صدقہ ایک قرض ہے

فریضۂ زکوٰۃ
عبادت بھی–– ضرورت بھی

مولانا غیوراحمدقاسمی

راہِ خدا میں صدقہ وخیرات کرنے کی اہمیت جاننے کے لئے اتنا کافی ہے کہ قرآن کریم نے اس کو ایک ایسا قرض بتایا ہے جو گویا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اور اس کی ادائیگی ضرورکی جائے گی، جس کی صورت یہ بیان کی گئی ہے کہ دینے والے نے اپنے مال کو محتاج وفقیر کو دینے کے بجائے اللہ تعالیٰ کو امانت یا قرض کے طور پر دیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے: من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسناً فیضاعفہ لہ اضعافاً کثیرۃ واللہ یقبض ویبسط والیہ ترجعون۔
کون شخص ہے جو اللہ کو قرض حسن دے پھر اللہ تعالیٰ اسے بڑھاکر کئی گنا کردے اور اللہ ہی تنگی اور فراخی کرتا ہے اور تم سب کو اس کے پاس لوٹنا ہے۔
حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کون شخص ہے جو اپنے پروردگار کو قرض دے جو کہ بے نیاز اور کرم گستر ہے او رجس کے یہاں ٹال مٹول اور ظلم وزیادتی شائبہ تک نہیں۔
صحابۂ کرام کی سخاوت کے نمونے:
عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ جب آیت کریمہ ’’من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسناً فیضاعفہ لہ اضعافاً کثیرۃ ‘‘ نازل ہوتی تو ابو الدحداح انصاریؓ نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتے ہیں، جب کہ وہ قرض سے مستغنی ہے؟ آپ نے فرمایاابو الدحداح نے عرض کیا آپ اپنا ہاتھ دیجئے پھر ہاتھ میں ہاتھ لے کر کہا کہ حضور میں نے اپنا باغ جس میں چھ سو کھجور کے درخت ہیں اللہ تعالیٰ کو قرض دے دیا اور وہاں سے پھر اپنے باغ کی راہ لی اور باہر ہی کھڑے ہوکر اپنی بیوی کو آواز دے کر کہا کہ بچوں کو لے کر– باغ سے باہر ہو جائو، میں نے یہ باغ راہِ خدا میں دے دیا ہے بیوی بچوں سمیت یہ کہتے ہوئے باغ سے باہر ہوگئی کہ ابو الدحداح بیع بہت کامیاب رہی۔ بخشش وعطا کا ایک شاندار نمونہ ہے، اس طرح اسلام نے اپنے پیرئووں کو راہِ خدا میں اپنا مال متاع نثار کرنے کا سبق دیا ہے، یہاں تک کہ منقول ہے کہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو راہ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب دی تو حضرت عمرؓ اپنا نصف مال لے کر حاضر خدمت ہوئے، آپ نے دریافت فرمایا کہ اہل خانہ کے لئے کتنا مال چھوڑ کر آئے ہو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ نصف مال، لیکن حضرت ابو بکرؓ اپنی کل کائنات لے کر دربارِ نبوی میں حاضر ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت فرمانے پر عرض کیا کہ اہل خانہ کے لئے بس اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں، حضرت عمرؓ نے روکر کہا کہ ابوبکر آپ پر میرے ماں باپ قربان بخدا آپ ہر کارِ خیر میں ہم سے سبقت لے جانے والے ہیں۔
حدیث قدسی:
حدیث قدسی ہے جس کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ابن آدم! میں بیمار تھا تو نے میرے عیادت نہیں کی؟ بندہ عرض کرے گا کہ بارِ الہا! میں آپ کی عیادت کیسے کرتا آپ تو رب العالمین ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا لیکن تم نے اس کی عیادت نہیں کی؟ کیا تو اس بات کو نہیں جانتاتھا کہ اگرتواس کی عیادت کرتا تو مجھ کو اس کے پاس پات، اسی طرح ارشاد ہوگا کہ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تونے کھانا نہیں دیا، بندہ عرض کرے گا کہ آپ تو جہانوں کے پالنہار ہیں میں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا؟ ارشاد ہوگا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تونے نہیں دیا! کیا تو اس بات سے واقف نہیں تھا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو اس کا ثواب میرے یہاں پاتا؟ اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی طلب کیا لیکن تونے مجھے پانی نہیں پلایابندہ عرض کرے گا کہ خدایا میں کیسے آپ کو پانی پلاتا جب کہ آپ تمام جہانوں کے پالنہار ہیں، ارشاد ہوگا کہ میرے فلاں بند نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگرتونے اس کو پانی نہیں دیا کیا تجھے پتہ نہ تھا کہ اگر اس کو پانی پلاتا تو اس کا ثواب میرے یہاں پاتا؟
صدقہ کا ظاہر نہ کرنا بہتر ہے:
مذہب اسلام نے اس بات کی ترغیب دلائی ہے کہ صدقہ کو ظاہر کرکے نہ دیاجائے تاکہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کا ثواب کامل ومکمل ملے، چونکہ مخفی طور پر صدقہ دینے میں ریا ونمائش نہیں ہوگی اور صدقہ لینے والے فقیر کے نزدیک بھی یہی طریقہ زیادہ موزوں اور پسندیدہ ہوگا اس لئے کہ ایسی صورت میں اس کو صدقہ لیتے ہوئے لوگوں کو دیکھنے سے جو شرمندگی اور ذلت وخواری محسوس ہوتی ہے وہ نہیں ہوگی، مندرجہ ذیل آیت میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
ان تبدوا الصدقات فنعما ہی وان تخفوہا وتوتوہا الفقراء فہو خیرلکم ویکفر عنکم من سیئاتکم واللہ بما تعملون خبیر
اگر تم صدقات کو ظاہر کرکے دوتو اچھی بات ہے اور اگر انہیں چھپا کر فقیروں کو دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے اور اللہ (اس کی برکت سے) تمہارے کچھ گناہ معاف کردے گا اور اللہ کو تمہارے اعمال کی پوری خبر ہے۔
قرآن کریم کی تعلیمات او رنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسلام کی نظر میں انسان دنیا کے مال واسباب کا نہ خود اصل مالک ہے اور نہ محض اپنے ذاتی اختیار سے دنیوی دولتوں کو اکٹھا کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اسلام یہ بتادینا چاہتا ہے کہ سارے وسائل واسباب کی باگ ڈور اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہے رزق سے نوازے اور جس کو چاہے کنگال بنادے۔ اس کی مرضی کے بغیر نہ تو کوئی مالدار بن سکتا ہے اور نہ کسی کی مالداری کو کوئی چھین سکتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
اللہ یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر (الرعد، ص۲۷)
’’اللہ کشارہ کرتا ہے روزی جس کو چاہے اور تنگ کرتا ہے‘‘۔
الغرض مالداری اور تنگ دستی محض اللہ کے اختیار میں ہے۔ مالداروں کو اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے اور غرور کرنے کا قطعاً حق نہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں ایک لمحہ میں نان شبینہ کا محتاج بنا سکتا ہے۔ قرآن کریم میں فرمایاگیا۔
ما یفتح الہ للناس من رحمۃ فلا ممسک لہا وما یمسک فلا مرسل لہ من بعدہٖ وہو العزیز الحکیم (فاطر آیت ۲)
’’جو کچھ کھول دے اللہ لوگوں پر رحمت میں سے تو کوئی نہیں اس کو روکنے والا، اور جو کچھ روک رکھے تو کوئی نہیں اس کو بھیجنے والا اس کے سوائے، اور وہی ہے، زبردست حکمتوں والا‘‘۔
یہ اللہ کا فضل ہے:اب ہر مسلمان کو خصوصاً یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اسے جو کچھ بھی دولت وثروت ملی ہے اس کا اصل مالک وہ خود نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی مالک حقیقی ہے اور اس نے محض اپنے فضل وکرم سے ہمیں اپنی ملکیت میں بطور نیابت تصرف کرنے کا حق دے رکھا ہے۔ جب اللہ ہی اس کا مالک ہے او راسی کی قدرت کی بناپر ہمیں یہ نعمت میسر آئی ہے۔ تو اگر وہ اپنے بندوں کو یہ حکم کرتا کہ وہ اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں لٹادیں تو ہمیں شکایت یا اعتراض کا کوئی موقع نہ تھا۔ کیونکہ اس کی چیز ہے وہ جہاں اور جتنی چاہے خرچ کرے۔ مگر یہ بھی اس کا فصل ہے کہ اس نے جہاں ہمیں خرچ کرنے کا حکم دیا وہاں پورا مال نہیں بلکہ کچھ حصہ خرچ کرنا ضروری قرار دیا۔ قرآن کریم میں جہاں بھی ’انفاق فی سبیل اللہ‘ کا حکم دیاگیاہے وہاں ’’من‘‘ لاکر اس طرف اشارہ کردیاگیا کہ سارا مال خرچ کرنا مطلوب نہیں۔ بلکہ کچھ حصہ دے دینا کافی ہے۔ اور ساتھ میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی کہ ہم تمہارا مال نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ ہم نے جو تمہیں دیا ہے اسی میں سے تھوڑا سا حصہ لینا چاہتے ہیں تاکہ دینے والے کا بوجھ ہلکا ہوجائے۔دیکھئے، ارشادات خداوندی ہیں:
(۱) ومما رزقنہم ینفقون (البقرہ آیت۳) (۲) وانفقوا مما رزقہم اللہ (النساء ۳۹) (۳)وانفقوا مما رزقنہم سراً وعلانیۃ یرجون تجارۃ لن تبور (فاطر۲۹) ومنرمقناہ منا رزقاً حسنا فہو ینفق منہ سرا وجہرا (انفال ۳) (۶) وینفقوا مما رزقنہم سراً وعلانیۃ (ابراہیم ۳۱) ومما رزقنہم ینفقون، (انفال ۳) (۸) ومما رزقنہم ینفقون (حج ۳۵) القصص ۵۴۔ السجدہ ۱۶۔ الشوریٰ (۳۸) (۹) وانفقوا مما جعلکم مستخلفین فیہ (حدید۷)
ان جیسی آیات میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ کیا ہے کہ زکوٰۃ وغیرہ کا حکم کوئی ٹیکس نہیں کہ اسے بھاری سمجھاجائے بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ اپنی ہی دی ہوئی ایک امانت تم سے مانگ رہا ہے۔ لہٰذااسے دینے میں تمہارے دل پر کوئی تنگی اور بوجھ نہ ہونا چاہئے۔ بوجھ یا تنگی تو اس وقت ہوتی جبکہ تمہاری ذاتی کوئی چیز تم سے مانگی جاتی۔
شکر ادا کیجئے:پہلے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کی قبولیت کی نشانی یہ تھی کہ صدقہ کا مال کسی جگہ رکھ دیا جاتا او رآسمان سے ااگ آکر اسے جلاکر خاکستر کردیتی گویا کہ صدقہ کا مال کسی دوسرے بھائی کے کام نہ آسکتا تھا۔ بلکہ اس کا آگ سے بھسم ہوجانا ہی اصل مقصود سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم کی سورہ مائدہ (آیت۲۷) میں حضرت آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں کے قصہ کے ضمن میں اس طرف اشارہ موجود ہے او ربعض احادیث سے بھی اسی مضمون کا علم ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس امت مرحومہ پر یہ کرم فرمایا کہ اس سے زکوٰۃ کی شکل میں وصول کیاہوا مال اسی کے ضرورت مند افراد پر خرچ کردیاجاتا ہے سورہ توبہ (آیت ۶۰) میں صدقات کے مصارف بیان کئے گئے ہیں۔ اور حدیث میں فرمایاگیا ہے۔
توخذ من اغنیائہم وترد الی فقرائہم (مشکوٰۃ شریف ۱۰۰)
’’مالداروں سے لے کر فقیروں کو دیاجائے گا‘‘۔
اس حکم کی وجہ سے زکوٰۃ دینا اور آسان ہوگیا کہ ہم اپنے مال کو ضائع نہیں کررہے بلکہ اپنے ہی بھائیوں کی ضرورت پوری کررہے ہیں۔ اپنے محتاج بھائی کی حاجت روائی پر صرف کرنا دراصل اللہ تعالیٰ ہی کو دینا ہے۔ ایک صحیح حدیث میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ ایک شخص سے سوال کرے گا کہ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھاتونے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ وہ عرض کرے گا کہ پروردگار! بھلا میں تجھ کو کیسے کھانا کھلاتا تو دونوں جہاں کا پروردگار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تجھ کو یاد نہیں میرا فلاں بندہ تجھ سے کھانا مانگنے آیاتھا تونے اس کو کھانا نہیں کھلایا۔ اگرتواس کو کھانا کھلادیتا تو مجھ کو تو اس کے پاس ہی پاتا۔ الخ (مسلم شریف ۲/۳۱۸)
صرف چالیسواں حصہ: پھر غور فرمائیے کہ پورے مال کا صرف ۴۰ واں حصہ سال بھر میں فرض کی حیثت سے نکالنا ضروری قرار دیا گیا او ریہ بھی مطلق نہیں بلکہ وہ مال جو اپنے اند ربڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور ضرورت اصلیہ سے زائد ہو اور اس پر ایک سال اس حالت میں گذرگیاہو کہ اس کی مقدار نصاب سے کم نہ ہوئی ہو۔ اس سب شرائط کے پائے جانے کے بعد ہی زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو پچاس فیصدی یا اس سے زیادہ بھی زکوٰۃ فرص کرسکتا تھا اور مال آتے ہی وجوب کا حکم دیاجاسکتا تھا۔ مگر یہ بھی اس کا محض فضل وانعام ہے کہ اس نے تمام ممکنہ سہولتوں کے ساتھ صرف ۴۰ روپیہ میں ایک روپیہ زکوٰۃ کے طور پر فرض فرمایا ہے۔ اس انعام کے باوجود بھی کوئی شخص زکوٰۃ نکالنے میں کوتاہی کرے تو اس سے بڑا نعمت خداوندی کا ناشکرا کوئی نہیں ہوسکتا۔
نقد فائدہ بھی ہے:اور یہ بھی دیکھئے کہ عام طور پرشرعی عبادات کے ثواب اور نتیجہ کا وعدہ آخرت کی زندگی میں کیاگیا ہے۔ مثلاً نماز سے جنت میں فلاں نعمت ملے گی، روزہ داروں کو فلاں ثواب کا مستحق بنایاجائے گا وغیرہ وغیرہ۔ مگر زکوٰۃ اور صدقات کے لئے جہاں آخرت میں عظیم الشان اجروثواب کا ذکر ہے وہیں دنیوی نقد فائدہ کو بھی بیان فرمایاگیا ہے۔ اور یہ فائدہ اتنا عظیم ہے کہ دنیا کی کسی دولت سے اس کی قیمت نہیں لگائی جاسکتی او راس فائدہ کے حصول کے لئے انسان بڑی سے بڑی قربانی دینے اور مالی نقصان برداشت کرنے کے لئے آمادہ ہوجاتا ہے۔ وہ فائدہ یہ ہے کہ زکوٰۃ اور صدقہ ادا کرنے سے بلائیں اور مصیبتیں ٹلا دی جاتی ہیں۔ حدیث میں ارشا نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ بادروا بالصدقۃ فان البلاء لا یتخطاہا (مظاہر حق ۲/۱۳۱، مشکوٰۃ شریف ۱۶۷)’’صدقہ دینے میں جلدی کرو اس لئے کہ مصیبت صدقہ سے آگے نہیں بڑھتی‘‘۔
یعنی اللہ تعالیٰ صدقہ کی وجہ سے مصیبت کو دفع فرمادیتا ہے اور ایک دوسری حدیث شریف میں وارد ہے۔
ان الصدقۃ لتطفئی غضب الرب وتدفع منیۃ السوء (مظاہر حق ۲/۱۳۶، مشکوٰۃ شریف ۱۶۸)
’’بیشک صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کردیتا ہے او ربُری موت سے بچاتا ہے‘‘۔ یعنی سخت بیماری اور سنگین حالات سے بچانے میں مفید ہے۔
علاوہ ازیں صدقہ اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا ایک اثر یہ ہے کہ اس سے مال میں کمی نہیں آتی بلکہ برکت کے اعتبار سے زیادتی ہی ہوتی ہے۔ (مظاہر حق ۲/۱۳۲)
آخرت کا نفع ہی نفع: یہ تو دنیا کا فائدہ ہے، مگر زکوٰۃ وصدقہ کے اخروی منافع بھی شمار ہیں اور اصل میں یہی منافع ہمارے پیشِ نظر رہنے چاہئیں یہاں اخروی منافع کا خلاصہ لکھاجاتا ہے۔
۱۔ ایک روپیہ کے بدلہ میں سات سوگنا اجر مقرر ہے اور اخلاص وغیرہ کی وجہ سے اس میں زیادتی کا بھی وعدہ ہے۔ (سورئہ بقرہ آیت ۳۶۱)
۲۔ زکوٰۃ صدقہ میں خرچ گویا کہ اللہ کے ساتھ تجارت کرنا ہے جس میں کسی نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ (فاطر آیت۲۹)
۳۔ صدقہ قیامت کے دن ہمارے لئے حجت بنے گا۔ (مسلم شریف ۱/۱۱۸)
۴۔ زکوٰۃ وصدقہ کے (معمولی حصہ) ایک کھجور کو اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور اس کی اسی طرح پرورش فرماتاہے جیسے انسان اپنے اونٹنی کے بچے کی پرورش کرتا ہے تا آنکہ وہ چھوٹی سی کھجور اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑے پہاڑ کے برابر تک پہنچ جاتی ہے۔ (مسلم شریف ۱/۳۲۶)
۵۔ جو شخص زکوٰۃ وصدقہ ادا کرنے والا ہوگا اس کو جنت کے خاص دروازہ باب الصدقہ سے داخل کیاجائے گا۔ (مظاہر حق ۲/۱۲۲)
۶۔ سات قسم کے حضرات میدان محشر میں عرش خداوندی کے سایے میں ہوںگے۔ انہی میں سے ایک وہ شخص ہوگا جو اللہ کی راہ میں خفیہ خرچ کرتاہوگا، اس طرح کہ داہنے ہاتھ سے دے تو بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔ (مسلم شریف ۱/۱۴۳)
۷۔ یہ صدقہ قیامت کے دن ہمارے لئے سائبان ہوگا۔ (مظاہر حق ۲/۱۴۳)
الغرض یہ چند اشارات ہیں جن سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ زکوٰۃ وصدقہ ہمارے لئے کتنی بڑی رحمت کی چیز ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے نصاب کامالک بنارکھا ہے اس کے ساتھ کتنے فضل عظیم کا معاملہ فرمایا ہے؟ اس کے باوجود بھی اگر ہم زکوٰۃ ادا کرتے وقت اور صدقہ دیتے وقت اپنے دل میں تنگی محسوس کریں اور اسے جبری ٹیکس تصور کریں تو اس سے بڑی کسی حماقت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری اولین کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اگر ہم زکوٰۃ ادا کرنے کے اہل ہیں تو پہلی فرصت میں اپنے فریضہ سے سبکدوش ہوجائیں اور اس فرض کی انجام دہی میں قطعاً تغافل او رٹال مٹول سے کام نہ لیں۔ خاص کر ماہ مبارک میں فریضہ کی ادائیگی کا ثواب ستّر گنا بڑھ جاتا ہے لہٰذا اس موقع سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے۔
تحقیر نہ کریں: زکوٰۃ کو صحیح مصرف پر خرچ کرنا نہایت ضروری ہے۔ تاکہ نظام زکوٰۃ کا پورا فائدہ سامنے آسکے۔ اور ساتھ میں ان شرائط کا لحاظ بھی لازم ہے جن کا ذکر فقہ کی کتابوں میں کیا گیا ہے۔ اس لئے زکوٰۃ ادا کرنے والے صاحبان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تحقیق کریں کہ جس ادارے یا جس جماعت کو زکوٰۃ دی جاتی ہے کیا وہ ادارہ او رجماعت شریعت کے اصول کے مطابق زکوٰۃ اپنے مصارف میں صرف کرتی ہے یا نہیں؟ اگر کرتی ہوتو شوق سے زکوٰۃ دی جائے ورنہ منع کردیاجائے۔ لیکن اس تحقیق میں اتنی شدت نہ ہو کہ ہم ہر چندہ کے لئے آنے والے شخص کو شک کی نگاہوں سے دیکھیں اور اس کے ساتھ حقارت کا معاملہ کریں۔ اس لئے کہ دینی مدارس کے چندہ کے لئے آنے والے حضرات کا اس زمانہ میں صاحب نصاب لوگوں پر بڑا احسان ہے کہ وہ گھر بیٹھے آکر ان کی زکوٰۃ لے جاتے ہیں۔ ورنہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جب مالدار زکوٰۃ لے کر نکلیں گے اور کوئی شخص اسے قبول کرنے پر تیار نہ ہوگا۔ (مسلم شریف ۱/۳۲۶) ان حضرات کی تحقیر اللہ کی نظر میں کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان کا تعلق علم دین سے ہے۔ اسی نسبت سے ان کی قدر کرنی چاہئے۔ اس سلسلہ میں مالدار حضرات سے چند گزارشات پیش ہیں۔
۱۔ مدارس یا دینی خیراتی ادارے کا کوئی فرد اگر چندہ لینے آئے تو چندہ دے کر اس پر احسان نہ رکھیں بلکہ اس کے احسان مند ہوں کہ اس نے ہمیں ایک دینی کام میں اعانت کا موقع دیا اس سے ثواب میں انشاء اللہ زیادتی ہوگی۔
۲۔ جس کو جو کچھ بھی دینا ہے، پہلی مرتبہ ہی دے دیاجائے باربار چکّر نہ کٹوائے جائیں اس لئے کہ ایسے سفرا کو کئی علاقوں میں کام کرنا ہوتا ہے، معطی حضرات کی ٹال مٹول سے سارا پروگرام درہم برہم ہوجاتا ہے۔
۳۔ جس شخص کو دینے کا ارادہ نہ ہو اس سے نرمی سے منع کردیا جائے سختی سے دھتکارانہ جائے۔
لینے والے بھی خوف کریں: زکوٰۃ کی رقم وصول کرنا بھی بڑی ذمہ داری کا کام ہے جب تک زکوٰۃ کا مال اپنے مصرف میں خرچ نہ ہوجائے، لینے والے کا ذمہ بری نہیں ہوسکتا، اس لئے مدارس کے ذمہ دار اور خیراتی اداروں کے سربراہوں کو بھی نہایت حزم واحتیاط لازم ہے۔ انہیں بہرحال آخرت کی جوابدہی پر نظر رکھنی چاہئے اور زکوٰۃ کا پائی پیسہ مصرف میں ہی لگانا چاہئے۔ خواہ مخواہ او ربلا ضرورت تملیک کرکے شک وشبہ کی راہ نہ نکالنی چاہئے۔ قوم کے لوگ اگر آپ پر اعتماد کرکے اپنی زکوٰۃ کا امین آپ کو بناتے ہیں تو آپ کو اس امانت کا پورا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے ورنہ دنیا کی ذلت اور آخرت کی رسوائی سے بھی آپ نہیں بچ سکتے۔ اللہم وفقنا لما تحبہ وترضاہ۔ (ندائے شاہی، فروری ۱۹۹۵ء)
جب بھی کوئی کسی فضیلت والے وقت میں کیا جائے وہ افضل ہوگا اور اس میں تو کوئی شک وشبہ نہیں کہ رمضان المبارک کے آخری دس راتیں باقی سب راتوں سے افضل ہے کیونکہ اس میں لیلۃ ا لقدر بھی ہے جو ایک ہزار راتوں سے بہتر اور افضل ہے بہرحال مسلمانوں کے لئے مسروع ہے کہ وہ پورے رمضان المبارک میں ہی صدقہ وخیرات کثرت سے کریں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی رمضان المبارک میں سب سے زیادہ جود وسخاوت کرتے تھے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۶)
انسان کی انسانیت کا سارا دارومدار عبادت اور بندگی پر ہے جو شخص جذبہ عبادت سے خالی ہے وہ انسانیت سے عاری ہے اور جو شخص جذبہ عبادت سے جس قدر بھرپور ہے اسی قدر انسانیت سے معمور ہے اور کمالات انسانی سے آراستہ ہے اور یہی عبادت وبندگی انسان کی تخلیق کا مقصود ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے وما خلقۃ الجنہ والانس الا لیعبدون نہیں پیدا میں نے جنات اور انسانوں کو مگر اس لئے کہ بندگی کریں۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.