رمضان المبارک اور قرآن مجید کا باہمی ربط

مولانا محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
ماہ رمضان کی اہمیت و فضیلت کے بے شمار اور انگنت پہلو ہیں لیکن اس ماہ کی سب سے اہم خصوصیت قرآن مجید سے اس کی نسبت خاص ہے ،جس کی بناء پر اس مہینہ کو قرآنی مہینہ کہا جاتا ہے ۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے اتی ہے اور یہ حقیقت واضح اور واشگاف ہوتی ہے کہ الہامی ہدایت اور قرآنی صحیفوں (کتابوں) اور روزہ کا باہم بڑا گہرا ربط اور قریبی تعلق ہے ،اللہ تعالی نے بنی نوع انسان (انسانیت) کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جو ہدایت (نامہ)وقتا فوقتا نازل فرمائ ہے ،اسے کسی نہ کسی پہلو سے روزے سے خصوصی نسبت حاصل رہی ہے ۔
حضرت موسٰی علیہ السلام نے کوہ طور پر جو ایام گزارے اور جن میں ان کو تورات سے نوازا گیا،ان دنوں آپ علیہ السلام روزے سے تھے ،اس کی پیروی میں یہود چالیس دن روزہ رکھنا اچھا خیال کرتے ہیں اور چالیسویں کا روزہ ان پر فرض ہے ۔( ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۹۸ء)
حضرت عیسٰی علیہ السلام نے بھی نزول انجیل کے زمانے میں جب کہ وہ چالیس دن جنگل میں تھے ،روزہ رکھا ۔ ( حوالئہ سابق)
ابتدائے نزول قرآن اور سیرت محمدی کا بھی روزہ سے گہرا تعلق ہے ،آئیے اس حوالے سے بھی ہم روزہ اور رمضان کی اہمیت و فضیلت کو سمجھتے ہیں ۔
اس تاریخ کا سب سے واضح باب ہمیں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتا ہے ۔ آغاز نزول قرآن سے قبل کے ایام آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ سے زیادہ غار حرا کے اندر تنہائیوں میں عبادت الہی، مراقبہ اور ذکر و فکر میں گزارتے ۔ آپ اعتکاف فرماتے جس کا ایک جز روزہ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم روزہ اور ذکر و فکر کے اسی عالم میں تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر آئے اور انسانی تاریخ میں قرآن کے دور کا آغاز ہوا ۔
ان تینوں جلیل القدر انبیاء کی سیرت کے اس پہلو پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول ہدایت ربانی اور روزے اور اعتکاف میں بڑا گہرا ربط اور تعلق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزہ اور اعتکاف حامل قرآن بننے کا ذریعہ ہے، ذرا اس حقیقت پر نظر رکھئے کہ نبی اللہ تعالی کی خاطر دنیا سے کٹتا ہے اور صرف اپنے مالک اور آقا سے لو لگاتا ہے ،دنیا سے کٹنا اور آقا و مولی سے لو لگانا ہی اعتکاف ہے ،اور جسم وروح کی تربیت و طہارت کے لئے کچھ خاص حدود کے اندر غذا اور نفس کی دوسری لذتوں سے کنارہ کش ہوتا ہے اور یہی روزہ ہے ۔ اس طرح وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ اسے امانت الہی کے اٹھانے کے لائق سمجھا جاتا ہے اور الہامی ہدایت اس پر نازل کی جاتی ہے، پھر وہ اس ہدایت کو لیکر انسانیت کی طرف لوٹتا ہے اور انسانیت کی نئ تشکیل کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ اگر دل کی نگاہ سے دیکھا جائے تو رمضان المبارک ہر سال امت کو انسانی تاریخ کے اسی انقلاب آفرین لمحے کی یاد تازہ کراتا ہے، اور ہر سال اس رشتہ کو استوار کرنے کا وظیفہ انجام دیتا ہے ۔
تیس دن کے روزے انسان کے اندر وہ روحانی بالیدگی، اسپرٹ اور تقوی و طہارت پیدا کرتے ہیں جن کے بغیر انسان حامل قرآن نہیں بن سکتا، آخری عشرے کا اعتکاف ،آغاز نزول قرآن کے وقت اعتکاف نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی یاد تازہ کراتا ہے ،جبکہ پورے رمضان، تراویح میں قرآن مجید کی تلاوت اور دوسرے لمحات میں بھی قرآن کریم سے شغف و تعلق، امت کے اصل مشن اور اس کی حقیقی داری کے احساس کو بیدار کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔
(مستفاد ، ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۹۸)
ماہ رمضان در اصل قرآن کا مہینہ ہے اور اس کی یہی صفت ہے جسے خود زمین و آسمان کے مالک اور اس کتاب کے نازل کرنے والے نے نمایاں فرمایا ہے۔
چنانچہ قرآن مجید کی سورہ نمبر ۲ میں بتایا گیا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کو رمضان کے مہینے میں اتارا ۔ *شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن* الخ
رمضان کا مہینہ وہ جس میں قرآن نازل کیا گیا ۔
اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ قرآن میں اور رمضان کے مہینے میں خصوصی مناسبت اور تعلق ہے ،اس مہینے میں پورے مہینے روزہ رکھا جاتا ہے ،ذکر و عبادت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے ،ایسے پاکیزہ ماحول میں قرآن کی تلاوت، تراویح میں قرآن کو سننا ۔ یہ چیزیں لوگوں کو موقع دیتی ہے کہ وہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ قرآن سے قریب ہوں اور قرآن کے پیغام کو سمجھیں ۔
غرض رمضان کا یہ مقدس مہینہ تاریخی اعتبار سے قرآن کے نزول کا مہینہ ہے اور تربیت کے اعتبار سے قرآن کو اپنے دل و دماغ میں اتارنے کا مہینہ ہے ۔
یہاں ایک اور پہلو سے گفتگو مناسب معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ قرآن مجید سے استفادہ کی بنیادی شرط کیا ہے ؟جب ہم اس پہلو سے غور و فکر کرتے ہیں تو قرآن اور روزے کے تعلق اور ربط پر مزید روشنی پڑتی ہے ۔قرآن نے اپنے سے استفادہ کی شرط اور پہلی شرط تقوی کو قرار دیا ہے ۔ *ھدی للمتقین* میں اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ قرآن کے فہم اور اس کی برکات و فیوض کا دروازہ جس قفل سے کھلتا ہے وہ صفت تقوی ہے اور جن چیزوں کو حصول تقوی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ،ان میں سر فہرست ۰۰ روزہ۰۰ ہے ،روزے کی اولین حکمت یہی بیان کی گئی ہے کہ اس کے ذریعہ اہل ایمان متقی اور پرہیز گار بن سکیں ۔
مشہور صاحب علم و قلم پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں :
اس بات کو ذرا دوسرے طریقے پر ادا کیا جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن تک رسائ کے بھی چند آداب ہیں، اور ان میں دو چیزیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں ۔ ایک جسمانی اور دوسری اخلاقی اور روحانی۔ ہم قرآن اس وقت تک چھو بھی نہیں سکتے جب تک جسمانی طور پر پاک نہ ہوں ،لا یمسه الا المطھرون ، (الواقعہ) جسے مطہرین کے سوا کوئ چھو نہیں سکتا ، اور اس پاکی کے معنی یہ ہیں کہ نجاست کی حالت نہ ہو اور وضو یا غسل کے ذریعہ طہارت جسمانی حاصل ہو ۔ اگر جسمانی طہارت کے بغیر قرآن کو ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا تو قرآن کی روح،اس کے پیغام،اس کے احکام کے فہم اور اس کے فیوض و برکات سے اس وقت تک استفادہ ممکن نہیں جب تک روح،تقوی کی کیفیت سے آشنا نہ ہو ۔ جس طرح وضو اور غسل جسمانی طہارت کا سامان فراہم کرتے ہیں اسی طرح روزہ روح اور اخلاق کی نعمت سے مالا مال کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ باب القرآن ہے اور رمضان شھر القران ہے۔
Comments are closed.