اپنے خالق کوپہچان

سمیع اللہ ملک
خودکومخلوق سمجھتے ہیں اورخالق کونہیں پہچان سکے۔چلتی پھرتی تصویریں اپنے مصورکونہیں پہچان پائیں۔بندہ بشراپنے پالنے والے سے بے خبرہے۔خوش قسمتی سے اپنے رب کوتوایک مانتاہے لیکن بدقسمتی سے اس کی ایک نہیں مانتا۔رب کاذکرتوبہت کرتاہے اس پریقین نہیں رکھتا۔اپنے جگری دوست کی بات کا تواعتبارکرتاہے اورخالق کوبھول جاتاہے۔خالق نے کہاہے کہ میں ہوں رزاق، بس سن لیتاہے مگررزاق تووہ دفترکومانتاہے،اپنی دکان کومانتاہے،اپنے ٹھیلے کو سمجھتاہے،اپنے کارخانے کوسمجھ بیٹھاہے۔سبب کے بغیربھی وہ مالک دے سکتاہے،یہ نہیں مانتا،تھوڑی سی تکلیف آجائے توآہ وزاری کرتاہے۔شکر کرناتو سیکھاہی نہیں مگرکوئی یاددہانی کرائے توبہت کم شکراداکرتاہے اورشکوہ شکایت بے پناہ۔ کسی حال میں بھی توخوش نہیں ہے یہ۔سمجھتاہے کہ بہت داناہے بینا ہے لیکن کہاں ہے دانا،کہاں ہے بینا!تھڑدلاہے،بے ہمت اورجلداکتاجانے والا……..بندے تووہ ہیں جوخالق پرایسا یقین رکھیں جیسے کہ صبح سورج کے نکلنے کا،رات کوچاندتاروں کا۔ایسایقین رکھنے والاہی توبندہ کہلانے کامستحق ہے۔یہ بندہ کہلاناکوئی معمولی بات نہیں۔رب کوخوش رکھناہے تو بندے بنو،رب نے جوکہہ دیااس پرایسایقین کرلوکہ پھرتمہیں کوئی خدشہ نہ ستائے۔رب نے کہہ دیاتوبس یہ ہوکررہے گا۔سورج توہوسکتاہے کل نہ طلوع ہو۔وہ بھی تومخلوق ہے ناں لیکن رب کی بات ہے اٹل،رب کاوعدہ ہے سچا۔بس وہی ہے خالق ومالک،کھلانے والاپالن ہار۔
انسان کوکیاہوگیا،بس اکیلے ہی ہرشے چٹ کرناچاہتاہے،کیاہوگیاہے اسے!کبھی مرغی کودیکھاہے تم نے،دانادنکاچگنے کے بعدپانی پیتے ہوئے۔جودیکھناچاہیے وہ تم دیکھتے نہیں ہو،جونہیں دیکھنااسے آنکھیں پھاڑکردیکھتے ہو۔دیکھو کبھی مرغی کوپانی پیتے ہوئی،ہرقطرہ پرسراٹھاکرآسمان تکتی ہے،شکربجالاتی ہے…….. اپنے رب کاشکراورجب سیرہوجائے توپانی کے کٹورے کوپیرمارکرگرادیتی ہے،دوسرے وقت کیلئے نہیں رکھتی۔تم سے تویہ مرغی زیادہ شکرگزارہیتمہیں کیا ہوگیاہے؟کیوں نہیں سمجھتے،کب سمجھوگے۔یہ وقت توگزررہا ہے، پہچانوخودکو،اپنے مالک کو……..رحم کرومخلوق پر۔حرصِ قبیح چھوڑدو،مل بانٹ کے کھا۔ اکیلے توتم کچھ نہیں کھاسکوگے،سب فتنہ ہے۔مال بھی فتنہ،غربت بھی۔رب کوپہچانو،فلاح پا جاؤگے۔
لیکن بندہ توحرص قبیح میں مبتلاہے،ہاں رب کومطلوب توحرص ہی ہیلیکن ایسی حرص نہیں جولوگوں کوآزارپہنچائے۔یہ حرص نہیں یہ توحرصِ غلیظہ ہے، کتے والی حرص ہے۔کبھی کتے کو دیکھو،اسے اگرکہیں سالم ثابت مردارگائے مل جائے توبس وہ اسے اکیلاہی چٹ کرناچاہتاہے۔کبھی موقع ملے تو ذرااس منظر کودیکھو۔وہ دوسرے کتوں کوآگے بڑھنے ہی نہیں دیتا اورخودساری گائے کھابھی نہیں سکتا۔باقی سارے اسے تکتے رہتے ہیں لیکن جب کتے کاپیٹ بھرجائے تو وہ بھی باقی گائے کوکہیں دوسرے وقت کے لیے چھپاکرنہیں رکھتا،دوسروں کیلئے چھوڑدیتاہے۔کتاحریص ہیلیکن انسان……..یہ تواب کتوں سے بھی بازی لے گیا،خودہی سب کچھ کھاناچاہتاہے۔سنبھال سنبھال کررکھتاہے باقی محروم رہتے ہیں۔ کوابھی بہت حریص ہوتاہے بہت زیادہ لیکن کہیں ایک چھوٹاسابھی ٹکڑامل جائے توکائیں کائیں کرکے آسمان سرپراٹھالیتاہے۔وہ منادی کرتارہتاہے دوسرے کووں کوبلاتاہے کہ آیہ ٹکڑا مل گیاہے،اسے بانٹ کرکھائیں اوروہ سب اسے مل بانٹ کرکھاتے ہیں۔
کس کی یہ آرزونہیں،تمنانہیں،تڑپ اورکسک نہیں کہ میں سفرحیات کی شاہراہ پرجوان دیکھے گڑھوں،انجانی کھائیوں،ان دیکھی بلاں،انجانی ابتلاں،ان دیکھے نشیب وفرازسے گھری ہوئی ہے،آگے ہی آگے بڑھتے جاں……آگے ہی آگے شاداں وفرحان اپنی مخصوص منزل کی طرف مزیدبڑھتاجاں اوریہ سفرنہایت ہی قلیل عرصے اورانتہائی کم وقت میں طے کرپاں مگروائے ان دیکھی بلائیں اورانجانی ابتلائیں بیچ منجھدارمیں اس شاہراہِ حیات کے مسافر کواتنی بے دردی اوربے رحمی کے ساتھ دبوچ لیتی ہیں کہ اس کے حسین وجمیل خواب اورانتہائی نرم ونازک شیش محل چورچورہوجاتاہے اوربیچارہ مسافر پھٹی پھٹی آنکھوں سے کف افسوس ملتارہتاہے۔بہت سے مسافردھڑام سے گرجاتے ہیں کہ ان کی ہمتیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں،ان کی قوتیں پاش پاش ہوجاتی ہیں،ان کی صلاحیت دم توڑدیتی ہیں اوروہ ہارے ہوئے،حالات کے پٹے ہوئے،قسمت کے مارے مسافرپھراٹھنے اوراٹھ کرذرااس شاہراہ،شاہراہِ حیات پربڑھنے کایارااپنے اندرنہیں پاتے اوربیٹھنے اورسسک سسک کرجان دینے ہی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں ۔
ایسے لاڈلوں پرشاہراہِ حیات ہنستی ہے،زورزورسے ہنستی ہے بلکہ قہقہہ لگاتی ہے اورچلاچلاکر اسے بزدلوں،کم ہمتوں،نامردوں جیسے ناموں سے مخاطب ہو کرکہتی ہے کہ ارے لاڈلو ! تاریخ عالم کے اوراق الٹ لو،ان اوراق پرصرف اورصرف ان جواں مردوں،بہادروں،جیالوں،آہنی عزائم اورفولادی ارادوں کے مالک مسافروں ہی نے انمٹ نقوش ثبت کئے ہیں جنہوں نے گرنے ہی میں اٹھنے کارازپالیا،جنہوں نے ناکامیوں ہی میں کامیابیوں کی بشارتیں سن لیں،جنہوں نے اپنی بیچارگی اوربدقسمتی کے دامن ہی میں چارہ گری اور خوش بختی کے پھول پالئے،جنہوں نے ٹوٹے حوصلوں میں ہی فولادی عزائم کے گرسیکھے،جنہوں نے زمانے کے ظالم تھپیڑوں سے گرکرہی نئے عزم اورنئے ارادوں سے اٹھنے کافن سیکھ لیا!
ارے لاڈلوغورسے سنو!شاہراہِ حیات کانٹوں،ان دیکھے کانٹوں کی سیج ہے۔یہ پھولوں بھری راہ نہیں،ان کانٹوں سے الجھے بنابھی یہ آپ سے الجھ جائیں گے۔ ذراکچھ دیررکئے نا ،بڑے صبرکے ساتھ،بڑی احتیاط وحزم کے ساتھ،بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ،الجھے ہوئے کانٹوں سے الجھئے مت بلکہ ان کو سلجھائیے۔ سلجھنے اورسلجھانے کے اس ناپسندیدہ عمل میں آپ کوکچھ وقت لگ جائے گا،یہ مت سمجھئے،خدارایہ مت سمجھئے کہ آپ کایہ قیمتی وقت سلجھنے اور سلجھانے کے عمل میں ضائع ہوا۔واللہ!یہی وقت قیمتی ہے جسے آپ ضائع شدہ وقت سمجھتے ہیں،یہی وقت شاہراہِ حیات پرآپ کے بقیہ سفرکے نوک پلک درست کرے گا،آپ کے بقیہ سفرکوآسان بنادے گااورآپ کے بقیہ سفرکیلئے راہ نمایانہ کرداراداکرے گا، شرط صرف ایک ہے کہ بصیرت کی آنکھوں سے کانٹوں کو دیکھئے اوربصیرت کی آنکھوں سے ہی ان کانٹوں کوسلجھائیے۔واللہ کامیابی قدم چومنے کیلئےآپ کی منتظرہے ۔
اگرہمیں شاہراہِ حیات پرکامیابی کے ساتھ آگے بڑھنااورمنزل مقصودسے بغلگیرہوناہے توقرآن وحدیث ہی ہمارے لئے سرچشمہ حیات ہے۔اسی قرآن وحدیث نے ہمیں درس دیاہے کہ جتناجتناخداسے ڈروگے اتناہی دنیا تم سے ڈرے گی۔جتنے خلوص کے ساتھ تم خداکے دین پرصبرواستقامت کاثبوت دوگے اتنے ہی التفات کے ساتھ خداتمہیں عزت وکامیابی سے ہمکنارکرے گا۔تم خداکے حضورجھکوگے،خدادنیاکوتمہاری قدموں میں جھکادے گا۔جب ایک تنہا انسان محمدرسول اللہ ﷺنے پوری دنیا کے بالمقابل توحید کی دعوت پیش کی تھی توظاہری اسباب کی بناپرآخرکون گمان کرسکتاتھاکہ یہ دعوت مخالفت کے بڑے بڑے پہاڑوں کوریزہ ریزہ کردے گی لیکن دنیانے دیکھاکہ خدا پربھروسہ کرنے والے صابر پیغمبر ﷺ کی استقامت نے ہرطوفانِ مخالفت کامنہ موڑدیااوروہی فضاجوتہہ برتہہ ظلمتوں کامسکن تھی نوروتابش سے جگمگاتی چلی گئی۔
کیایہ ہماری بدعملی اوربے عملی کانتیجہ ہے کہ امت مسلمہ کی ناطوفانی حالات اوردہشتگردی کے خلاف جنگ کے گہرے سمندرکے بیچ ہچکولے کھارہی ہے ؟ کتناہی اچھاہوتااگرہم میں ہرفردکماحقہ باعمل بننے کی سعی مشکورکرتاتوامت کی ناطوفانی حالات کاسینہ چیرکرکامرانی اورکامیابی کے ساتھ منزل سے جا لگتی۔کامیابی اورنجات کیلئے گناہ کااقرارہی کافی نہیں بلکہ توبہ کی صورت میں اعمال نیک کاصدورہی نجات کاضامن ہوتاہے۔غذاکی کتنی ہی نئی قسمیں ایجاد کرلی جائیں لیکن انہیں تناول کرنیکیلئے نئے منہ اورنئے دانتوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔اسی طرح احوال وظروف کتنے ہی مختلف ہوں مگران سے عہدہ برآ ہونے کے لئے وہی پرانی صلاحتیں درکارہوں گی جنہوں نے کفروشرک کی فولادی قوتوں سے اپنالوہامنوایا تھا۔وہ اسلام جوایک خداکاخوف دیکرہردوسرے خوف سے بے نیازکردیتاہے،اس ترغیب کی ضرورت ہے۔بس ایسی ہی باتیں کرتے تھے وہ۔آج یادآئے توآپ کوبتادیا۔
سناتوہوگاتونے ایک انسانوں کی بستی ہے
جہاں جیتی ہوئی ہرچیزجینے کوترستی ہے
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.