش مسکراہٹیں اور مسلمان ہونے کا تصدیق نامہ ہےنہ کہ ہمارا عمرے پر عمرہ کرنا مسلمان ہونے کا تصدیق نامہ ہے کیونکہ ایک مظلوم بھوک پیاس کا شکار بہت بڑا طاقتور انسان ہوتا ہے اس میں موجود بھوک اور مظلومیت کے قوت ایک ایسی قوت ہوتی ہےجو دنیا میں قیصرو کسریٰ کے تخت و تاج جلا کر خاک کر سکتی ہے تو دوسری جانب آپ جیسے دولت مند اور غیر مسلمانوں کے حالت ایمان پر کفر عائد کرتے ہوئے آخرت برباد کر دیتی ہےیہی بات حضرت اسما رضی اللہ عنہ نے حجاج یوسف سے اس وقت کہی تھی جب حضرت عبداللہ بن زبیر کی لاش کو حجاج یوسف نے مکہ شہر کے چوراہے پر لٹکا کر عبداللہ بن زبیر کی والدہ حضرت اسمارضی اللہ عنہ سے متکبرانہ انداز میں کہا تھا دیکھ بڑھیا میں نے تیرے بیٹے کی دنیا برباد کی جواباً ایک شہید کی والدہ حضرت اسمارضی اللہ عنہ نے کہا تھا تو نے میرے بیٹے کی دنیا برباد کر دی لیکن میرے بیٹے نے تیرے آخرت برباد کر دیدنیا میں جھوٹ ، غیبت، دھوکہ، حسد، غریبوں مسکینوں کا حق مار کر اطراف کے رشتہ داروں کو تکلیف دیکر غریب کو حقارت کی نظر سے دیکھ کر اگر عمرہ کے لئے جارہے ہے تو اسکا مطلب یہ صرف تفریحی دورہ ہے
عمرہ کرکے آنے والا وہ ہوتاہے جو اپنے آپ کو تھکاتا ہے مال خرچ کرتا ہے لیکن فرشتے اُس پر افسوس کرتے ہیں ۔کہتے ہیں تیرا عمرہ تیرے منہ پر مار دیاگیا کیونکہ تیرا مال حرام، تیری کمائی، تیرا کھانا، تیرا کپڑا تیری نیت خراب ہے اور تیرا سب کچھ حرام سے آلودہ تھا۔
جس گھر میں سود اور رشوت کا مال جمع ہو۔ سود پر گھر گاڑی اور دوسری اشیاء جمع کی گئی ہوں۔ جس کمائی کیلئے جھوٹ بولنا جائز کر لیاگیاہو زمینوں پر بے جا قبضہ کیا گیا ہو ۔ جن گھروں میں فضول خرچی کیلئے نئے نئے رسم و رواج کو جنم دیا گیا ہوں جن کو نہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پسند کیا نہ صحابہ (رضوان اللہ عنہم اجمعین) نے ۔۔۔ایسے گھروں کے افراد جب عمرے پر عمرے کرتے ہیں تو یہ صرف بیت اللہ کا تقدّس پامال کرنے کیلئے عمرہ کرتے ہیں
یہی سبب ھیکہ علامہ اقبال نے کہا…
میں ناخوش و بیزار ہُوں مَرمَر کی سِلوں سے
میرے لیے مٹّی کا حرم اور بنا دو
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.