ایں سعادت بزور بازو نیست

تحدیث بالنعمت
محمد رضی الرحمن (مدینہ طیبہ)
شاید ہی کوئی فرد ایسا رہا ہو، جس کی سسکیاں اور ہچکیاں نہیں نکلی ہوں؛ بلکہ ہزاروں کی تو چیخیں نکل گئیں، یہ اس وقت ہوا، جب حرم مدنی یعنی مسجد نبوی شریف میں تراویح میں قرآن کریم کی تکمیل کے بعد دعا میں امام صاحب نے یہ دعا کی کہ *اے رب کریم! آپ نے جس طرح ہمیں سید الاولین و الآخرین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب اور ان کی مسجد میں جمع کیا اور یہاں تراویح اور اس میں قرآن کریم پڑھنے کی سعادت بخشی ، اسی طرح جنت میں بھی ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ اور ان کا قرب نصیب فرمائیے۔*
امام صاحب نے بہت ساری دعائیں کی اور دوسرے مقتدیوں کی طرح مجھے بھی ان تمام دعاؤں پر آمین کہنے کا اور اس طرح امام صاحب کی دعاؤں میں شرکت کا شرف حاصل ہوتا رہا، لیکن مستقل یہ احساس رہا کہ اوپر مذکور دعا میں صرف چند الفاظ نہیں ہیں؛ بلکہ اس کی قبولیت دنیا و آخرت کی تمام کامیابی اور کامرانی کو مضمر ہے۔
تراویح کے بعد میں گہری سوچ میں کھو گیا، سیکڑوں واقعات لوح دل پر آنے لگے، جن سے ہونٹوں پر کبھی مسکراہٹ بھی آئی اور کبھی آنکھیں نم بھی ہوئیں۔
تصورات اور خیالوں کی اسی دنیا میں کھوئے ہوئے میں بچپن کی طرف چلا گیا، اللہ کے فضل سے دینی و علمی گھرانے کے ایک فرد ہونے کی وجہ سے ہوش سنبھالنے کے بعد گھر میں جن موضوعات کا بہت چرچا ہوا کرتا تھا، ان میں سے ایک حرمین شریفین، وہاں کی حاضری، حج و عمرہ کی سعادت، روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری بھی تھا، کچھ اور بڑا ہوا، تو متعدد لوگوں کو دیکھتا اور بہت سارے لوگوں کے بارے میں سنتا تھا کہ وہ حج و عمرہ اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری کے لئے جارہے ہیں، تو دل میں ایک ارمان مچلتا تھا کہ کاش ہمیں بھی یہ سعادت نصیب ہو، پھر جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی، یہ ارمان دعائیں بن کر رب کی بارگاہ میں پیش کرنے لگا۔
قرآن و حدیث کے فرمودات کی روشنی میں ایمان تو ہمیشہ سے رہا ہے کہ رب کی چوکھٹ پر پیش کی جانے والی سچی اور دل سے نکلی ہوئی عرضی کبھی بھی رد نہیں ہوتی ہے، زندگی کے بڑے اور اہم معاملات میں متعدد بار اور چھوٹی چھوٹی چیزوں میں تقریباً ہر روز ہی بفضل الٰہی مجھے ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ بس ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم دعاؤں اور تدبیروں کے بعد معاملہ اللہ عزوجل کے سپرد نہیں کرتے ہیں؛ بلکہ اپنے من چاہے طریقے اور وقت پر ان کی تکمیل کے لئے مصر رہتے ہیں، حالانکہ اللہ عزوجل ہم سے بہتر جانتا ہے کہ ہماری یہ دعا ہمارے لئے کب پوری ہونی زیادہ مناسب ہے، ہم اپنی فکر اور سوچ ایسی کرلیں، پھر ہمیں بہت ساری باتیں یاد آنے لگیں گی کہ یہ ہم نے تب مانگا تھا، جو اللہ عزوجل نے اب دیا۔ اور یہ ہمارے لئےاس سے بہتر وقت ہے۔
بہر حال جب میں نے یہ دعائیں شروع کیں، تب اسباب و وسائل کچھ بھی نہیں تھے؛ وقت گذرتا رہا، تعلیم سے رسمی فراغت کے بعد جو فکر سب سے زیادہ تھی وہ یہ کہ حرمین شریفین کی حاضری نصیب ہو جائے، تقریباً 96 ۔ 1995 سے دل میں جو ارمان تھا،جنوری 2015 میں پہلی بار پورا ہوا، قطر میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا کہ رب کی طرف سے حاضری کا بلاوا آیا، طائف کی میقات سے احرام باندھ کر جب مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوا، اس وقت دل کی جو کیفیت تھی، آج بھی یاد ہے؛ لیکن لفظوں میں تعبیر کرنا میرے لئے بہت دشوار ہے، آج بھی وہ کعبہ پر پہلی نظر کی لذت یاد ہے، مسجد حرام کی عبادتیں، مسجد نبوی شریف کی عبادتیں اور سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور سلام پیش کرنے کا ایک ایک منظر آج بھی لوح دل پر ثبت ہے، اس پورے سفر میں سب سے زیادہ یہ دعا کی کہ اے الہ العالمین! یہاں کی حاضری کے لئے اور حج و عمرہ کے لئے بار بار بلاتے رہیں۔
پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ قطر سے منتقل ہوکر میں ینبع پہنچ گیا، جو مکہ مکرمہ سے چار پانچ گھنٹے اور مدینہ منورہ سے دو ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر ہے، تب سے بار بار حرمین شریفین کی حاضری کا شرف حاصل ہوتا آرہا ہے۔ فللہ الحمد و الشکر، والدین، اہلیہ اور بچوں کو بھی اللہ عزوجل نے کئی بار حاضری کا شرف بخشا، دعا ہے کہ اللہ عزوجل یوں ہی ہمیں یہاں کی حاضری اور حج و عمرہ کا شرف بخشتا رہے۔ آمین
آج جب الحمد للہ تقریباً مکمل تراویح (ایک دو دن چھوڑ کر جن میں عمرہ کے لئے مکہ مکرمہ میں تھا)حرم نبوی میں پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اور ختم قرآن کی دعا میں بھی شامل ہونے کا اعزاز نصیب ہوا، تو سب سے زیادہ شدت کے ساتھ یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ ہم اپنے رب سے مانگیں، پھر مانگیں، اور پھر مانگیں، اس چوکھٹ پر پیش کی جانے والی سچی عرضی کے لئے بس ایک ہی حکم "استجب لکم” (قبولیت) ہے، ہاں! البتہ یہ بھی ملحوظ رہے کہ دعاؤں اور تدبیروں کے بعد معاملہ اس ذات کے سپرد کردیں کہ وہ ہماری اور آپ کی مصلحتوں کو ہم سے بہتر جانتا ہے۔
Comments are closed.