لکڑہاروں کا محاسبہ

سمیع اللہ ملک
افطاری کی ایک تقریب میں شاہ صاحب سے ملا قات ہوئی،میزبان نے تعارف کروانے کی کو شش کی مگرمیں نے آگے بڑھ کران کاہاتھ تھام لیا،شاہ صاحب نے بڑی گرمجوشی سے مجھے گلے لگالیا۔میں شاہ صاحب کونہ صرف جانتاہوں بلکہ دل سے ان کی قدربھی کرتاہوں۔ان کاتعلق ان چندسیاستدانوں سے ہے جوکبھی اصول پرسمجھوتہ نہیں کرتے،جنہوں نے ہمیشہ ایمانداری،خلوص اورنیک نیتی کوزادِراہ جانا،جنہوں نے ہردورمیں سیاست کوکچھ نہ کچھ دیا،اس سے وصولی کی کوشش نہیں کی ۔ہم دونوں ایک کونے میں بیٹھ گئے۔شاہ صاحب اپنا سیاسی اتار چڑھابتانے لگے،انہوں نے سیاست کیسے شروع کی،الیکشن کیسے لڑا،کیسے وزیربنے،رشوت اورلوٹ کھسوٹ سے بچنے کیلئے انہیں کون کون سے پاپڑبیلنے پڑے۔انہیں الیکشن میں کیسے ہروایا گیااورآخرمیں انہوں نے پارٹی کیسے چھوڑی،وغیرہ وغیرہ۔
میں نے ایک بارپھران کی ایمانداری کی تعریف کی،انہوں نے تڑپ کرمیری طرف دیکھا اورٹھنڈے ٹھارلہجے میں بولے”میں اپنی اس ایمانداری،اس اصول پسندی اوراخلاص پرشرمندہ ہوں۔”میں نے انہیں حیرت سے دیکھا،وہ گویاہوئے”تجربے اوروقت نے ثابت کیااس ملک میں جن لوگوں نے کچھ کمالیا وہی صحیح رہے، جنہوں نے موقع کھودیاوہ پچھتاتے رہے،دیکھ لیں ایمانداری کاصلہ،آج میرے ہاتھ میں سیاست ہے نہ ہی مال”۔ہم دیرتک اس شرمندگی اورپچھتاوے پرگفتگوکرتے رہے۔ شاہ صاحب نے بیسیویں مثالیں دیں،لوگ کیسے خالی ہاتھ سیاست میں آئے،وقت اورموقع سے فائدہ اٹھایا،فرش سے عرش تک جاپہنچے اورآج عیش کررہے ہیں۔احتساب کے درجنوں محکمے بنے،ان کے خلاف کیس اورریفرنس بھی دائرہوئے لیکن انہیں کوئی فرق نہیں پڑا،ان میں سے کچھ نے دے دلا کر جان چھڑالی اورکچھ مک مکاکرکے ایک دفعہ پھرایماندارسیاستدان کاتمغہ حاصل کرچکے۔چندایک حضرات قانون کے مورچے میں پناہ گزیں ہوئے لیکن بالآخرانہوں نے بھی وفاداریاں تبدیل کرکے جان اورمال بچالئے اورپیچھے رہ گئے ہم جیسے بے وقوف! جن کادامن خالی تھااورخالی ہے،وہ گھاٹ کے رہے اورنہ ہی انہیں گھرنصیب ہوا۔
میرصاحب ایک ریٹائرڈبیوروکریٹ تھے۔40سال اقتداراوراختیارکے کوریڈورمیں رہے،کس کس قیمتی پوسٹ اورکیسے کیسے سنہرے عہدے پررہے لیکن کیامجال کہ ایمان اور ایمانداری کوہا تھ سے جانے دیاہولہنداجب ریٹائرہوئے توسرچھپانے کیلئے چھت تک نہیں تھی،جوپس اندازتھاوہ کواپریٹوبینک لے اڑا،اورزندگی انہوں نے پنشن اوردکھ میں گزار دی۔ہرصبح بیوی کے طعنوں اوراولادکے شکوں سے آنکھ کھلتی اوررات کوحالات کے بوجھ اورضروریات کی گرانی تلے بند ہوتی، میرصاحب نے بھی آخری زندگی پچھتاوے میں گزاری ،وہ بھی کہاکرتے تھے”نیکی بندے کووہاں کرنی چاہئے جہاں نیکی کی کوئی وقعت ہو،جس معاشرے میں ایمانداری کادوسرانام بے وقوفی ہووہاں ایمانداری سے پرہیزلازم ہے،افسو س مجھے دورانِ ملازمت اس بات کا احساس تک نہ ہوا”۔
یہ شاہ صاحب ہوں یامیرصاحب،ہمارے معاشرے میں ایسے کرداربکھرے پڑے ہیں،ہم سب کی زندگی میں کوئی نہ کوئی شاہ صاحب،کوئی نہ کوئی میر صاحب ضرورہوں گے،یہ لوگ پہلے اکثریت میں ہوتے تھے لیکن اب اقلیت کی شکل اختیارکرتے جارہے ہیں۔ہرآنے والادن ایسے لوگوں کی نعشوں پرطلوع ہورہا ہے،وہ لوگ جوکبھی ضمیرکوعدالت سمجھتے تھے،جنہیں محسوس ہوتاتھاسب آنکھیں بندہوجائیں توبھی ایک آنکھ انہیں مسلسل دیکھتی رہتی ہے،جویہ سوچتے تھے دنیا عارضی کھیلہے اوراس کھیل میں سب کچھ ہاردینابے وقوفی ہے اورجویہ کہتے تھے اطمینان سے بڑی کوئی دولت اورسچائی سے بڑی کوئی طاقت نہیں،وہ لوگ اس معاشرے سے سمٹتے جارہے ہیں،یہ معاشرہ،یہ ملک ان لوگوں سے خالی ہوتاجارہا ہے ،اس ملک میں ایمانداری کی زمین بڑی تیزی سے سیم اورتھورکاشکار ہوتی جارہی ہے۔
جاپان میں زمین نہیں لہنداسبزہ اورہریالی بھی نہیں لیکن جاپانیوں نے ایک عجیب عادت پال رکھی ہے،انہیں گھر،دفتریادوکان کاکوئی بھی کنارہ خالی ملتا ہے وہ اس میں بیج بودیتے ہیں ،وہاں پودالگادیتے ہیں۔جاپان دنیاکاواحدملک ہے جس میں آپ کوگملوں میں سبزی ملتی ہے۔میں نے ایک جاپانی سے وجہ دریافت کی تواس نے ہنس کرکہا”ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہریالی کم ہے لہنداہم ہریالی بڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ہم سبزیاں درآمد کرتے ہیں لہندا ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہم ایک ٹماٹر،ایک آلواورمٹرکی چندپھلیاں ہی سہی،کچھ اگائیں،کچھ تواپنا کھائیں۔”یادرہے جب جاپانی جوڑوں میں کوئی غلط فہمی پیداہوجائے تو صلح کے دن وہ اپنے گھرکی کوئی نہ کوئی چیزدسترخوا ن پرایک نعمت کے طورپرضرورسجاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں این آر او نے ایمانداری،سچائی اورخلوص کاجنازہ نکال کررکھ دیااوراب یہ اوصاف ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔سابقہ حکومت میں سیاستدانوں نے این آراو کو اپنے لئے ایک مثال بناکرایسی کھلے عام لوٹ مچا ئی کہ الامان الحفیظ!الزمات اورانکشافات کی ایسی غلیظ تھیلی بیچ چوراہے میں رکھ دی گئی کہ قوم سکتے میں آ گئی۔ان الزامات اور انکشافات میں بھی کئی آدھے سچ اورجھوٹ شامل کرکے قوم کی توجہ ان خطرات سے ہٹا دی گئی جس کی آگہی سے عوام کو اپنے وطن کے بارے میں اپنے دوستوں اوردشمنوں کی تمیز ہو رہی تھی۔
ہمارے ملک میں پہلے ہی ایمانداری،وفاداری اورخلوص ختم ہوتاجارہاہے لہنداہمیں بھی گھروں،دوکانوں اوردفتروں میں ان ختم ہونے والی صفات کے بیج بونے چاہئے،گملوں میں اس کی پنیریاں لگانی چاہئیں۔یہ لوگ جوپچھتاوے کی سڑک پرقدم رکھ رہے ہیں ان کیلئے بھی کچھ نہ کچھ کرناچاہئے۔ہم اگرانہیں کچھ دے نہیں سکتے توکم ازکم ان کاحوصلہ تو ضروربڑھاسکتے ہیں،ان کوعزت تودے سکتے ہیں،ان کی نیکی اورایمانداری کااعتراف توکرسکتے ہیں،لوگ بجھتے چراغوں کی پھڑپھڑاتی لوبچانے کیلئے اپنے ہاتھ جلا بیٹھتے ہیں،ہم کیسے لوگ ہیں ہمارے سامنے زندگی کے بھانبھڑ میں برف کاشت کی جارہی ہے لیکن ہم خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔کوئی شخص درخت کاٹ رہا تھا،کسی راہ گیر نے احتجاج کیا تودرخت کاٹنے والے نے کلہاڑی کندھے پررکھ کر پوچھا”یہ سڑک اوردرخت تمہاراہے؟”راہ گیرنے جواب دیا”نہیں ،لیکن میں یہاں سے روزگزرتا ہوں،مجھے معلوم ہے دس سال بعدمیرابیٹابھی یہاں سے گزرے گااگر میں آج احتجاج نہیں کروں گا،اس درخت کوکٹنے سے نہیں بچاں گاتوکل میرابیٹااس کے سایہ سے محروم ہوجائے گا،یہ سڑک اس کیلئے جہنم بن جائے گی۔
یادرکھئے!اگر ہم نے بھی ایمان اورنیکی کے ان چراغوں کی حفاظت نہ کی توہماری اولاد نیکی اورایمان کے الفاظ تک سے واقف نہیں ہو گی۔یہ معاشرہ یہ ملک ”کامیاب”لوگوں کا ملک،موقع سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں کامعاشرہ ہوگا،یہ سڑک جہنم بن چکی ہوگی۔ہمیں فی الفور ان لکڑہاروں کا محاسبہ کرناہو گاجوہمارے ملک کے تمام درختوں کوکاٹنے کیلئے کندھے پر کلہاڑیاں لئے تیار کھڑے ہیں۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.