قضاء عمری شیطانی دھوکہ ہے!!!

از قلم : آصف اقبال انصاری، کراچی

اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں ایک اہم رکن "نماز” ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نماز دین کا ستون ہے”۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: "نماز "بندے اور رب کی ملاقات کا ایک ذریعہ ہے”۔ قرآن مجید میں جا بجا مومنین کو آگاہ کرتے ہوئے نماز کے قیام کی ترغیب دی ہے۔
سن بلوغت تک پہنچنے کے بعد انسان شرعاً تمام عبادات کا مکلف ہو جاتا ہے۔ اب اس پر لازم ہے کہ تمام عبادات بالخصوص فرائض کی مکمل پابندی کرے اور زمانہ حیات میں فرائض ذمہ سے اسی وقت ساقط ہوتے ہیں جب اس کی ادائیگی ہو جائے۔
ہر سال ماہ رمضان میں آخری جمعہ(جس کو "جمعۃ الوداع "کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ) کے قریب سوشل میڈیا پر ایک پیغام مسلسل گردش کرتا رہتا ہے کہ ” رمضان کے آخری جمعہ میں مخصوص طریقے پر ، مخصوص تعداد میں ، اتنی رکعتیں پڑھ لی جائیں ،تو زندگی بھر کی تمام قضاء نمازوں کے لیے کافی ہے” یاد رکھیں ! ایسی نہ تو کوئی حدیث ہے اور نہ کوئی شرعی حکم، بلکہ سراسر ایک دھوکا ہے ، جو کہ تساھل اور غفلت پر مبنی ہے۔ قطع نظر اس دھوکہ کہ، اگر احادیث مبارکہ کا مطالعہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگی کہ جتنی نمازیں ذمہ میں باقی ہیں، ان کی ادائیگی لازمی ہے، محض توبہ و استغفار اور قضاء عمری کے نام سے موسوم اس شیطانی دھوکہ سے یہ نمازیں معاف نہیں ہوں گی۔اور خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ جب غزوہِ خندق کے موقع پر آپ کی کئی نمازیں قضاء ہوگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قضاء فرمائی۔
جہاں تک فرامین مبارکہ کا تعلق ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کوئی نماز پڑھنا بھول جائے،تو اس پر لازم ہے کہ جب بھی اس یاد آئے تو وہ پڑھے، اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں”۔( بخاری،کتاب المواقیت)
اس طرح ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص نماز سے سوجائے یا غفلت کی وجہ سے چھوڑ دے، تو جب بھی اسے یاد آئے وہ نماز پڑھے۔کیوں کی اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” اقم الصلٰوۃ لذکری”۔(صحیح مسلم، کتاب المساجد)
نماز ہر عاقل ، بالغ مسلمان پر فرض عین ہے۔جس کی ادائیگی بہر صورت لازم ہے۔ اس فریضے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کل بروز قیامت عبادات میں سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ ” نماز” ہوگی۔اور رہی بات توبہ و استغفار سے معافی کی، تو یاد رہے! توبہ کی قبولیت کے شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ جس چیز کی تلافی جس قدر ممکن ہو وہ کی جائے، محض ہاتھ میں ہاتھ دھرے بیٹھے توبہ کی قبولیت کی امید لگانا ایک خواب و خیال ہے۔
اس لیے ایسے شیطانی دھوکے میں آکر اپنی آخرت کی سودے بازی سے بچیں، نمازیں کم ہوں یا زیادہ بہر حال ان کی قضاء کا اہتمام کریں۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.