حضرت علی کرم اللہ وجہہ اخلاق پیمبرکےوارث وامین تھے

ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی
اللہ کے شیر ،ابوتراب حضرت علی کرم اللہ وجہہ(۵۹۹-۶۶۱ء) صغر سنی میں ایمان لائے اور اُسی وقت سے حیات نبوی کی عملی تفسیر اور قولی تعبیر کی اعلیٰ مثال کے طورپر دنیائے انسانی کے سامنے جلوہ بار ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری میں ہی آپ کی شان عظمت کی گواہی دی اورمختلف مواقع پر مختلف اقوال کے ذریعے اس پر مہر بھی ثبت کردی کہ کسی کوذرہ برابر بھی کوئی شک باقی نہ رہے۔ مثال کے طورپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔ یعنی میںجس کا مددگار وخیرخواہ ہوں علی بھی اُس کا مددگارو خیرخواہ ہے اور اگراِس کے معنی میں کچھ وسعت دی جائے تو بجاطورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ علی جس کامددگار وخیرخواہ نہیں میں بھی اُس کا مددگار وخیر خواہ نہیں۔لہٰذا جولوگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اپنے دل میںکچھ بال رکھتے ہیں وہ ذرا اِس معنی پر بھی غور کرلیں۔
ایک مقام پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُہَا۔یعنی میں علم و ادب کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے۔ اس سے یہ بالکل صاف ہوجاتا ہےکہ اگر کوئی لاکھ سرورکائنات سے محبت کرلے اور مولائے کائنات سے نہ رکھے تو بلاشبہ وہ حب نبوی کے دعوی میں جھوٹا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی علامۃ الدہر ہوجائے لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جاہ و عظمت کو نہ جانے اور اُس کی معرفت نہ رکھے تو گویا وہ بھی ابوجہل سے کم نہیںہے۔لہٰذا تمام علمائے زمانہ اِس پہلو پر بھی سنجیدگی سے غور کرلیں۔
سردست ہم مولائے کائنات کرم اللہ وجہہ کے اخلاق وکردار کے حوالے سے کچھ گفتگو کریں گے، مثلاً:
۱۔مسلمان کا احترام:جس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے زمام خلافت سنبھالی وہ انتہائی خلفشاری اور بے چینی کا عہد تھا، مگر آپ نے بڑی پامردی اور دوراندیشی سے کام لیااور کسی بھی طرح کی افراتفری کو پنپنے نہیں دیا۔دوسری طرف مسلمانوں کے درمیان باہمی احترام کے جذبے کو بہرحال فروغ دیاتاکہ مسلمانوں کے درمیان خون ریزی نہ ہو، اور جان ومال کی تباہی وبربادی نہ ہونے پائے۔چنانچہ قوم کے نام اپنے اولین خطاب میںآپ نےفرمایا:
اللہ کاکلام ہادی ہے اور خیر و شر کے درمیان واضح فرق کی نشاندہی کرتاہے، لہٰذا خیر کو اختیار کرو اور شر سے بچو۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزوں کو محترم بنایاہے، ان میں سب سے بلند وبرتر اور محترم ذات ایک مسلمان کی ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام مسلمان محفوظ رہیں۔کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو تکلیف پہنچائے۔ عوام و خواص دونوں کے حقوق ادا کرنے میں جلدی کرو۔اللہ کے بندوں اور اُن کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں اللہ رب العزت سے خوف کھاتےرہو۔تم سے چوپائے اور زمین کے بارے میں بھی پوچھا جائےگا،اس لیے اللہ کی اطاعت کرو اور اُس کی نافرمانی سے بچو، اگر خیر کا عمل دیکھو تواُس کو اختیار کرو اور اگر بُرا عمل دیکھو تواُس کو ترک کردو۔
۲۔دنیا سے بے رغبتی:دنیا سے بےرغبتی کی باتیں کی جائیں توحضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حیات کا یہ پہلو بھی اِنتہائی قابل رشک ہےکہ آپ دنیاسے بےرغبتی اور خشیت الٰہی اور خوف ربانی کا مجموعہ تھے۔بقول زید بن وہب: آپ اس قدر سادگی پسندتھے کہ آپ کی سادگی پرہر کسی کو تعجب ہوتا تھا۔ وہ بیان کرتے ہیںکہ ایک بار آپ اپنے گھر سے نکلے توجسم پرایک ایساتہہ بندتھا جو انتہائی بوسیدہ تھا اورآپ کا کمربندکپڑے کاایک چیتھڑا تھا، اس سلسلے میںآپ سے کہا گیاکہ آپ اس لباس میں کس طرح رہتے ہیں،اس پرآپ نے فرمایاکہ میںیہ لباس اس لیے پسند کرتاہوں کہ یہ نمائش اور نام و نمودسے بہت دور ہے، نماز میں آرام دہ ہے اور مومن کی سنت ہے۔
لیکن ہمارا کیا حال ہے یہ ہم سب پربخوبی عیاں ہے؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے دنیاکے تمام عیش و آرام چھوڑدیے اور آج ہم ہیں کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اللہ کی رضا و خوشنودی کو کسی خاطر میں نہیں لاتے ، پھر بھی اِس اُمید میں رہتے ہیں کہ اللہ کی رحمت ہمیں کو ملے’’وائے ناکامی کہ احساس زیاں جاتا ہے‘‘۔
۳۔معاشرتی حقوق اور دارۂ کار:جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ نرمی و شفقت کا معاملہ رکھتےتھےکہ اُن سے مزاح بھی کرتےاور اُن کی دل جوئی بھی فرماتےتھےبعینہ یہی حال اور طرز عمل حضرت علی کرم اللہ وجہہ کابھی تھا،اورآپ ایسے اشخاص کو پسند بھی کرتے تھےجو بچوں کے ساتھ ہمدردی ودل لگی اوردل جوئی کا معاملہ رکھے۔ بچوںکے سامنے بالخصوص ایسی گفتگو اورایساہی عمل انجام دیتےکہ جس کا بہتر سے بہتراَثر بچوں کی ذات پر پڑے۔ اپنے ایک خطاب میںفرماتے ہیں:باپ کا بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر حق ہے۔ باپ کا حق یہ ہے کہ بیٹا ہر حال میں اس کی اطاعت و تابعداری کرے، البتہ! باپ اگرکسی معصیت وگناہ کےکرنے کا حکم دےتو اُس میں اس کی تابعداری نہ کی جائے، اور باپ پر بیٹے کا یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، اچھی تربیت کرے اور قرآن کی تعلیم دلائے۔
معلوم ہواکہ ایک کامیاب معاشرے کے لیے بڑے اور چھوٹے کا ادب و احترام اور شفقت و ہمدردی انتہائی ضروری ہے۔یعنی ایک باپ کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور شفقت و ہمدردی سے پیش آئے۔ان کو اچھی سے اچھی تعلیم دےاوراُن کی عمدہ سے عمدہ تربیت کرے ،بیہودہ باتوں سے بچائے۔دوسری طرف بچوںپر بھی لازم ہے کہ وہ بڑوںکاادب واحترام کریں، اور یہ تمام اخلاقی خوبیاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اندر بخوبی موجود تھیں۔لیکن آج جو صورت حال ہےوہ انتہائی افسوسناک ہےاور اس کی اصل یہ وجہ ہے کہ آج ہم نےبچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا کم کردیا ہےاور اگر دیتے بھی ہیں تو محض مغربی طرز تعلیم کوکافی سمجھ لیتےہیںاور ہدایت والی کتاب قرآن مقدس کویکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔
۴۔ عدالت کا سامنا:جنگ جمل میںحضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زرہ کھوگئی جو ایک یہودی شخص کے ہاتھ لگی۔ معاملہ جناب قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا۔آپ ایک مدعی کی حیثیت جج کے سامنےپیش ہوئےاور اپنا مقدمہ رکھا ۔جج نے آپ سے گواہ کا مطالبہ کیا۔آپ نے اپنےبیٹےحسن اوراپنے غلام قنبر کوبطور گواہ پیش کیالیکن موجودہ جج قاضی شریح نے یہ کہتے ہوئے آپ کےدونوں گواہوں کورد کردیا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی مالک کے حق میں قبول نہیں، اور فیصلہ یہودی شخص کے حق میں دےدیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جانب سے اسلامی تعلیمات و اخلاقیات کے باب میں ایک شاہکارتاریخی عمل کا اضافہ ہے کہ آپ خلیفہ راشد ہوتے ہوئےخود جج کے پاس تشریف لے گئے اور اُن کے فیصلے پر بےچوںچرا عمل کیا ۔یہ موجودہ عہد میں بالخصوص تمام مسلمانوں کے لیےتازیانہ عبرت ہے۔
بیت المال کی اَمانت کا خیال:حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے عہدِخلافت میں جس فاضلانہ اخلاق وکردار کا مظاہرہ کیاوہ آبِ زر سے لکھے جانے قابل ہے اوربہرحال ایک مردمومن کے لیے سامانِ نجات ہے۔تاریخ کے اوراق بتاتےہیں کہ جب تک آپ تخت خلیفہ پرمتمکن رہے بیت المال کاایک دانہ بھی اپنے ذاتی مصرف پر خرچ نہیں کیا، بلکہ ملنے والےذاتی تحفے تحائف کو بھی رعایا کی امانت سمجھااور اُسےبیت المال میں جمع کروادیا۔اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں:اےلوگو، اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! میںنے تمہارے مال سے نہ تھوڑا لیا اورنہ زیادہ سوائے اِس چیز کے، اور جیب سے ایک چھوٹی سی شیشی نکالی جس میں ایک قسم کی خوشبو تھی۔پھرآپ نے فرمایا کہ یہ خوشبو کی شیشی مجھے ایک دیہاتی نےبطور تحفہ پیش کی ہے۔اس کے بعد آپ بیت المال گئے اورخزانچی سے فرمایاکہ یہ لو،اورتحفے میں ملنے والی خوشبو کی شیشی بھی بیت المال میں جمع کروادی۔
بیت المال کے امانت کی اِس قدر حفاظت کہ اِس طرح کی نظیرشاید ہی کہیںمل سکے۔لیکن آج مسلمانوں کا معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ جہاں کہیں اعلیٰ مناصب ملے نہیں کہ اللہ کا خوف دل سے یکسرنکل جاتاہےاور پھرایسے ایسے اخلاقی جرائم کے مرتکب ہوتے ہیںکہ اللہ کی پناہ!۔ ایسے افراد کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کایہ مثالی عمل بطور خاص نمونہ ہے۔
۵۔قاتل کے ساتھ مثالی سلوک:حضرت علی کرم اللہ وجہہ اخلاق و کردار کے عرش پر متمکن تھےکہ جان جارہی تھی لیکن ایسے عالم میں بھی اپنی پیاس پراپنے قاتل کی پیاس کو ترجیح دی ۔یعنی اِبن ملجم جس نےآپ پرمسموم تلوارسے ایسی کاری ضرب لگائی کہ اُسی کے سبب آپ کی موت واقع ہوگئی۔لیکن جب ملجم گرفتارہوا، اور پیش کیا گیا تواُس کی شکل دیکھتے ہی آپ نےیہ حکم دیا کہ پہلے اِس کی پیاس بجھائی جائے۔
‘‘ پہلے اِس کی پیاس بجھائی جائے‘‘ایسا معنی خیزجملہ کس کی زبان سے نکل سکتا ہے ؟یہ وہی مثالی فردکہہ سکتا ہے جو صفات الٰہی کا مظہرہوگا اور جس کے اندر سیرت نبوی کی جلوہ گری ہوگی۔بلکہ واضح لفظوں میں کہا جائے تو اِس قدر عالی ظرفی کا مظاہرہ وہی کرسکتا ہے جوآسمانِ اخلاق و کردارپرمثل آفتاب وماہتاب چمکتا ہوگا۔مزید اپنے قاتل ابن ملجم کے تعلق سے آپ نے اپنے بیٹوں سےیہ وصیت بھی فرمائی کہ اے فرزندو! مسلمانوں کا خون نہ بہانا، تم کہوگے کہ امیرالمومنین قتل کردیے گئے، مگر خبردار! سوائے میرے قاتل کے کسی دوسرےکو سزا نہ دینا، دیکھو اگر میں اس وار سے فوت ہوجاتاہوں تواُس پر بھی ایک ہی وار کرنا، اس کا چہرہ نہ بگاڑنا، کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ خبردار! کسی جاندارکومُثلہ نہ کیا جائے خواہ وہ کاٹنے والا کتا ہی کیوں نہ ہو۔بلکہ آپ نےاس بات پر زور دیا کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے، اگر زندہ رہاتو سوچوں گا، معاف کروں یا قصاص لوں اور اگر مرجاؤں تو ایک جان کا بدلہ ایک ہی جان لیاجائے۔
غرضکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فاضلانہ اخلاق و کردار اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے، اگر واقعی ہمیں اُن سے سچی عقیدت اور محبت ہے تو ہمارے اوپر لازم ہے کہ آپ جس مشن کے بہی خواہ رہے اور جس مشن کی تکمیل میں آپ نے جان تک قربان کردی ، ہم بھی آپ کے مشن کو زندہ رکھیں ،اس کو فروغ دیں اور اِس کےساتھ آپ کے فاضلانہ اخلاق کے نور سےاپنے اعمال و کردار کو منوربھی بنائے رکھیں ۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.