افسوس کہ حرکت نہ رہی تجھ میں ہی ورنہ….!

مفتی غلام رسول قاسمی
سب ایڈیٹر بصیرت آن لائن
8977684860
کیا کہا؟ کانگریس ہار گئی اور بی جے پی پھر سے بازی لے گئی۔۔؟ تو کیا ہوا؟ اگر کانگریس ہی جیت جاتی تو کونسی خلافت اسلامیہ قائم ہو جاتی تھی۔۔! مسلمانوں کے لیے دونوں ہی تو نقصان دہ ہیں، اور کیوں نہ ہو کہ خالق ارض و سماء کی جانب سے روئے زمین پر جس قوم کو قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اس قوم نے عزت و وقار کی زندگی اور قیادت و سیادت کے بجائے اپنے لیے غلامی کو پسند کیا ہے، جس قوم کا ایک مؤثر طبقہ سیاست میں قدم رکھنے کو ہی گناہ عظیم سمجھتا ہو، جس قوم دوسرا اکثریتی طبقہ آزادی کے بعد سے ہی ذاتی طور پر سیاست میں حصہ لینے اور قیادت سنبھالنے کے بجائے کانگریس کی کاسہ لیسی کو پسند کیا ہو، جس قوم کا تیسرا طبقہ زمین پر خلافت علی منہج النبوۃ قائم کرنے اور میدان عمل میں آنے کے بجائے اول یوم صرف زبانی جمع خرچ کرتا آ رہا ہو، جس قوم کا چوتھا حصہ بغیر سیاسی شعور اور حکمت عملی و مستقبل میں پیش آمدہ مسائل اور انجام کی پرواہ کیے بنا رشوت لیکر اپنے ہی مذہبی مسلمان امیدوار کے مقابل ہو جائے اور ہرانے و ووٹ کاٹنے کے لیے کھڑا ہوجاتا ہو، جس قوم کا پانچواں ٹکڑا صرف اخباری بیان بازی اور مضامین چھپوا لینے کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھتا ہو، جس قوم کا ساتواں طبقہ سیاست میں حصہ لیے بغیر صرف دینی چوغہ پہن لینے کو ہی پوری دنیا میں اللہ اور اس کے رسول صلعم کا دین و نظام نافذ ہوجانا سمجھتا ہو اور سیاست سے ایسی ہی نفرت کرتا ہو جس طرح بھنگی کے بدن کی بدبو سے نفرت کی جاتی ہو، تو ایسی قوم بھلا کیسے کامیاب ہو سکتی ہے، جناب عامر رشادی صاحب نے درست کہا کہ کسی بھی قوم کے عروج و زوال اس قوم کے تین طبقے پر منحصر ہوتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔
١- علماء دین ۔۔۔۔۔ سادھو سنت
٢- دانشوران ۔۔۔۔۔ بدھی جیوی
٣- سیاستدان ۔۔۔۔۔ راج نیتا
ہماری قوم کے یہ تینوں طبقات سرے سے ” مسلم قیادت ” کے خلاف اور سیکولرازم کے علمبردار ہیں ۔۔۔۔۔۔
جو تھوڑے موڑے طرفدار ہیں تو دعاء دے دیتے ہیں یا موجودہ وقت سوشل میڈیا میں لڑائی لڑ لیتےہیں، اور جب قیام کا وقت آتا ہے تو ” سجدہ ” میں چلے جاتے ہیں.
افسوس کہ حرکت نہ رہی تجھ میں ہی ورنہ
تھا کار جہاں ایک تماشا ترے آگے
میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا کانگریس ہماری خیر خواہ جماعت ہے؟ کہ جیت جاتی تو ہمیں فائدہ ہوتا جبکہ کانگریس کے دور اقتدار ١٩٥٠ میں صدارتی حکم نامے کے ذریعہ مسلمانوں کو ریزرویشن سے تہی دست اور محروم کر دیا گیا، کانگریس کے دور اقتدار میں مراد آباد ملیانہ میرٹھ بھاگلپور مظفر نگر وغیرہ میں مسلمانوں کے لہو سے فرقہ پرست طاقتوں نے اپنی پیاس بجھائی، شدت پسند تنظیموں کی جانب سے کیے گئے جگہ جگہ سلسلہ وار بم دھماکوں میں ناجائز طور پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور جھوٹے الزامات میں برسوں سلاخوں کے پیچھے کانگریسی دور میں رکھا گیا اور اب تک ہیں، کانگریس کی ہی حکومت میں بابری مسجد کو پوجا پاٹ کے لیے کھولا گیا، پھر وہ دن بھی اسی کی دور حکومت میں دیکھنے پڑے جب بابری مسجد کو ہماری آنکھوں کے سامنے اِس وقت اقتدار میں آنے والی حکومت کے کارکنوں نے شہید کر دیا تھا، میں یہ نے نہیں کہہ رہا ہوں کہ یہ سب کانگریس کی پالیسی کا حصہ تھے لیکن اسی وقت کانگریس اگر ایکشن لیتی اور مظلوم کے زخموں کا مدوا کرتی تو آج اسے یہ دن دیکھنے نہ پڑتے نیز اپنے بقا کی جنگ لڑتے نہ دکھائی دیتی اور فرقہ پرست طاقت اقتدار میں نہ آتی.
بہرحال آج جن کی کامیابی دکھائی دے رہی ہے ان کے طبقے نے بڑے ہی اخلاص کے ساتھ 1925 سے 2019 تک لگاتار کام کیا اور قربانیاں بھی دی ہیں.
اور مثل مشہور ہے کہ جو دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں وہی لوگ گھر کے اندر جاتے ہیں اور جو دروازہ پر دستک ہی نہ دے تو بھلا وہ کیسے گھر میں داخل ہونگے۔۔!
اس لیے یہ شکایت کرنا کہ ہم بحیثیت مسلمان حاشیہ پر ڈال دئیے گئے ہیں یہ در اصل حقیقت سے چشم پوشی اور بیوقوفی ہے۔
شاعر وقت مولانا فضیل ناصری صاحب نے کیا خوب کہا ہے
یہ کفر کسی وقت تھا رسوا ترے آگے
گھستی تھی جبیں خاک پہ دنیا ترے آگے
جب مجموعی طور پر ہماری زندگی کا مقصد کھانے پینے اور لاابالی پن کے علاوہ کوئی مقصد ہی نہ ہو تو کیسا گلہ اور کیسا شکوہ۔۔!
ہوجائے اگر اب بھی خودی کا تو محافظ
رکھ دیں گے سلاطین بھی کاسا ترے آگے.
Gulamrasool939@gmail.com
Comments are closed.