Baseerat Online News Portal

آج تم یاد بے حساب آئے

محمد اعظم ندوی

 

ڈاکٹر ایوب صدیقی ندوی مرحوم ہوگئے، یکم رمضان کو یہ خبر کیسی غم انگیز اور ناقابل یقین سی تھی، لیکن یہ تو موت ہے جو کسی بھی دروازہ پہ دستک دے سکتی ہے، جو کچھ ہوا اچانک ہوا، لیکن اللہ کے علم میں کچھ بھی اچانک نہیں، اس کے "کن” کا جواب ہے، اب سکت نہ ہو تو بھی صبر اورضبط غم کے سوا کیا ہے:

اک متاع دیدۂ تر کے سوا کچھ بھی نہیں

یہاں "جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات” کا قانون نہیں چلتا، ضعیفی کی موت تو انجانے اندیشہ کے مطابق ہوتی ہے، اصل میں جوانی کی موت ہی "مرگ مفاجات” ہے، موت طاقتور سے نہیں ڈرتی نہ کمزور پر ترس کھاتی ہے، وہ ایک حتمی انجام ہے، جس کے لیے جب مقدر ہے اس میں ایک لمحہ کی تقدیم وتاخیر نہیں ہوتی:

کیا خبر کس جگہ پہ رک جائے

سانس کا اعتبار مت کرنا

جسے یقین نہ ہو وہ ایوب صدیقی کی وفات کا سانحہ یاد کرلے، ایسا جیتا جاگتا، ہنستا ہنساتا، چلتا پھرتا مرنجاں مرنج انسان کم دیکھا جاتا ہے، شستہ وشگفتہ زبان میں بات کرنے کا عادی، کسی کا تذکرہ ہو پہلے اس کی حقیقی خوبیوں کا اعتراف، اور اس کی طرف سے کسی بات پر عذر تلاش کرنے کی کوشش ایوب بھائی کی عام عادت تھی، ذوق نقد بلا کا تھا، لیکن پھکڑ پن اور غیر معیاری تبصرہ سے ہمیشہ گریز ان کی عادت تھی:

لاکھ مضموں اور اس کا ایک ٹھٹھول

سو تکلف اور اس کی سیدھی بات

 

ابھی 26 اپریل کی بات ہے جب ڈاکٹر شہاب الدین سبیلی صاحب نے ایک شادی میں مجھ سے کہا تھا، ذرا ایوب بھائی کو فون کیجئے دیکھیں کہاں تک پہنچے ہیں، ہم نے فون کیا، وہی ہمیشہ کی طرح کہئے اعظم بھائی! کیسے یاد کیا، سنا آپ شادی میں آرہے ہیں، میں نے کہا، اچھا آپ وہاں ہیں، بس فورا پہنچتا ہوں، آئے بھی، ملاقات بھی ہوئی، کسی وجہ سے ساتھ کھانا نہ ہوسکا، مجھے تاخیر ہوئی، پھر جب میں کھانے سے فارغ ہوا، ان کو ڈھونڈا تو وہ جاچکے تھے، شہاب بھائی سے پوچھا، انہوں نے کہا وہ تو نکل گئے، میں نے کہا میں فون لگاتا ہوں معذرت کے لیے، انہوں نے کہا، ارے وہ ایسے آدمی نہیں، یہ سب شادیوں میں ہوتا رہتا ہے، فون کرنے کی ضرورت نہیں، پھر بھی میرا دل نہ مانا، میں نے فون کرکے معذرت کی، کہنے لگے ارے اعظم بھائی! بھلا یہ بھی کوئی بات ہے، آپ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کے ساتھ تھے، میں "آداب محبت” سے واقف ہوں، کوئی مسئلہ نہیں، بس یہ آخری ملاقات تھی، کیا خبر تھی کہ اب ایوب بھائی بزم جہاں چھوڑ جائیں گے:

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے

کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

رمضان کا چاند نکلا تھا، خوشی خوشی ایک نیک مؤمن کی طرح روزہ وتراویح کی عبادتوں میں مصروف ہوگئے تھے کہ مالک کا بلاوا آگیا کہ آؤ جنات خلد کی طرف، یہ تمہارا آخری رمضان ہے، اب پھر تمہاری زندگی میں رمضان نہیں آئے گا لیکن جب بھی رمضان آئے گا تمہارے چاہنے والوں کو تمہاری یاد دلا جائے گا اور میرے حضور تمہاری بخشش کی ڈھیر ساری درخواستیں پیش کی جائیں گی، اور رمضان میں میں ساری درخواستیں منظور کرلیتا ہوں، میرا ابر رحمت جھوم کر برستا ہے، سدا اس کی پھوار سے بھیگتے رہنا، تمہارا رب غفور ورحیم ہے۔ اللہ تعالی ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل اور اس پر اجر جزیل عطا فرمائے آمین۔

ایوب بھائی مجھے وزیٹنگ اسکالر کہتے تھے، اور میں مسکرا دیتا تھا، شاید وہ میری خفت دیکھ کر کہ پی ایچ ڈی اسکالر کی حیثیت سے مولانا آزاد یونیورسٹی پابندی سے حاضری نہیں دے پاتا فورا بول اٹھتے تھے، ارے اعظم بھائی! پی ایچ ڈی ہے ہی ایسی بلا، آدمی کیا کیا دیکھے، بچوں کی تعلیم دیکھے، شاگردوں کو سنوارے یا خود ہی پھر سے طفل مکتب بن کر غیر حاضری پر مرغا بنتا رہے، آپ لوگ اس معاملہ میں نفوس قدسیہ ہیں، ہم لوگوں نے تو پی ایچ ڈی اور بھی ڈسٹنس ٹائپ کی کی ہے، اور ہمارے پیش روؤں کا تو پوچھئے مت، وہ تو پی ایچ ڈی کر کے ڈپارٹمنٹ پر احسان کرتے تھے، ہاں یہ اور بات ہے کہ آبادی چونکہ بہت بڑھ گئی ہے اس لیے وہ ہم جیسوں کو محسن نہیں مانتے۔

فروری میں المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں ابناء معہد کا خصوصی پروگرام تھا، اس میں وہ صرف اپنے بعض قریبی دوستوں کو مندی کھلانے آئے تھے، مجھے بھی دعوت دی، میں نے مصروفیت کے ہنگاموں کا عذر کیا، کہا: نہیں ٹھیک ہے، ابھی آپ کے گھر شادی ہے، آپ کسی دوسری شادی میں کیسے جاسکتے ہیں۔

محسن عثمانی صاحب کی صحبت و رفاقت نے ان کا ذوق علمی نکھار دیا۔ یادش بخیر ڈاکٹر شہاب الدین، ڈاکٹر محامد ہاشمی اور ایوب بھائی ایسے یار با اعتبار تھے جیسے ایک ہی شخص کے تین نام ہوں:

سبھی نام ایک ہی شخص کے، سبھی پھول ایک ہی ڈال کے،

اور ہمیشہ ایک کو دوسرے کا غائبانہ طور پر بھی ثنا خواں پایا، سچ پوچھئے تو مبالغہ کی حد تک، لیکن دیکھنے کی چیز وہ جذبہ خلوص ووفا ہے جو ایک خاص لطف دے جاتا ہے جس میں ایک سرور ہوتا ہے، جس سے نہ مے فروش واقف نہ مے نوش۔

خدا ان دونوں آخر الذکر بھائیوں کی کشتی حیات سلامت رکھے، جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں۔

ایوب بھائی نے ابھی چند مہینوں قبل ایک فقہی مسئلہ کے سلسلہ میں مجھ سے مشورہ کیا، کہنے لگے: حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب سے پوچھ کر بتائیے، میں نے کہا: یہ مسئلہ مشہور ہے، ہم کو مولانا سے کچھ صحبت رہی ہے، میں ان کی رائے بتا سکتا ہوں، ان کو میرے جواب پر اعتراض تھا، پھر جب اس کی منطق سمجھائی، تو کہنے لگے: بالکل صحیح، اب میں پوری طرح سمجھ گیا بس کسی کو سمجھانا ہے، اگر مولانا جواب لکھا دیں تو شاید ان کو بھی اطمینان ہو، الحمد للہ مولانا سے جواب مل گیا اور وہ منصف کے شرعی مسائل کالم میں شائع بھی ہوا، جس میں بحیثیت مستفتی ڈاکٹر ایوب صدیقی کا نام درج تھا، ان کو بھیجا تو خوش ہوئے اور شکریہ ادا کیا۔

دو سال پہلے ہم جامعہ ملیہ میں ایک پروگرام میں ساتھ تھے، ماشاء اللہ ان کا مقالہ بڑا وقیع تھا، اور پیشکش اس سے زیادہ شاندار تھی، ہم نے مزاحا کہا: آپ نے تو جما دیا، کہنے لگے: اب میں یہی کرسکتا ہوں، آپ کے عربی لہجہ کی حرارت کہاں سے لاسکتا ہوں، برف جمائی جاتی ہے، سرد انگھیٹیوں میں حرارت پیدا کرنا آپ جیسوں کا کام ہے، الفاظ شاید میرے ہوں، لیکن خیالات ان کے اسی جیسے تھے، میں ان کی بات سے اتفاق نہ کرکے بھی لاجواب سا رہ گیا، فصاحت اور برجستگی تھی ہی ان کی گفتگو میں جس سے میں ہمیشہ متاثر ہوتا تھا۔

انگلش اینڈ فارن لینگویجز یونیورسٹی (EFLU) کے شعبہ عربی کے اسسٹنٹ پروفیسر تھے، اس عہدہ کے اپنے کچھ ضروی آداب ہوتے ہیں، جو ان میں موجود تھے، اور کچھ غیر ضروری بھی ہوتے ہیں جن سے ان کو نفور تھا، میں تو ان سے بڑا با ادب ہو کر ملتا تھا لیکن انہوں نے اپنی خوئے دلنوازی سے مجھے اپنے ساتھ بے تکلف کرلیا تھا، معہد بارہا پروگراموں میں آتے رہے، اکثر پروفیسر محسن عثمانی صاحب کے ساتھ جن کے لیے وہ ایک شفیق باپ، ہمدرد بھائی اور بے تکلف دوست سب کچھ تھے، لیکن کبھی اسٹیج پر تمکنت کے ساتھ نہ بیٹھتے، بلکہ لوگوں سے ملتے ملاتے رہتے، بسا اوقات عثمانی صاحب کو ڈھونڈنا پڑتا کہ ایوب صاحب کہاں گئے، ان سے بھی کچھ کہلوائیے، لیکن ایوب بھائی بہت کم تیار ہوئے، مجھے ان میں بے نفسی نظر آئی، گوکہ ان کو اسٹیج پر اپنی بات رکھنے کا اچھا سلیقہ تھا، تاہم غیر ضروری اظہار سے بچتے تھے، اللہ تعالی ان کی یہ بیش بہا نیکیاں قبول فرمائے، ان کی قبر کو اپنی رحمت سے سیراب کرے، ان کی وحشت کو انس کی نعمت سے بدل دے، ان کو عافیت سے رکھے، عفو ومغفرت کا پروانہ عطا کرے، جنت کے خوان نعمت سے ان کی مہمان نوازی فرمائے، قبر میں مطمئن اور قیامت والے دن ثابت قدم رکھے، انہیں بھی ہمیں بھی دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال عطا فرمائے، ان کا بھی، ہمارا بھی حساب آسان فرمائے، اور ہم سب کے قدم اس دن جمادے جس دن قدم پھسل جائیں گے اور دل دہل جائیں گے، اور ہم سب کو اپنے محبوب رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے:

 

مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا

 

نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

 

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

 

سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Comments are closed.