لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

(راہل گاندھی کو اپنی اس بات پرپختہ یقین ہونا چاہیے کہ پیار نہیں ہارتا )
ثناءاللہ صادق تیمی
لوک سبھا کے حالیہ الیکشن میں کانگریس پارٹی کو بھاری شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے ، کانگریس کے صدر راہل گاندھی خود امیٹھی کی اپنی سیٹ بھی بچانے میں ناکام رہے ہیں ، الیکشن شروع ہونے سے قبل جس قسم کی توقع تھی اس کے حساب سے کچھ بھی مثبت کانگریس کے حصے میں نہیں آیا ۔ اس قسم کی کراری ہار کے بعد مختلف قسم کی باتوں کا سامنے آنا بہت زیادہ تعجب انگيز نہیں ۔ جیت ہوتی ہے تو ساری کمیاں چھپ جاتی ہیں اور جب ہار ہوتی ہے تو ساری خوبیاں چھپ جاتی ہیں ۔ الیکشن کے نتیجے کے آنے کے بعد راہل گاندھی نے جس حوصلے اور مثبت سیاسی بالغ نظری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم اور بے جی پی کو مبارکباد دی وہ قابل ستایش بات ہے ۔ ہار کے بعد انہوں نے اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے جس طرح اپنا استعفی پیش کیا وہ بھی ایک اچھی بات ہی کہی جائے گی ، یہ الگ بات ہے کہ نہ تو پارٹی نے اسے قبول کیا اور نہ اس صورت حال میں پارٹی کو ان کا استعفی قبول کرنا چاہیے ۔
پچھلے دو تین مہینوں پر نظر رکھیے تو راہل گاندھی کو بحیثيت ایک پارٹی کے لیڈر کے جتنی محنت کرنی چاہیے ، انہوں نے کی ۔ لگاتار انہوں نے وہ ایشوز اٹھائے جو اٹھانے چاہیے تھے ، انہوں نے نوکری کی بات کی ، رفائیل کی بات کی ، آئیڈیالوجی کی بات کی ، اپنے منصوبے لوگوں کے سامنے پیش کیے ، بڑی حد تک انہوں نے کوئی بھی غلط رویہ نہیں اپنایا ، اچھی سیاسی زبان کا استعمال کیا لیکن ان تمام کے باوجود یہ سچ ہے کہ وہ ہار سے دوچار ہوئے اور کانگریس کی ڈوبتی کشتی کو ساحل تک لے جانے میں ناکام رہے ۔
جہاں تک مختلف علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کی بات ہے تو اس سلسلے میں ان سے ضرور غلطیاں ہوئیں ، خاص طور سے یوپی کے سلسلے میں ان کی اور ان کی پارٹی کی قیاس آرائیاں مکمل غلط ثابت ہوئیں لیکن دہلی میں کجریوال کا رویہ بھی مثبت نہیں رہا ، ایک بڑی پارٹی کے ناتے عام طور سے سارا قصور راہل گاندھی کے سر انڈیلا جانا آسان ہے لیکن یہ انصاف کے اتنا قریب بھی نہیں ہے ۔
نتائج آنے کے بعد ایک بات تو ہم بہت اعتماد سے کہ سکتے ہیں کہ اس مرتبہ ووٹروں کی اکثریت نے ایشوز کی بنیاد پر ووٹ نہیں کیا ، ملک کی اکثریت کو روزگار ، ترقی اور سماجی یک جہتی سے مطلب نہیں ، وہ نام نہاد ہندو فخرو مباہات کے لیے ووٹ کررہے تھے ، ایسے میں کوئی بھی لیڈر شکست سے دوچار ہوسکتا ہے ۔ بہار میں اگر آر جے ڈی زیرو اسکور کرتی ہے ، یوپی میں اگر اکھیلیش اور مایاوتی ساتھ مل کر بھی کچھ نہیں کرپاتے اور بنگال میں دایاں محاذ بھی بی جے پی کو ووٹ کرتا ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صورت حال کیا رہی ہے ۔ آرایس ایس کا ڈو ٹو ڈور پرچار کتنا کامیاب رہا ہے ۔
لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جس آئڈیالوجی نے ملک کو لگ بھگ ستر سالوں تک چلایا ہے اسے اتنی جلد ہار نہیں مان لینی چاہیے ۔ ملکوں کی تاریخ میں ایسے واقعات و حادثات ہوتے رہتے ہیں ۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ کانگریس کے بڑے بڑے لیڈران بھی بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں ۔ یہیں سے آرگنائزیشنل بیس پر توجہ دینے کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے ، اگر آرایس ایس اتنے دنوں تک ستا سے دور رہ کر بھی آگے بڑھنے کا سفر جاری رکھ سکتی ہے تو کانگریس آخر اتنی جلد کیوں احساس شکست کے اندھیارے میں کھوجانا چاہ رہی ہے ، اگر واقعی آپ کا نظریہ مکمل دیش واسیوں کو ساتھ لے کرچلنے کا تھا ، کانگریس کا ہاتھ سب کے لیے تھا ، دیش کی ترقی اور اس کی بہتری ہی آپ کی آئڈیالوجی رہی ہے اور دیش کا آئین ہی آپ کا رہنما رہا ہے تو آپ کو احساس شکست سے نکلنا چاہیے ۔ تنظیمی سطح پر زندگی کا ثبوت دینا چاہیے ، آنے والے پانچ سالوں میں ایک ایک دروازے تک پہنچ کر اپنے نظریے کی افادیت سمجھانی چاہیے لیکن اگر خود آپ بھی نرم ہندوتوا کے ہی علمبردار ہیں یا رہے ہیں تو پھر بہتر ہے کہ آپ کا جنازہ پڑھ دیا جائے ، یوں بھی سیاسی لوگ حالات کے مطابق راستے طے کرتے ہیں ، آپ کے لوگوں کی اکثریت آہستہ آہستہ بی جے پی میں ضم ہوجائے گی اور یوں ان کا اپنا کلیان تو ہوہی جائے گا لیکن اگر ملک کو آزادی دلانے والی جماعت کی آئڈیالوجی وہی ہے جو نہرو کی تھی تو ہمت رکھیے ، راہل گاندھی نے کہا بھی ہے کہ پیار کبھی نہیں ہارتا ، یقین جانیے پیار نہیں ہارتا ، آپ اپنے نظریے کے تئیں ایماندار ہوجائيے آپ کا نظریہ جیت جائے گا ۔
سمجھنے والی بات یہ بھی ہے کہ صرف آپ کے لیے یا آپ کی پارٹی کے لیے ہی یہ نظریہ اہم نہیں ، پورے ملک کی سالمیت اور ارتقا کے لیے یہ نظریہ ضروری ہے ورنہ جس طرح سے غنڈے ننگا ناچ ناچ رہے ہیں ، لوگوں سے زبردستی جے شری رام کا نعرہ لگوایا جارہا ہے ، بھیڑ اقلیتوں کو مسلمان ہونے کی بنا پر مار رہی ہے ، بڑے بڑے معروف ڈاکٹروں کو زدو کوب کیا جارہا ہے ، دلتوں کو اس لیے مارا جارہا ہے کہ اس نے بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں کیا اور شعوروفکر کے دوسرے دھاروں کو بزور طاقت کچلنے کی کوشش ہورہی ہے اس سے یہ ضرور ہوگا کہ ملک کا ڈھانچہ بدل جائے گا ، تعمیر و ترقی کے راستے رک جائیں گے ، فکرونظر کی وسعت پر مسموم مذہبی تعصب کے اژدہے پھن پھیلا کر بیٹھ جائیں گے اور یوں ملک نہ معلوم کس اندھیرے میں چلا جائے گا ۔ نفرت و تشدد کی یہ آندھی کسی ایک مذہبی گروہ کو نہیں ، آہستہ آہستہ سب کو لے ڈوبے گی ۔
Comments are closed.