Baseerat Online News Portal

علم و عمل سے لبریز سنہری زندگی کا اختتام

محمد عفان منصور پوری

۵ / شوال المکرم ١٤٤٠ھ

بہت پرانی بات ہے ھمارے وطن مالوف منصورپور میں ایک شادی کی تقریب تھی ، حسب دستور مقام تقریب کو آراستہ کیا گیا تھا ، صدر دروازے پر پر ایک بڑا گیٹ بنایا گیا تھا، بارات ، مقامی و بیرونی مہمان آچکے تھے ، کھانا تیار تھا اور کچھ ھی دیر میں مجلس نکاح منعقد ھوا چاھتی تھی بس انتظار تھا اس شخصیت کا جس کو نکاح پڑھانا تھا ، تھوڑی ھی دیر گزری تھی کہ لوگوں میں یہ خبر عام ھوئی کہ حضرت مولانا ناراض ھوکر دروازے سے ھی واپس ھوگئے ، میزبان حضرات بہت پریشان ھوئے دروازے کی طرف دوڑے اور حضرت کو راضی کرنے کی کوشش کی جانے لگی ۔
یہ شخصیت تھی عارف باللہ نمونہ اسلاف حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلوی نور اللہ مرقدہ کی ، ھمارا بھی بچپنا تھا حضرت کی زیارت تو اس سے پہلے بھی ھو چکی تھی لیکن اس کیفیت اور جلال میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا ، آپ نے منتظمین کو سخت سرزنش کی ، اسراف اور غیر ضروری سجاوٹ میں پیسہ خرچ کرنے پر بہت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور جب تک ممکنہ حد تک قابل اعتراض چیزوں کو ھٹایا نہ گیا آپ نے مقام تقریب میں تشریف لاکر نکاح نہ پڑھایا ۔
منصورپور آپ کا بکثرت آنا جانا تھا ، آپ کے نامور فرزند و جانشین حضرت مولانا نور الحسن راشد صاحب کاندھلوی دامت برکاتھم کا نکاح بھی منصورپور میں ھمارے رشتہ کی پھوپھی جناب سید یوسف صاحب علیہ الرحمہ کی صاحبزادی سے ھوا مگر سبق آموز بات یہ ھے کہ منکرات پر بر وقت نکیر کے سلسلہ میں آپ نے کسی طرح کی عزیز داری اور تعلقات کو حائل نہ ھونے دیا اور بغیر کسی رو رعایت کے غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کلمہ حق کو بلند کیا ، یہ وہ صفت ھے جو آج کے دور میں بہت کمی کے ساتھ دیکھنے کو ملتی ھے ۔

علمی استحضار :

فراغت کے بعد چند سالوں تک آپ نے کاندھلہ کی جامع مسجد میں قائم ” مدرسہ نصرت العلوم ” میں تدریسی خدمات انجام دیں مگر اس کے بعد باضابطہ تدریسی خدمات سے آپ کنارہ کش ھوگئے البتہ روزانہ بڑے اھتمام کے ساتھ تفسیر قرآن کریم کا سلسلہ جاری رکھا ، یہ مجلس پہلے شہر کاندھلہ کی جامع مسجد میں بعد نماز فجر ھوا کرتی تھی پھر اخیر سالوں میں اپنے محلہ کی مسجد ھی میں اس کا اھتمام فرماتے تھے آپ کا یہ تفسیری بیان کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ پر مشتمل ھوتا اور بڑے قیمتی نکات اور متعدد کتابوں کے مطالعہ کا خلاصہ اور نچوڑ اس میں پیش کیا جاتا ، ھر ھر آیت پر سیر حاصل کلام فرماتے بعض آیات کی تو تشریح میں کئی کئی روز صرف ھو جاتے ، تقریبا باون سال مسلسل اللہ پاک نے آپ کو اپنے مقدس کلام کی اسی انداز میں خدمت کا موقع فراہم فرمایا ، یہی وجہ تھی کہ آپ کا علمی استحضار غیر معمولی تھا اور حافظہ ایسا کہ لمبی لمبی عربی عبارات آسانی سے پڑھتے چلے جاتے تھے ، خود فرمایا کرتے تھے کہ مجھے چھ ھزار حدیثیں سند ومتن کے ساتھ یاد ھیں اور یہ واقعہ ھے کئی مرتبہ آپ کی مجلس وعظ میں شرکت کا موقعہ ملا تو اسلوب یہ پایا کہ حمد و صلات کے بعد سند کے ساتھ حدیث پڑھتے ، حوالہ ذکر فرماتے پھر راویوں کا مختصر تعارف فرماتے بعد ازاں جو صحابی اس روایت کے ناقل ھوتے ان کی زندگی پر روشنی ڈالتے پھر حدیث پاک کے ھر ھر جزء کی بڑی دلنشیں انداز میں تشریح فرماتے دارالعلوم دیوبند کی جامع رشید میں جلسہ غلہ اسکیم کے موقعہ پر آپ کی بصیرت افروز وقیع علمی اور اصلاحی تقریر آج تک یاد کی جاتی ھے اور آئندہ بھی یاد کی جاتی رھےگی ۔
عملیات میں بھی آپ کو ید طولی حاصل تھا نہ جانے کتنے پریشان حال لوگوں کی زندگیوں میں اللہ پاک نے خوشی کے دئے آپ کے ذریعہ جلوائے ، لا پتہ افراد ، گمشدہ سامان ، آسیب زدہ اور مسحورین کے لئے آپ کے تعویذ بڑے زود اثر ھوا کرتے تھے ، صبح سے شام تک لوگوں کا تانتا بندھا رھتا اور آپ کی ذات سب کے لئے تسلی کا سامان بنتی ۔
آپ علم و عمل کا حسین سنگم اور تقوی و پارسائی میں اپنے پیش رو اکابرین کا حقیقی نمونہ تھے ، بلا امتیاز مذہب و ملت خلق خدا آپ سے فیض یاب ھوتی تھی ، تدَیُّن اور جذبہ اتباع سنت کی بناء پر آپ کو اپنے مرشد کامل حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری نور اللہ مرقدہ کی جانب سے ” صوفی جی ” کا لقب ملا تھا ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب علیہ الرحمہ نے بھی اپنی آپ بیتی میں جا بجا صوفی افتخار کے نام سے آپ کا تذکرہ کیا ھے ۔
سو سالہ عمر طویل اور اس کے ساتھ حسن عمل وہ سعادت ھے جس کے حامل کو زبان رسالت سے خیریت کی بشارت و خوشخبری سنائی گئی ھے ، كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” خيركم من طال عمره و حسن عمله ”
حضرت مولانا مرحوم قریبا ایک صدی پر محیط اپنی ہمہ جہت دینی خدمات کے پیش نظر اس بشارت کے یقینی مصداق ھیں ، باری تعالی آپ کی قبر کو بقعہ نور بنائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔

Comments are closed.