عید الفطر اور یاد عہد رفتہ

ساجد حسین سہرساوی
بوئے عظمت اسلامی سے معطر مغز جاں ، کمال طاعت گزاری سے زعفران زار مشام روح ، حیات اعمال حسنہ سے مملو دیدہ و دل ، داعیان حق و صداقت کی گونج سے آباد فضائے بسیط ، شعلۂ محبت قدسی کی صدائے سوزاں سے نمناک سحر نو وارد ، کافوری شمعوں کی قندیلوں سے جہان خواب و غفلت اور طالع خفتہ کی اندھیاری کو دور کرتا روشن بخش ذرہ خجستہ اختر ، صفات عبدیت سے سجے گلدستے ، سچائی و راست بازی اور وفائے عہد پر کاربند و سرگرم عمل ، حلم و حیا ، تنظیف و تطہیر روحانی و جسمانی اور عجز و انکساری کی پیکری ، یداللہ علی الجماعة کی خوش بختی ، غلط اندیشی ، حسرت و مایوسانہ طرز و فکر سے دوری اور امنڈتے فتنوں کا استیصال ، تقدیس فکر اور تزکیہ نفس کی مجاوری ، اعزہ و اقارب کی دلجوئی و اظہار اپنائیت ، غریب نوازی اور یتیموں کے ساتھ حسن سلوک و فیاضی ، صفحہ دل پر ایمان و یقین کی نقش آرائی ، پیمبرانہ قول و اصول کی اتباع و تقلید اور تعلق باللہ و عشق رسول اللہ اور تمسک بالدین پر محکم و مستحکم ؛ اسی کے مجموعے کا نام عید ہے.
” عید ” خوشی و مسرت اور آپسی محبت و حمیت سے پر ، مخصوص دن کو کہتے ہیں ، __بقول صاحب” رد المختار” : ” عید کہتے ہیں جس میں اللہ کے احسان و انعام کا بندوں پر اعادہ ہو ، انعامِ الہی کا دن بار بار بندوں کے لئے آئے ، اور مختلف انعامات و احسانات سے بندوں کو نوازا جائے "__
روز عید کا تصور دنیا کے تمام مذاہب اور اقوام و ملل کے درمیان مشترک ہے ، تاریخ ، زبان و بیان ، روایات و درایات ، تعامل اور معاشرتی توافق سے "العیدان واجبتان علی کل حالم ” کی توثیق ہے ؛ آج بھی دنیا کی تمام قوموں میں اس کی آدھی ادھوری اور بگڑی ہوئی صورت کا پتا ملتا ہے ، مذہب اسلام نے اسے خاص اہمیت دی ہے اور بجائے عیش و عشرت اور ذہنی عیاشی میں مگن ہونے کے عبادت و طاعت گزاری اور میل ملاپ کا دن قرار دیا ہے جس کے سبب اس دن کو ” یوم الاجرۃ ” اور "یوم الاحتساب ” بھی کہا جاتا ہے.
نیز ” عید ” کا تصور جس قوم اور مذہب میں بھی پایا گیا وہ ہمیشہ بطور شعار پایا گیا ہے ؛ کماقال اللہ تعالی : قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاء تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ .
اس آیت کریمہ ، اسی طرح سے حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کے مابین بحث و تمحیص کا متعینہ دن سے بھی پتا چلتا ہےکہ” عید” کا دن اہمیت اور شعار کا حامل تھا.
جب نبی کریم صلى الله عليه وسلم علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں کو بطور خاص دو دنوں کا اہتمام کرتے اور خوشیاں مناتے دیکھا ، سنن ابی داؤد میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اہل ِمدینہ دو دن بطور ِتہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل کود اور تماشے وغیرہ کیا کرتے تھے ، رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا: یہ دو دن جو تم مناتے ہو ، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے ؟ ﴿ یعنی ان تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے ﴾ ، انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد ِجاہلیت میں یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر عید کے دو دن مقرر فرما دیے ہیں ، یوم ﴿عید ﴾ الاضحی اور یوم ﴿عید ﴾الفطر.
نیز کتب احادیث کے ذخائر میں ایک یہودی کا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آنے کے واقعہ سے بھی اسی قسم کا مفہوم واضح ہوتا ہے ،
چنانچہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جاء رجل من اليهود إلى عمر بن الخطاب ﴿ رضي الله عنه ﴾ فقال : يا أمير المؤمنين ، إنكم تقرءون آية في كتابكم ، لو علينا معشر اليهود نزلت لاتخذنا ذلك اليوم عيدا . قال : وأي آية ؟ قال قوله : ﴿ اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ﴾ فقال عمر : والله إني لأعلم اليوم الذي نزلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، والساعة التي نزلت فيها على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، نزلت عشية عرفة في يوم جمعة .
یعنی یہ آیت کریمہ جب میدان عرفات میں جمعہ کے دن نازل ہوئی تو ایسا عطیہ خداوندی سمجھی گئی کہ آنے والا یہودی شخص بول اٹھا : اگر ایسی کوئی آیت ہمارے مذہب میں نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن بطور یادگار عید کا دن مناتے.
ماہ صیام ہرسال بےبہا برکات و سعادت مندی اپنے جلو میں لےکر ہم پر سایہ فگن ہوتاہے ، رضائے الہی اور مغفرت و خلاصی جہنم کا طلائی تمغہ عطا کرنے کے واسطے ہر سال جلوہ فگن ہوتا ہے ، اس ماہ مبارک میں انعام و اکرام خداوندی کے چشمے جوش مارنے لگتے ہیں اور خدائے ذوالجلال کی جانب سے بخشش و عنایات کا اذن عام ہوجاتا ہے ؛ باوجودیکہ ہم اس کی شایان شان اس کے استقبال سے محروم رہ جاتے ہیں.
یوں تورمضان المبارک کا ہر روز ” روزِعید ” کا مصداق ہے اوراس کا ہر لمحہ اہل ایمان کے لئے مسرتوں اور بشارتوں کا پیغام ہوتا ہے.
ساقیا! عید ہے لا بادے سے مینا بھرکے.
کہ مے آشام پیاسے ہیں مہینہ بھرکے.
بندگان خدا نے جب ماہ رمضان مکمل اطاعت و فرماں برداری ، کامل اعتقاد و دلجمعی و وفا کیشی اور طمانیت بخش طریقے سے گزار لی تو چاہیے کہ اب انہیں مزدوری دے دی جائے اسلیے اللہ تبارک و تعالی نے اپنے ان جفا کش اور تابعدار حکم کو پورا کرنے والے بندوں کو انعام سے نوازنے اور وعدۂ مغفرت وفا فرمانے کے لیے عید کا دن رکھا اور اس کی رات کو ” لیلۃ الجائزہ ” ﴿ انعام کی رات ﴾ اور اس روز کو "یوم الجائزہ” ﴿ انعام کادن ﴾ کا نام دے دیا.
جناب نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے ” أُعْطِيَتْ أُمَّتِي خَمْسَ خِصَالٍ فِي رَمَضَانَ لَمْ تُعْطَهُ أُمَّةٌ قَبْلَهُمْ : ۔۔۔۔۔ وَيُغْفَرُ لَهُمْ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ ، قِيلَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ! هِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ ؟ قَالَ : ” لا ، وَلَكِنْ إِنَّمَا يُوَفَّى الْعَامِلُ أَجْرَهُ إِذَا قَضَى عَمَلَهُ ” . یعنی ماہ رمضان میں میری امت کو بطور خاص پانچ ایسی نعمت عطا کی گئی ہیں جن سے امم سابقہ محروم رہی ہیں ﴿ چار نعمتوں کے شمار کرانے کے بعد آخری نعمت یہ ہےکہ ﴾رمضان کی آخری شب میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا ؛ یا رسول اللہ ! کیا یہ شب مغفرت لیلة القدر ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام پورا ہوتے ہی مزدوری دے دی جاتی ہے.
ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ : جب عید الفطر ہوتی ہے تو ﴿ آسمانوں پر ﴾ اس کانام "لیلۃ الجائزہ” سے لیاجاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں ، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور __ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے__ پکارتے ہیں: اے محمد ﷺ کی امت! اس کریم رب کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے ،جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالی فرشتوں سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے ؛ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اے فرشتو ! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی اور اپنے بندوں سے خطاب فرماکر ارشاد فرماتے ہیں کہ اے میرے بندو مجھ سے مانگو! میری عزت کی قسم ، میرے جلال کی قسم آج کے دن اس اجتماع کے دن اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروں گا ، اور دنیا کے بارے میں جو مانگو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا ، میری عزت کی قسم جب تک میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا ، میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم میں تمہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے رسوا نہ کروں گا ؛ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاو ٔ، تم نے مجھے راضی کرلیا اور میں تم سے راضی ہوگیا ، فرشتے اس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اس افطار کے دن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں ﴿ ماخوذ ترجمۂ حدیث ﴾.
مطلوبات عید میں سے ملی اتحاد و یکسانیت کا درس ، تشخصات اسلامی کی برقراری کا سبق ، اعلاء کلمة اللہ کی تمرین و تبلیغ ، تہذیب نفس کی مشق ، دعوت احتساب ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تعلیم ، اور الہی تعلیمات و احکامات ، مواثیق و مواعید ، اسلامی تمدن و ثقافت اور کار جہاں کے حسین امتزاج بھی ہیں ؛ پر صد افسوس کہ: ملی اتحاد و یکسانیت کے قدم متزلزل ہو چکے ، تشخصات اسلامی ہمارے نزدیک بےآب و رنگ ہوکر رہ گئے ، اعلاء کلمة اللہ ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں رہا ، تہذیب نفس کی گردن ہم نے ذبح کر ڈالی ، الہی تعلیمات و احکامات سے ہماری پہچان باقی نہیں رہی ، مواثیق و مواعید کی پابندی سے ہم آزاد ہوچکے ، اسلامی تمدن و ثقافت سے چڑھ سی ہوگئی ، دعوت احتساب سے گریزاں ہوچکے اور امر بالمعروف کو سبب خجالت اور نہی عن المنکر کو باعث احتضار و سکرات سمجھ لیا.
جس کے سبب ہم دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہوئے ، ہماری جگ ہنسائی ہوئی ، ہمارے وجود کو ارض الہی پر بوجھ سمجھا جانے لگا ، خون مسلم کار جہاں کی سب سے ارزاں چیز سمجھی جانے لگی ، کفرانہ و مشرکانہ طرز و فکر اور تشخصات کو گلے کا ہار سمجھنا پڑا ، ظالمانہ و جابرانہ حکمرانی ہم پر مسلط کر دی گئی ، زانی و فاسق کی ماتحتی کو درجہ اولیت دینا پڑا ، طغیان و سرکشی کے سیلاب کی نذر ہونا پڑا ، نور صداقت غار ظلمت و ضلالت میں چھپ گئے ، جہل و باطل پرستی کی طوق غلامی کو خوبئ جہاں کہنا پڑا ، لذائذ دنیوی آخری آس بن گئی ، صحیفۂ اقبال وادئ ادبار میں گم ہوچکا اور ہم صرف افسانۂ ماضی بن کر رہ گئے.
خداوند قدوس ہمیں سمجھنے کی توفیق دے آپسی اتحاد و اتفاق کو مستحکم بنائے اور ہمیں پھر وہی مقام عطا فرمائے جو مطلوب و مقصود ہے تاکہ ایک بار پھر ہماری عید اسلاف اور مخلصین امت والی عید ہو اور ہم سر اٹھا کر فخر سے قوانین الہی کی پاسداری کر سکیں.
Comments are closed.