عید کا پیغام – امت مسلمہ کے نام

مولانا محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
آج ہم سب روزے کی تکمیل کے شکرانے کے طور پر عید کی خوشیاں منا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد پیش کر رہے ہیں ۔
عربی زبان میں ہر ایک مکرر آنے والی کیفیت کو خواہ خوشی ہو یا غم عید کہتے ہیں، عرف عام میں یہ خوشی کے دن کے لئے مخصوص کر لیا گیا ہے ۔ علماء اور اہل علم نے عید کا مفہوم اور اس کی تشریح اس طرح بھی کی ہے کہ : مہینہ بھر کی روحانی و نورانی ریاضتوں اور نفسانی و اخلاقی طہارتوں و پاکیزگیوں کے بعد ایک نئی روحانی زندگی کے عود کر آنے کی وجہ سے بھی اس کو عید کہا جاتا ہے ۔
ایک مہینہ خدا کے واسطے اور اس کے حکم و آڈر کی بنا پر مومن بندہ بھوک و پیاس کی مشقتیں برداشت کرتا ہے نفسانی خواہشات کو دباتا ہے اور پھر جب عید کے دن پھر سے رخصت ملنے پر جو طبعی خوشی ہوتی ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ اسی طرح رات کی تراویح اور قیام الیل اور رمضان میں صدقات و خیرات کرکے جب مومن بندہ فارغ ہوتا ہے تو وہ خاص لذت اور فرحت محسوس کرتا ہے اور شکرانے کے طور پر دوگانہ ادا کرتا ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی نماز عید (عیدالفطر) سن ۲/ ھجری میں ادا کی اور پھر اسے کبھی ترک نہیں فرمایا،لہذا یہ نماز واجب کے درجہ میں ہے اور بعض علماء احناف کے نزدیک سنت موکدہ ہے ۔ عید الفطر کے دن کی اہمیت و فضیلت پر بے شمار احادیث موجود ہیں اور قرآن مجید کی آیات میں بھی اس کی جانب اشارہ موجود ہے ۔ چند احادیث کا تذکرہ کیا جاتا ہے تاکہ اس کی عظمت و رفعت کا اندازہ ہو سکے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اپنی عیدوں کو تکبیروں سے زینت بخشو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص نے عید کے دن تین سو مرتبہ ۰۰ سبحان اللہ و بحمدہ پرھا اور مسلمان متوفی روحوں کو اس کا ثواب ھدیہ کیا تو ہر مسلمان کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل ہوتے ہیں، جب وہ مرے گا تو اللہ تعالی اس کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل فرمائے گا ۔
ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص ثواب کی نیت کرکے دونوں عیدوں میں جاگے اور عبادت میں مشغول رہے اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن سب کے دل مر جائیں گے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلت الجائزہ انعام کی رات سے لیا جاتا ہے ۔ پیغمبر اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے بارے میں فرمایا ۰۰ یوم اکل و شرب و بعال ۰۰ اج کا یہ دن کھانے پینے اور ازدواجی مسرتوں کا دن ہے ۔ آج کوئ انتہائی پرہیز گاری دکھانے کے لئے روزہ رکھنا چاہے تو شریعت میں اس کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اور یہ روزہ حرام اور ناجائز ہوگا جس کا توڑنا ضروری ہے ۔حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :
اج خدا کی طرف سے بندوں کی دعوت ہے،آج کھانا پینا اور جنسی تعلق عین منشاء الہی ہے
اسلام نے تہوار کے طور پر مسلمانوں کو صرف دو دن دئے ہیں ایک عید الفطر اور دوسرا بقر عید ۔ یہ تہوار اسلام کے مزاج اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار و روایات کی صحیح عکاسی کرتا ہے ۔ اس تہیوار سے مسلمانوں کی اللہ سے وابستگی اور عبادت الہی سے شغف اور دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے ۔ عید الفطر اجتماعیت کا مظہر اور علامت و نشانی ہے ۔ یہ تہیوار عدل و مساوات اور اتحاد و یکجہتی و امن و شانتی کا پیغام دیتا ہے اور خاندان اور برادری کی بنیاد پر فوقیت اور بے جا برتری کی نفی کرتا ہے ،عید کی دوگانہ نماز ادا کرتے وقت مسلمان ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں یہاں زید و بکر ،ادنی و اعلی اور غلام و آقا کے درمیان کوئ فرق نہیں رہتا ایک امام کی اقتدا میں سارے نمازی ایک ہی طرح سے نماز ادا کرتے ہیں ۔
عید سعید کی بے شمار مصلحتیں اور مقاصد ہیں اس عید پر اللہ تعالٰی نے خاص طور پر اور تاکید کے ساتھ مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ اپنی خوشیوں میں غریبوں کو ضرور شریک کریں ۔ روٹھے ہووں کو منائیں کم درجہ لوگوں کو گلے لگائیں بچوں سے پیار کریں ۔ بڑوں سے تعطیم و اکرام سے پیش آئیں اور خاص طور پر افلاس اور غربت کے ماروں کو تلاش کرکے گلے سے لگائیں ۔ اس دن صاحب نصاب دوگانہ ادا کرنے سے پہلے صدقئہ فطر ضرور ادا کردیں ۔ کیوں کہ حدیث میں آتا ہے کہ روزہ زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک کہ صدقئہ فطر ادا نہ کیا جائے ۔
دوسری قوموں اور دیگر اقوام و مذاہب کی طرح ہماری عید اور ہمارا تہوار رقص و سرور ناچ اور گانا یا موج و مستی کا نام نہیں ہے بھلا اسلام ایسی خرافات کی اجازت ہی کیوں دے سکتا ہے ۔ بلکہ اسلام میں عید کی بنیاد اور اساس روح کی لطافت و پاکیزگی قلب کے تزکیہ جسم و بدن اور روح و دماغ کی طہارت ایثار و ہمدردی اتحاد و اتفاق قومی و ملی اجتماعیت و یکجہتی اور انسانیت و مساوات عجز و انکسار اور صلاح و تقوی پہ قائم ہے ۔ عید صرف ظاہری اور علامتی خوشی و مسرت اور رواجی شادمانی کا نام نہیں ہے بلکہ مذھبی تہیوار ملی شعار اور عبادتوں کے بدلے کا دن ہے ۔
یہ انعام کی رات اور اللہ سے اپنی پوری پوری مزدوری اور انعام لینے کی رات ہے ۔ اس رات اللہ تعالی بندوں کو انعام سے نوازتا ہے ۔ اور فرشتوں سے فخر سے سوال کرتا ہے کہ بتاو جس مزدور نے پوری مزدوری کی اور اپنا حق ادا کردیا اس کو کیا انعام ملنا چاہیے ۔
خدا کرے عید کے اس پیغام کو ہم سمجھیں اور اپنی خوشیوں میں سب کو شامل کریں ۔
Comments are closed.