احساس کمتری کو ختم کرنے کا نام امتیاز جلیل

حقائق سے محروم افراد کیلئے عزم،اتحاد،جہد مسلسل سے ہر فتح ممکن،پرواز حوصلوں سے ہواکرتی ہے
عبدالوہاب حبیب
سترہویں پارلمانی انتخابات ملک کیلئے اتنہائی دلچسپ رہے۔صرف 2ارکان پارلمان سے شروع ہو کر کر بی جے پی نے آج تقریباً سارے ملک کو بھگوا رنگ میں رنگ دیا ہے۔حقیقتاً یہ جیت انتہا پسند ہندوتو کی جیت ہے ۔اس نظریہ کی جیت جو ملک کے باشندوں کے درمیان تفریق کا،نفرت کا درس دیتی ہے۔یہ جیت ان مقتدر کی جیت ہے جو کرسی کی خاطر کسی بھی حد تک تجاوز کرنے سے گریز نہیں کرتے اور اسکی مثالیں پچھلے پانچ برسوں میں متعدد دفعہ ہماری نظروں سے گذر چکی ہیں۔یہ انتخابات واضح طور پر اعتدال ۔امن پسند اور انتہا پسند وں کے درمیان تھا اور ملک کی عوام نے یہ فیصلہ کر دیا کہ اسے کونسی روش پسند ہے۔دنیا کا سب سے بڑا سیکولر ملک کہلائے جانے والا بھارت اب فسائی طاقتوں کے نرغے میں ہے جو ملک کو نظریاتی و عملی طور پر ہندتو کی ڈگر پر لے چلے ہیں اور یہ امر امن پسند شہریوں کیلئے باعث تشویش ہے۔نتائج دیکھ کر کسی بھی حقیقی سیکولر اور امن پسند شہری کو تاسف ہوگا خصوصاً مسلمانوں کیلئے یہ وقت احتساب و تدبر کا ہے۔چندسال پہلے تک بی جے پی کو محدود قرار دینے والی قیاس اب تاش کے پتوں کے طرح ڈھیر ہیں۔بی جے پی اور اس کی ہمنوا پارٹیوں نے 353سیٹ حاصل کیں جبکہ حکومت کیلئے انہیں 272سیٹیں ہی درکار تھی اور سب سے قدیم و بڑی پارٹی کانگریس 98پر محدود ہو کر رہ گئی۔اس سے قوت و اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کے حوصلے کتنے بلند ہوں گے۔ان یکطرفہ انتخابات میں حکومت اور الیکشن کمیشن پر ہر روز نئے نئے الزامات عائد ہوئے لیکن وہ اپنے مشن پر پورے زور کے ساتھ لگے رہ کر کامیابی حاصل کرنے کے ہی دم لیا۔نتائج سے مسلمانوں میں خاص کر دیہی علاقوں کے مسلمانوںمیں ایک قسم کا ڈر اور خوف طاری کیا گیا ہے ۔آرٹیکل لکھنے کے دوران راقم الحرو ف کو گائے کے نام پر مدھیہ پردیش میں 3افراد کی ماب لنچنگ کی رپورٹس مل رہی ہیں)بی جے پی کے زہریلے نیتائوں کی بھاشن بازی نے ملک کے ماحول کو انتہا پسندی کے روش پر ڈال رکھا ہے جسمیں اقلتیوں کو ڈرانے اور دھمکانے کی بنیاد پر واہ واہی ملتی ہے۔لیکن ان انتخابات کے چند پہلو ایسے بھی ہیں جن پر روشنی ڈالنا انتہائی ضروری ہے۔ان انتخابات میں جملہ 27مسلم امیدوار بحیثیت ممبر آف پارلمنٹ کامیاب ہوئے جوکہ مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کا صرف 5فیصد ہے۔الیکشن میں سب سے زیادہ نظریں مہاراشٹر کے اورنگ آباد کی سیٹ پر جمی ہوئی تھیں کیونکہ یہاں سے مجلس اتحاد المسلمین نے پرکاش امبیڈکر کے ساتھ مل کر زعفرانی قلعہ کو مسمار کرنے کا فیصلہ لیا تھا۔2014میں معجزاتی طور پر جیت درج کرنے والے امتیاز جلیل پر پھر سے ذمہ داری تھی شیوسینا کے بانی ممبر و قد آور لیڈر چندر کانت کھیرے کو شکست سے دوچار کرنے کی۔سوشل انجینئرنگ ،انتھک محنت،اپنح شفاف کردار ،صحافتی تجربہ،نوجوانوں کے جوش و خروش کو یکجا کرتے ہوئے ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے کھیرے شکست فاش سے دوچار ہوئے۔ہر چند کہ سیاسی لیڈران اورچند مسلم لیڈران مجلس کی کامیابی کو مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بتا رہے تھے۔اچھی منصوبہ بندی،اس پرعمل اور اللہ پر بھروسہ والی تدبیر ،تقدیر کو بدل سکتی ہے یہی بات امتیاز جلیل پرصد فیصد صادق آتی ہے۔الیکشن کا بگل بجنے کے دوران انتہائی کم وقت میں اتنا بڑے رِسک کیلئے یقینا حوصلے درکار ہوتے ہیں اور مسلم تاریخ حوصلوں سے بھری پڑی ہے پھر معاملہ بدر کا ہو،خیبر کا ہو ،کشتیاں جلانے کا ہو یا دور حاضر میں فرقہ پرستوں کو لگام بند کرنے کا۔۔۔
کانگریس نے اسی حوصلہ کو پست کر رکھا تھا۔اب کانگریس کے حوصلے دیکھیے؛ جسکے قائد راہول گاندھی اپنی سیٹ سے ہار جاتے ہیں اور مسلمانوں کے دم پر وایاناڈ میں جیت جاتے ہیں۔کانگریس نے مسلمانوں کو بانٹا اور اس کے سامنے متبادل نہ ہونے کا ڈھونگ رچایا۔اب جبکہ علاقائی پارٹیاں بھی مسلمانوں کو 20سے زائد پارلمنٹ منتخب کرتی ہے تو نام نہاد سیکولر خیمہ میں صف ماتم بچھی ہوتی ہے۔امتیاز جلیل سے امید ہے کہ وہ خستہ اور نگ آباد کی زرین تاریخ کو دوبارہ احیا کریں گے اور ملک عنبر،اورنگ زیب،ڈاکٹر رفیق زکریا کے بعد ماڈرن ڈیولپمنٹ کے سہارے معمار ثلاثہ بن کر عوام کا دل جیتیں گے۔ادھر نتائج کے فوراً بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مسلمانوں کے نام مکتوب جاری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلان اپنے اندر ہمت ڈعزم اور حوصلہ پیدا کریں۔بورڈ نے یہ بھی لکھا کہ صبر و استقامت کے ساتھ دین و ایمان پر قائم رہیں گے اور یہ ملک سے ہم دستبرداری اختیار نہیں کر سکتے۔اسی لیٹر کو اورنگ آباد کے تناظر میں دیکھا جائے تو عیاں ہو گا کہ شہریان اورنگ آباد نے عزم،اتحاد کی مثال پیش کی ہے و ہ بے نظیر ہے۔جب فسطائی یکجا ہو کر اسی جمہوری نظام میں رہتے ہوئے ہندتو کی نام نہاد حکومت قائم کر سکتی ہے اور امن پسند اور مظلوم و بے کس شہریان اپنے دستوری حقوق کیلئے کیوں نہیں میدان کار میں اتر سکتے ہیں ؟جیت کے بعد سب کو ساتھ لے کر چلنے اور امن قائم کرنے کی امتیاز جلیل کے بیان اور اس کے برعکس اپنی ہار کوہضم نہ کرنے والے کھیرے اور ہمنوا اپنی خمیری مٹی کا حق ادا کر رہے ہیں۔مسلم دلت و امن پسند شہریوں میں حوصلہ بڑھا ہے اور جیت کی خوشی جاری ہے لیکن ابھی جیت کو دو دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ ایجنڈہ سیٹ کرنے والے مراٹھی میڈیا نے اسمبلی انتخابات کیلئے ان مظلوم ووٹرس میں انتشار کا ڈھونگ پھر سے شروع کر دیا ہے انہیں ڈر ہے کہ اسمبلی انتخابات میں یہی پیٹرن کہیں پوری ریاست بلکہ ملک میں نافذ نہ ہو جائے۔اسی دوران مسلم قیادت کو ختم کرنے والے کانگریسی ٹولہ کا الیکشن کے دوران ایک اشتہار کا سہارا لے کر مسلمانوں کی تقسیم کی کوشش ہو رہی ہے۔چند نوجوان جیت کی خوشی میںاشتہار میں موجود افراد پر طنز کر رہے ہیں لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ اس سے نا اتفاقی اور زیادہ بڑھے گی اور ویسے بھی جیت مقصود تھی وہ مل گئی اور فرقہ پرست نام نہاد (سیکولر )ٹولہ کے نرغے میں پھنسے ان افراد کو بھی حوصلہ و اتفاق کا درس مل گیا ہوگیا کہ اجتماعیت ،اتحاد و اتفاق کے ساتھ ہرنا ممکن سی دکھنے والی شئے بھی ممکن ہو سکتی ہے۔اللہ کارساز ہے ،وہی عزت دیتا ہے اور ذلت بھی۔سارے کھیل وہی بناتا ہے اور ہمارے اعمال و بے توجہی کے سبب ہم پر مسلط بھی ظالموں کو کرتا ہے۔شہریان اورنگ آباد خصوصاً مسلم نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ محتاط رہیں کیونکہ شکست سے دوچار منافرتی ٹولہ دیگر قوموں میں مسلمانوں کا ڈر جتانے کی کوشش کر رہا ہے خاص کر غیر مسلم طلباء اور غیر مسلم خواتین کی حفاظت کے جھوٹے دعوے کر رہا ہے جسکی مثال خود امباداس دانوے کے ویڈیو کی ہے۔پیغام ہماری قیادت سے تو یہی کہ احساس کمتری سے قوم کو نکالیں کیونکہ ڈری ہوئی قوم مضبوط قیادت ابھار نہیں سکتی۔اب تلک امتیاز جلیل کا سامنا ریاستی سطح پر تھا اب خود مودی،امیت شاہ،پرگیہ ٹھاکر ،گری راج سنگھ جیسے
لیڈروں سے ہوگا جہاں دیکھنا یہ ہوگا کہ صحافت کی افق سے نکل کر سیاست کی گلیاروں میںیہ کس طرح اپنی آواز کو ببانگ دہل پیش کرتے ہیں ۔امید یں یہی ہیں کہ 35سال قبل پارلمنٹ میں بی جے پی کے صرف2رکن تھے اور آج مجلس کے۔۔۔۔۔۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.