Baseerat Online News Portal

تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

جب انسان پر کوئی مصیبت اور آزمائش آئے تو ہمارا کیا رویہ ہونا چاہئے ؟ اس سلسلہ میں قرآن مجید نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ادْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ ۔ ( المومنون : ۹۶)
بری بات کے جواب میںبہتر طریقہ اختیار کرو ۔
اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقع پر اس جانب بھی متوجہ فرمایا ہے کہ یہ بہتر طریقۂ جواب (دفاع بالاحسن ) دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرتا ہے ، یہ صبر آزما ہے ؛ لیکن کامیابی کی کلید ہے :
وَلَا تَسْتَوِیْ الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْنَـکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ، وَمَا یُلَقَّاھَا إِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقَّاھَا إِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ۔ ( المومن : ۳۴،۳۵)
نیکی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی ، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو ، ممکن ہے کہ تمہارے اور جس شخص کے درمیان عداوت ہے ، وہی دلی دوست ہو جائے اور یہ بات ان ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو قوتِ برداشت رکھتے ہوں اور یہ بات اسے حاصل ہوتی ہے جو بڑے نصیب والا ہے ۔
یہ’’ بہتر بات‘‘ کیا ہے ؟ قرآن ہی نے اس کو ان آیات سے پہلی آیت میں بیان فرمایا ہے :
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَی اﷲِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ (المومن: ۳۲)
اس سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو خدا کی طرف بلائے ، خود بھی نیک عمل کرے اور کہے : میں فرماں برداروں میں سے ہوں ؟
یعنی بہتر بات سے ’’ دعوت الی اللہ ‘‘ مراد ہے ، دعوت دشمن کو دو ست بناتی ہے ، دعوتِ حق کی علمبردار قوم کو نصیب ور بناتی ہے ؛ البتہ اس کے لئے صبر ، قوتِ برداشت اور حسن تدبیر کی ضرورت ہے ، صبر کے معنی صرف چوٹ کھا کر خاموش رہنے کے نہیں ہیں ؛ بلکہ صبر بڑے مقصد کے لئے مصیبتوں اور آزمائشوں کو سہنے اور حوصلہ شکن حالات میں بے برداشت ہونے کے بجائے حکمت و تدبیر سے کام لینے کے ہیں ۔
اس وقت حالات مسلمانوں کے لئے بہ ظاہر حوصلہ شکن ہیں ، اچھی خبروں کے لئے کان ترستے ہیں ، خوش کن نتائج کو دیکھنے کے لئے آنکھیں سراپا انتظار ہیں ، سکون و طمانینت دینے والی اطلاعات کے لئے قلوب بے چین ہیں ، بہ ظاہر ہر طرف ظلمت کی گھٹائیں اور اندھیرے ہی اندھیرے ہیں ؛ لیکن مومن کاکام یہ ہے کہ وہ ان اندھیروں میں بھی روشنی تلاش کر لے ، نا اُمیدیوں کی گھنگھور گھٹاؤں میں سے بھی اُمید کی کرنیں اسے نظر آئیں اور وہ خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو ، صحابہ کا یہی طریقہ تھا ، وہ ناموافق حالات میں بھی ایسے پہلو تلاش کر لیتے تھے ، جس سے طمانینت ہو اور جس سے ان کا خدا راضی ہو جائے ، لوگ انھیں خوف دلاتے ، کہ پوری دنیا تمہارے مقابلہ پر جمع ہو گئی ہے اور وہ کہتے ہمارے لئے خدا کافی ہے : ’’ حسبنا اﷲ ونعم الوکیل‘‘ ان کے ایمان میں ایسی وحشت انگیز خبروں سے اضافہ ہی ہوجاتا ، لوگ انھیں ان کے رفقاء کی شہادت کا طعنہ دیتے اور وہ اسے اپنے بھائیوں کے لئے انعام تصور کرتے ۔
اس وقت حالات گو بہت بُرے ہیں ؛ لیکن اس میں ایک پہلو خیر کا بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کو سمجھنے اور اسلام کے بارے میں جاننے کاجو رجحان حالیہ زمانہ میں پیدا ہوا ہے ، کم از کم پچھلے ستر سال میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا کی زہر افشانی اور اس کے نتیجہ میں اسلام کو جاننے کی خواہش کو دیکھتے ہوئے سیرت کا وہ واقعہ یاد آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺکی مکی زندگی میں جب حج کا موسم آتا ، یاکوئی بڑا تجارتی میلہ لگتا ، تو آپ کی طرف سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کے لئے اہل مکہ طرح طرح کی باتیں کرتے اور زیادہ تر یہ کہا جاتا کہ آپ جادو گر یا مجنون ہیں ، ( والعیاذ باللہ ) اور ایسا جادو جانتے ہیں ، جس کے ذریعہ والدین اور اولاد اور شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے ہیں ؛ لیکن یہی پروپیگنڈہ آپ کی طرف لوگوں کی توجہ کا باعث بن جاتا ، باہر سے آنے والوں میں ایک کھوج پیدا ہو جاتی کہ آخر یہ کون شخص ہے جس کی مخالفت اس شد و مد کے ساتھ کی جارہی ہے ؟ یہی تجسس لوگوں کو بارگاہ نبوت تک لاتا ، پھر وہ آپ سے متاثر ہو کر اور دامن دل کو ایمان سے بھر کر واپس ہوتے ، یہ آپ کی دعوتی زندگی کا بڑا صبر آزما مرحلہ تھا ، آپ ہر بری بات کا جواب ’’ بہتر بات ‘‘ یعنی سنجیدہ طریقہ پر دعوت الی اللہ سے دیتے ، لوگ گالیاں دیتے اور آپ ان کے لئے ایمان کی دُعاء فرماتے ، لوگ بُرا بھلا کہتے ، اور آپ کی راہوں میں کانٹے بچھاتے اور آپ ان پر میٹھے بول کے پھول برساتے اور کہتے : ’’قولوا لا الہ الا اﷲ تفلحو‘‘ (خدائے حقیقی سے اپنا رشتہ جوڑلو تو تم کامیاب ہوگے ) لوگ آپ کے خلاف زہر افشانی کرتے ؛ لیکن آپ کی زبان مبارک سے کبھی ان کی ذات کے لئے کوئی تلخ کلمہ بھی نہیں نکلتا ، لوگ آپ کی ذات کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے اور آپ شب وروز خدا کی توحید کا اعلان فرماتے ، لوگ نفرتوں کی آگ سلگاتے اور اس کی آنچ کو تیز تر کرنے کی کوشش کرتے اورآپ محبت کی پھوار سے اسے بجھانے کی راہ اختیار کرتے ۔
یہی وہ ’’ طریقہ احسن ‘‘ ہے جس کی قرآن نے دعوت دی ہے اور جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کی توفیق ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر کا پیکر ہوں ، موجودہ حالات میں بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم نفرت کا جواب کلمہ محبت سے دیں ، مشتعل کر دینے والی باتوں کا جواب سنجیدہ ، مدلل اور حقیقت پسندانہ اُسلوب میں دیا کریں ، تو اس طرح ہم اسی شر کو اپنے لئے سر چشمۂ خیر بنا سکتے ہیں ۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ منصوبہ بند پروپیگنڈہ کا جواب منصوبہ بند دعوت سے دیا جائے اور اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم ہر علاقہ اور ہر ملک میں اسلام کا تعارف پیش کریں ، اسلام نے امن و آشتی ، صلح و روا داری اور محبت کا جو پیغام انسانیت کے لئے دیا ہے ، اس پیغام کی خوشبو سے ہم پوری دنیا کی فضاء کو عطر بار بنا دیں اور لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع فراہم کریں کہ اسلام محبت اور انسانی اُخوت کو جلا دینے والی بادسموم نہیں ؛ بلکہ انسانیت کو اُخوت و بھائی چارہ کی خنکی سے ہمکنار کرنے والی باد نسیم ہے۔
ہم اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے قریہ قریہ ، شہر شہر ، محلہ محلہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مشترکہ اجتماعات رکھیں اور قرآن صلح و امن کی جو تعلیم دیتا ہے اس کو خوش اُسلوبی سے پیش کریں ، ان آیات کے ترجموں پر مشتمل ورقئے طبع کرائیں اور اسے برادران وطن تک پہنچائیں ، مقامی زبان کے اخبارات تک ایسے مضامین پہنچانے کی کوشش کریں ، گو اس سلسلہ میں انگریزی اخبارات کا رویہ ایک حد تک غیر حقیقت پسندانہ رہا ہے اور یہ شکایت عام ہے کہ اسلام کے خلاف جو بے سروپا باتیں آتی ہیں ، انھیں تو یہ بڑے اہتمام سے شائع کرتے ہیں اور اس کے جواب میںجو کچھ لکھا جاتا ہے ، اسے بہت کم قابل اعتناء سمجھتے ہیں ؛ لیکن اس میں ہماری کوتاہی کو بھی دخل ہے ، ہم اس بات کی کوئی منظم کوشش نہیں کرتے کہ ایسے مضامین اور مراسلات کا سنجیدہ ، غیر جذباتی اور مدلل جواب دیں اور انگریزی اخبارات کے ذمہ داروں تک پہنچ کر انھیں مسلمانوں کی شکایت کی طرف متوجہ کریں ، ہم اشتعال و احتجاج کے بجائے انھیں قائل کریں ، اس طرح ہم انگریزی اخبارات تک بھی رسائی حاصل کر سکتے ہیں ۔
انٹر نیٹ کے ذریعہ ایک ایسے ذریعہ ابلاغ تک ہمیں رسائی حاصل ہوئی ہے ، جس میں اپنی بات ، اپنی زبان اور اپنے قلم سے پہنچانے کا پورا موقع حاصل ہے ، اس میں ہم نہ کسی سہارے کے محتاج ہیں اور نہ کثیر وسائل کے اور اس وقت یہ سمجھ دار اور با شعور لوگوں تک رسائی کے لئے نہایت وسیع الاثر ذریعہ ہے ، اس کے علاوہ دوسرے ذرائع ابلاغ بھی ہیں ، جن کے ذریعہ ہم لوگوں تک اپنی بات پہنچا سکتے ہیں ، ضرورت ہے کہ ہم ان وسائل و ذرائع سے استفادہ کریں اور جذبات کے بجائے حکمت و تدبیر اور اشتعال کے بجائے صبر و استقامت کی راہ اختیار کریں ، اس طرح ممکن ہے کہ یہی طوفان اُمت ِمسلمہ کو ایک نئے ساحل سے ہمکنار کردے ، بہ قول شاعر اسلام علامہ اقبالؒ :
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

Comments are closed.