منہ میں رام , بغل میں چھُری !!!

احساس نایاب ( شیموگہ, کرناٹک )
ایڈیٹر گوشہ خواتین واطفال بصیرت آن لائن
چھپا کر اپنی کرتوتیں ہنر کی بات کرتے ہیں
شجر کو کاٹنے والے ثمر کی بات کرتے ہیں
جی ہاں گجراتی فرعون دامودر نریندر مودی لوک سبھا انتخابات میں نمایا کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایک بار پھر سے ہندوستان کے وزیرآعظم بن کر تخت نشین ہوگئے ہیں اور حلف لینے سے چند روز قبل سینٹرل ہال میں بی جے پی اور این ڈی اے کے تمام ممبران کی موجودگی میں میڈیا و عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنے خطاب میں ملک کے موجودہ مثائل کے ساتھ ساتھ اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کے کو لے کر ایک بہت بڑا تبصرہ کیا ہے, جس میں مسلمانوں کے تئیس فکر و ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی کئی باتیں کہیں ہیں جن پہ یقین کرپانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ……
دراصل گجرات کے دامودر نریندر مودی جی کو 2019 میں اچانک مسلمانوں کا وشواس جیتنے کی سوجھی ہے ……
اُن کا کہنا ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کو ہمیشہ سے بی جے پی کا ڈر دکھاکر ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا ……
حالانکہ یہ بالکل صحیح بھی ہے کیونکہ
شروع سے ہی کانگریس کا سیاسی ایجنڈہ یہی رہا ہے کہ بی جے پی کا ڈر دکھاکر اپنا الو سیدھا کریں
جس سے کانگریس کو سالوں سال کامیابی بھی حاصل ہوئی اور بی جے پی سے مسلمان اتنے خوفزدہ رہے کہ دھیرے دھیرے زندہ قوم کہلانے والے اسلام کے جنگجو سپاہی بزدل بنتے گئے اور مسلمانوں نے کبھی سیاست کی اور اپنا رُخ بھی نہیں کیا نہ ہی اپنی طاقت خود کے لئے استعمال کی بلکہ ہمیشہ اپنی طاقت کسی کو جتانے یا کسی کو ہرانے کے لئے صرف کرتے رہے کبھی اپنے وجود اپنے مستقبل کو لے کر غور و فکر نہیں کی جسکی وجہ سے مسلمان ستر سالوں تک کانگریس کے ہاتھوں ٹشوپیپر کی مانند ہنسی خوشی استعمال ہوتے پھر ایک مدت تک ڈسٹ بین کی زینت بن جاتے یا سودے کے نام پہ قبرستان کی دیوار کی تعمیر, مزارات پہ چادریں چڑھواتے ہوئے اٹھنی چوننی کے عوض خاموش کروادئے جاتے کبھی قوم کے مستقبل کو لے کر , سیاسی حصہ داری کو لے کر مطالبہ ہی نہیں کیا
خیر جو گذر گیا سو گذر گیا
آج بات متر مودی کی ہورہی ہے تو فی الحال کا حال کچھ نرالا ہے پرانے متر مودی ایک نئے انداز نئی اسکریپٹ نئے ڈائلوگس کے ساتھ پرکٹ (حاضر) ہوئے ہیں
یوں تو اُن کی میٹھی بولی سے ساری دنیا واقف ہے گذشتہ 5 سالہ دور اقتدار میں شاید ہی ایسا کوئی دن یا موقعہ گذرا ہو جس میں انہونے جملے بازی نہ کی ہو
ویسے بھی بدلے ہوئے ہندوستان میں پانچ سالوں سے جملوں کی سیاست , غنڈے , بدمعاشوں کی عدالت تو عروج پر تھی ہی جو 2019 میں انتہا پہ پہنچ چکی ہے دنیا بھر میں شاید یہ واحد ملک ہوگا جہاں منصف ہی قاتل اور اُس کی ٹولی سزا یافتہ مجرم دہشتگرد , غنڈے , ڈاکو اور ریپسٹ ہیں جو آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ہندوستان کا مستقبل طئے کرینگے
ایسے حالات میں سوچنے والی بات یہ ہے کہ عزیز وطن میں سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب پہ وشواس ہو بھی تو کیسے ہو ؟؟؟؟؟؟
یوں تو اتحاد, ساتھ , وکاس, وشواس, ٹرسٹ, اعتماد, بھروسہ, یقین وغیرہ وغیرہ یہ سارے اتنے بھاری بھرکم الفاظ ہیں جس کا بوجھ اٹھا پانا کیا موجودہ سرکار کے بس کی بات ہے ؟؟؟
ہرگز نہیں ……
کیونکہ ماضی کے گذشتہ پانچ سالوں کا گہرائی سے جائزہ لینگے تو سمجھ آئے گا کہ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں پہ یہ مدت بہت گراں گذری ہے اور اس دوران مسلمانوں کے حالات دن بہ دن بد سے بدتر ہوتے گئے
سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانون کے لئے نہ روزگار کے ذرائع پیش کئے , نہ ہمیں تعلیمی سہولیات فراہم کی گئی اور نہ ہی ہماری اقتصادی حالت بہتر ہے باقی وکاس تو خدا کی پناہ اُس پر سونے پہ سہاگہ کہ ہماری جانوں تک کے لالے پڑے ہیں
ناجانے کب کہاں سے کونسا مودی بھگت گائے کہ نام پہ ہم پہ حملہ آور ہوجائیں, لوجہاد کے نام پر ہمارے نوجوان بچے بچیوں پہ خطرناک سازشیں رچ دیں اور کونسا ریپسٹ بھاجپائی منتری معصوم بچیوں کو اپنی ہوس کا شکار بنادے اور ناجانے کونسا لیڈر جھوٹا اینکاؤنٹر کروادے
ان حالات میں وشواس کی بات تو محض دل بہلائی کے سوا کچھ نہیں ….
ویسے بھی مودی راج میں جملوں کی کمی نہیں ہے , اگر ایک پل کے لئے مسلمانوں کو بھلاکر صرف ملک کی بات بھی کریں تو 2014 میں کئے گئے سبھی وعدے دعوے دھرے کہ دھرے رہ گئے 125 کڑور عوام میں
نہ کسی کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ آئے , نہ 2 کڑور نوکریاں ملی نہ ہی سب کا ساتھ سب کا وکاس ہوا نہ کسانوں کے حالات بدلے نہ ہی ایک سر کے بدلے دس سر آئے نہ ہی خواتین کو تحفظ ملا …..
برعکس 2019 کے چلتے پلوامہ میں ہمارے اپنے 40 جوان شہید ہوگئے ان کے علاوہ دیگر بھی کئی ہیں لیکن یہاں پہ تذکرہ کرنا ضروری نہیں
بہرحال 40 جوانوں کی شہادت کے بدلے راتوں رات سرجیکل نامی سبزیکل اسٹرائک کا ڈرامہ رچایا گیا جس میں تصوراتی 300 سر لانے کا دعوی کر کے ہندوستانی عوام کو بھوکے ننگے پاکستان کا ڈر دکھاکر 2019 میں دوبارہ کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھوا لیا
اور ہندوتوا کے نام پہ بےوقوف عوام نے مودی سرکار کی اگلی پچھلی تمام ناکامیامیوں کو نظرانداز کردیا جبکہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نام پہ ہندوستاں کی عوام کو ہتھیلی میں چاند دکھاکر نیراؤ مودی جیسے بھگوڑے تاجروں کی جھولی بھردی گئی تھی اور رافائیل ڈیل کے بعد ہر زبان پہ چوکیدار چور ہے کہ نعرے گونج رہے تھے باوجود اس کے آج وہی چوکیدار غنڈے بدمعاش دہشتگردوں کے ساتھ تخت نشین ہے ….
ناجانے آگے اور کیا کیا دیکھنا باقی ہے جسکے ٹریلر کی شروعات ہوچکی ہے سوشیل میڈیا پہ آئے دن مسلمانوں کے خلاف بھاجپائی نیتا زہرافشانی کرتے باز نہیں آرہے اور ہندو مہاسبھا کی پوجا شکون جس نے کچھ ماہ قبل بابائے قوم گاندھی جی کے پتلے کو گولی مارتے ہوئے ویڈیو وائرل کی تھی آج وہی ناتھورام کی اولاد کئی اسکولس کا دورہ کر وہاں کے ٹاپر طلبا میں چاقو اور تلوار تقسیم کررہی ہے تو دوسری طرف قید یافتہ بی جے پی کی منتری سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکور گاندھی جی کے قاتل دہشتگرد گوڈسے کو دیش بھگت کہتی ہے ساتھ ہی ملک کے جانباز شہید ہیمنت کرکرے کی شان میں گستاخی کرتی ہے اس کے علاوہ ہندوستانی روپیہ پہ گاندھی جی کی تصویر ہٹاکر گوڈسے کی تصویر لگانے کی مانگ کی جارہی ہے اور بات یہیں یہ ختم نہیں ہوتی بلکہ جب متر مودی سینٹرل ہال میں وشواس کی بات کررہے تھے تو اُسی دوران اُن کے بھگوادھاری بھگت جگہ جگہ مسلمانوں کو گائے اور جےشری رام کے نام پہ مار رہے تھے , ان وحشی درندوں نے عورتوں بزرگوں یہاں تک کہ 3 معصوم بچوں کو بھی نہیں چھوڑا بڑی ہی بےرحمی سے قتل کردیا .
ایسے خونخوار درندوں کے سرپرست وشواس کی بات کرتے ہیں تو سمجھ نہیں آتا کہ کیسے اور کیوں کر وشواس کریں ؟؟؟؟
ہندوستان میں جس طرح کے حالات درپیش آرہے ہیں اس سے اندھے, بہرے بھی صاف اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بی جے پی کی منشا کیا ہے اور 2022 تک وہ ملک کو کس سمت لے جانا چاہتی ہے ان تمام حالات کے مدنظر اس دوغلے کھیل کو سمجھ پانا اتنا مشکل بھی نہیں ہے . جتنا انجان بنے رہنے کا ہم دکھاوا کررہے ہیں ……..
ایک طرف سرعام دوستی اتحاد وشواس کی باتیں تو دوسری طرف ہمارے رہنماؤں کی اور سے بڑھتی ہوئی دوستی کی پیش کش کو سرے سے نکار دیا جاتا ہے اور اس کہنی و کرنی کے فرق کو ہمیں سمجھنا ہوگا …….
” کہ یہاں پہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ہیں ……..”
..
اسلئے اگر ہمیں مرنا ہی ہے تو وشواس کے فریب میں پھنس کر مردار موت مرنے کے بجائے کیوں نہ حقیقت کا سامنہ کرتے ہوئے شہادت کو گلے لگائیں
کیونکہ یہ فریبی چھلاوے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنے چیلے چپاٹے بھگتوں کے ہاتھوں گوری لنکیش کی طرح سید احسان اور انکے بھانجے کو دن دہاڑے گولی مار کر قتل کردیتے ہیں اور جابجا ناحق بہتا ہوا اپنوں کا خون دیکھنے کے بعد آخر ہم کیسے ان جلادوں پہ وشواس کر بیوقوف بنیں
جبکہ آج تک ہماری آنکھیں گجرات کا وہ خوفناک منظر بھولی نہیں ہیں , ہمارے کانوں میں آج بھی اُن بےبس لاچار مظلوم مسلمانوں کی چیخیں وپکار گونجتی ہے , آج بھی اُس حاملہ خاتون اور اُس کے نومولود بچے کے منظر سے دل دہل جاتا ہے اور تماشبین پولس کے آگے کئے گئے نرسنگھار کو یاد کرتے ہیں تو رونکٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کیونکہ آج بھی اُس بربریت کے نشان دھلے نہیں روح پہ لگے زخم سوکھے نہیں آج بھی مسلم بہنیں انصاف کے لئے در در بھٹک رہی ہیں آج بھی احسان جعفر کی بیوی ذکیہ جعفر انصاف مانگ رہی ہیں وہی احسان جعفر جنہیں گجرات میں مودی کے دور میں بےرحمی سے قتل کر اُن کے خاندان کو تباہ و برباد کردیا گیا تھا
آج جب سید احسان کے قتل کی خبر سنی تو ذہن میں احسان جعفر کی یاد تازہ ہوگئ ہے اور جب تک پرانے زخم نہیں بھرے جاتے, مظلوموں کو انصاف نہیں دیا جاتا اُس وقت تک وشواس کی بات کرنا کسی بھی حکمران کو زیب نہیں دیتا
اور اگر ایک پل کے لئے ہم بھولنے کی کوشش بھی کریں تو یہ کیسے یقین کریں کہ ماضی میں کئے گئے مظالم ,بربریت مسلمانوں کی نسل کشی دوبارہ دہرائی نہیں جائیگی ؟؟؟
کیسے یقین کریں کہ دوبارہ کسی اخلاق, پہلوخان, جنید , افرازول کا قتل نہیں کیا جائیگا ؟؟؟
کیسے وشواس کریں کہ دوبارہ کسی نجیب کو غائب نہیں کیا جائیگا ؟؟؟
بھاجپا اگر چاہتی ہے کہ مسلمان اُس پہ وشواس کرے تو پہلے یہ ہمیں ہماری جان مال آبرو کی حفاظت کا یقین ڈلوائیں
ہمارے رہنماء قائدین و اکابرین کے ساتھ بیٹھ کر حلف نامہ تیار کریں
کہ اللہ نہ کریں مستقل اس طرح کے واقعات پیش آئے تو سب سے پہلے وزیرآعظم اپنے عہدے سے استفا دینگے ….
پھر انشاءاللہ وشواس کرنے کے بارے میں سوچا جائیگا ورنہ وشواس کی باتیں رہنے ہی دیجئیے …..
باوجود اس کے گر مسلم رہنماء بی جے پی کو دوبارہ موقعہ دینا چاہتے ہیں , انہیں اپنا ہمنشین بنانا چاہتے ہیں تو شوق سے بنائیں لیکن گجرات کا نرسنگھار نہ بھولیں جس کی چیخیں, سسکیاں آج بھی تھمی نہیں ہیں …….
اور آج جو اکیسویں صدی والے فرعون کے بیان کا خیرمقدم کررہے ہیں وہ اس مثال پہ غور ضرور کریں کہ کُتے کی دُم کو سیدھی کرنے کے خاطر سو سال تک نلی میں رکھاجائے تب بھی وہ تیڑھی کی تیڑھی ہی رہتی ہے اور کچھ انسانوں کی فطرت بالکل اس دُم کے مانند ہے
آخر میں عقل والوں کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ
” مسلمان ایک بار ڈسے جانے کے بعد دوبارہ ڈسہ نہیں جاتا ” ………….
Comments are closed.