کشمیر میں ایک بار پھرخونی عید

عبدالرافع رسول
حسب سابق کشمیرمیںیہ عیدبھی خونین بنی رہی ۔عیدکے موقع پربھی اخبارمیں بھارتی بربریت جاری رہا۔عید کے موقع پر سفاک بھارتی فوج نے محاصروں اورگھرگھرتلاشیوں کی آڑمیں ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا۔جنوبی کشمیرکے ضلع پلوامہ کے لاسی پورہ علاقے میں حال ہی میں پولیس سے فرار اختیار کرکے مجاہدین کی صفوں میں شامل ہوئے دوایس پی اوزسمیت 4نوجوان شہیدہوئے ۔قابض بھارتی فوج کی 44آر آر، سی آر پی ایف اور ایس او جی سے وابستہ درندہ صفت اہلکاروں نے مشترکہ طور پر پنجرن لاسی پورہ علاقے کا عید کے دوسرے روزجمعرات شام دیر گئے محاصرہ کرلیا اورگھر گھر تلاشی کارروائی شروع کردی ۔قابض بھارتی فوج کی اس جابرانہ کاروائی پرمجاہدین نے ایک مکان میں پوزیشن لیکر مورچہ سنبھالااور قابض فوج کی تلاشی پارٹی پر خودکار ہتھیاروں سے زبردست فائرنگ شروع کی ۔قابض فوج جس کی آج تک یہ روایت رہی ہے کہ سینہ تان کرمجاہدین کامقابلہ کرنے کے بجائے وہ اس مکان پرمارٹرگولے داغ کرزمین بوس کرتے ہیں جہاں مجاہدین مورچہ زن ہوتے ہیں۔اس موقع پربھی یہی بزدلانہ کاروائی کی اورمکان کے اندرکئی گولے داغے جس کے ساتھ ہی مکان میں آگ بھڑک اٹھی اورچندمنٹوں کے اندر دو منزلہ کنکریٹ مکان آہنی گولوں سے مکمل طور پر تباہ ہوا۔ جس کے بعدمکان کے ملبے سے 4مجاہدین کے جسدخاکی برآمدہوئے۔ شہیدہوئے مجاہدین کی شناخت شبیر احمد ڈار ولد ہاشم ڈار ساکن توجن پلوامہ و سلمان احمد خان ولد بشیر احمد خان ساکن اتھمولہ شوپیان جبکہ مفرور ایس پی اوزجنہوں نے اسلحہ سمیت پولیس لائنز سے فرار اختیار کرمجاہدین کی صفوں میں شمولیت اختیارکی تھی کے بشمول عمران احمد بٹ ولد محمد یوسف بٹ ساکن آری ہل پلوامہ اور عاشق حسین گنائی عرف طلحہ ولد عبدالخالق گنائی ساکن پنجرن پلوامہ شامل ہیں۔
اس واقعے کے بعدعلاقے کے نوجوان سڑکوں پر نکل آئے قابض فورسز کیخلاف احتجاجی مظاہرے کرنے کیساتھ ساتھ ان پر کئی اطراف سے پتھرائو کیا۔ مظاہرین نے اس موقعے پر اسلام، آزادی اور مجاہدین کے حق میں زور دار نعرے لگاتے ہوئے معرکہ وقوع پذیرہونے کے مقام کی جانب پیش قدمی شروع کی تاہم قابض بھارتی فورسز اہلکاروں نے مظاہرین پر وحشیانہ تشددکیااورانہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔مجاہدین کے اجساد خاکی کولواحقین کے حوالے کردیا گیا جس کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد کی موجودگی میں انہیں اپنے اپنے متعلقہ علاقوں کو روانہ کیا گیاجہاں انکی تجہیز و تکفین میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کرتے ہوئے انہیں پرنم آنکھوں سے سپرد لحد کیا جس دوران فضا اسلام و آزادی کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔آج عیدکے تیسرے روز اس وقت جب یہ سطورلکھ رہاہوں ضلع بڈگام سے 18سالہ محمدرفیق میربنہ پورہ آری پیتھن بیروہ شہیدجبکہ دوسرے چارنوجوان شدیدزخمی ہونے کی مصدقہ رپورٹ سامنے آرہی ہے ۔جبکہ قابض افواج نے کشمیری نوجوانوں پر پیلٹ گنز سے فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔عید کے روزبھارت مخالف احتجاج کو کچلنے کے لیے قابض افواج نے وادی میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی بند کردی۔
حسب روایت اس عیدکے موقع پربھی مقبوضہ کشمیر کے طول وعرض میں عید الفطر کی نماز کے بعد جذبہ آزادی سے سرشار کشمیری نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اور بھارتی قبضے کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ مظاہرین نے کئی مقامات پربھارتی پرچم جلادیئے اور بھارت مخالف اورآزادی کے حق میں نعرے بلند کیے اورشہدائے کشمیراورشہدائے اسلام کے درجات کی بلندی کے لیے خصوصی دعائیں بھی مانگی گئیںجبکہ شہداء کے مشن کی تکمیل کے لئے عہدکی تجدیدکردی کشمیری مسلمانوں کایہ جرات مندانہ اقدام قابض بھارتی فوج کو ایک آنکھ نہ بھائی اور وہ نمازیوں پر چڑھ دوڑی۔بھارت مخالف اورآزادی کے حق میں نعرے لگانے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، آنسو گیس کی شیلنگ کی اور لاٹھی چارج کیا تاہم جب کشمیریوں کے جذبوں کو دبانے میں ناکام ہوگئے تو پیلٹ گن کی گولیاں برسائیں اور ہوائی فائرنگ کرکے درجنوں کشمیریوں کو زخمی کردیا۔عید کے موقع پرکشمیریوں کی اپنے مشن سے والہانہ محبت سے بوکھلاہٹ کا شکار ہونے والی بھارت نواز کٹھ پتلی انتظامیہ نے نہتے کشمیریوں پر مزید پابندیاں عائد کردیں، جگہ جگہ چیکنگ کے نام عوام کی تذلیل کی جاتی رہی ہے اور عید ملن اجتماعات کے انعقاد میں روڑے اٹکائے جاتے رہے ہیں جس سے بھارت کے سیاہ چہرے سے نقاب اتر گیا ہے۔
ملت اسلامیہ کشمیرنے طویل و صبر آزما جدوجہدمیں جو عظیم قربانیاں پیش کررہے ہیںبے مثال ہیں۔ ظلم و جبراوربربریت کا کوئی ہتھکنڈہ ایسا نہیں جو بھارت نے بے سرو سامان اور نہتے کشمیری مسلمانوں پر نہ آزمایا ہولیکن بھارت کاظلم وتعدی کشمیری مسلمانوں کے دلوں میں کشمیرکازسے ایمانی لگائوکومستحکم اورمضبوط کرتاچلاگیااورآج کشمیرکابچہ بچہ پکاررہاہے کہ ہم تحریک آزادی کشمیر کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔وہ برملایہ اعلان کرتے ہیں کہ ہماری حقیقی اور سچی عید اس وقت ہو گی جب ساری ریاست بھارت کے استعماری تسلط سے آزاد ہو گی اور اس سرزمین سے خلافت اسلامیہ کاڈنکابج اٹھے گا۔
گذشتہ تین عشروں سے کشمیرمیں عیدکی خوشیاں مسلسل ماندپڑی ہیں۔تیس برسوں سے لگاتارعیدکے موقع پربھی کشمیری مسلمانوںکاقتل وخون، مظالم ، محاصرے ،گرفتاریاں کے جھکڑ چل رہے ہیں ،گولیوں تڑتڑاہٹ ، گن گرج ہے اوربارودکی سماعت شکن تڑاخ پٹاخ آوازیںسنائی دے رہی ہیں ۔ دونوں عیدوں پر اہل کشمیرپر نت نئے کرب و ابتلائو ںکے ذریعے گھیرائو ہورہاہے۔عیدکے موقع پرکڑیل ،خوبصورت اورخوب سیرت کشمیری نوجوانوں کے اٹھتے جنازے قلب ناتواں پر آرے چلا رہے ہیں،بھارت تمام اخلاقی، انسانی اور بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر کشمیرکے نہتے مسلمانوں پر گولیوں کی بارش کر رہا ہے، اپنی آوازبلندکرنے کے لئے ان پر تمام راستے مسدود کر دئے گئے ہیں ۔اس ظلم عظیم پردنیاکی خاموشی دیکھ کریہ امرمترشح ہورہاہے کہ انصاف و عدل کی اصطلاحیں بس قانون کی ضخیم کتابوں میں مدفون ہیں ، ناگفتہ بہ قہر سامانیوں کی تاویلیں ہورہی ہیں۔
یہ کوئی سہل اورآسان بات نہیں کہ 30سال ہوئے مظلومین کشمیرکودن کاچین نہ رات کاآرام نصیب ، انکی صبحیںا ورانکی شامیں غم میں ڈوبی ہوئی ہیں، ہجوم در ہجوم آفات وآلام ہرسوانہیں گھیرے ہوئے ہیں، جس طرف نظراٹھاکردیکھیں توجابجامقابر کی قطار، جنازوں کی تکرار، زخمیوں کی بھرمارسے کشمیرمیں انسانیت لاچار ہے، ہر گھر نوحہ خواں ہے اورمسلمانوں کی یہ بستی ویران پڑی ہے ،سرمایہ ملت یعنی نوجوان خزاں کے تند جھونکوں کے نذر ہورہے ہیں۔ ہر کلمہ خواں زخموں سے چوراوررنج و غم سے نڈھال ہے ۔ظالموں کے ظلم سے دشت و بیاباں وحشت زدہ ہیں،انسانی آبادیاںاس پیمانے پہ خون آلودہ ہیںکہ سکون غارت، اطمینان غائب، آرام عنقاہے، دل اجڑے ہوئے ہیں ۔اپنے جائزاورپیدائشی حق کامطالبہ کرنے والوں کی گردنیں زیر تلوارہیں جبکہ جرات ِاظہارصریحاََجرم اور سچ کی پکارمکمل طورپرگناہ عظیم قرارپاچکاہے۔ غرض سرزمین کشمیرپرانسانیت خون آشامیوں میں بے حال ہے اور اس قدر پامال ہے کہ زندگیاں اجیرن بن چکی ہیں۔
امت مسلمہ جسد واحدکی طرح ہے تو باہمی اخوت ، دوسروں کے دکھ درد کے احساس والی روح کے ساتھ زندہ رہنا ہی انسانیت ہے، امت کا ایک حصہ لہو لہان ہو تو پوری امت اس کا درد وکرب محسوس کرے اور باطل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے۔فلسفہ عید یہ ہے کہ یہ باہمی تعلقات کو مستحکم ،اسلامی اخوت ومحبت کو مضبوط ، اور امت کے شیرازے کو متحد کیاجائے ۔ عید یہ پیغام دے رہی ہے کہ عید تنہا خوشیاں منانے کا نام نہیں بلکہ اپنے آس پاس اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو خوشیوں میں شریک کرنا بھی ایمانی تقاضا ہے۔ کتنے مسلمان اغیار کے تعذیب خانوں میں مقید ہیں،سہارے چھیننے سے بچے، بوڑھے اورخواتین سے خوشی اوران کی مسکراہٹ چھین لی گئی ہے، اوروہ یہ دن مظلومیت کے ساتھ گذارہے ہیں۔
اگرچہ عید یہ پیغام دے رہی ہے کہ آزادبستیوں کے مسلمانوں پر اس وقت تک چین وسکون کی نیند حرام ہے جب تک کہ ہر مسلمان آزادی کے ساتھ اسلامی شعائر کا اظہار نہ کر سکتا ہو؟صلاح الدین ایوبی نے تو اس وقت تک نہ ہنسنے کی قسم کھا رکھی تھی جب تک کہ بیت القدس کو آزاد نہ کرایا جائے، اور وہ کہا کرتے تھے کہ وہ شخص کیسے ہنس سکتا ہے جس کی بہنیں کافروں کے رحم وکرم پرہوں؟ اپنی غیرتِ ایمانی اور حمیت دینی کو مہمیز دے کر، مظلوم مسلمانوںکے حوالے سے نہایت ہی حساس رہنا ایمان کا تقاضا ہے ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمان خطوں میں بعض لوگ نشہ اقتدارمیں اس حدتک کافروں کی چاکری کررہے ہیں کہ کھلم کھلا مظلوم مسلمانوں کے بجائے ظالم کافروں کاساتھ دے رہے ہیں۔
مسلمانوں کے آزادخطوںکے لئے عید احتساب وتجدیدِ عہد کا دن ہوتاہے، امہ سے وابستہ مظلوم مسلمانوں اورامت کے ایک ایک فرد کو اپنے جسم کا حصہ سمجھنے کے عہدکی تجدیدکادن ہوتاہے،مظلوم مسلمانوں کی دادرسی اورانہیں اغیارکی غلامی سے نکال کر آزادی دلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کے پختہ عزم کرنے کادن ہے،انکی غلامی اورانکے حالات بدکیسے کافورہوجائیں اس کااحساس پیداکرنے کا دن ہے ۔
چورخت خویش بربستم ازیںخاک
ہمہ گفتند بامن آشنا بود
بنظرغائردیکھاجائے توصاف دکھائی دے رہاہے کہ پوری امہ مسلمہ غلامی کی زندگی جی رہی ہے۔ عید آزاداں شکوہِ ملک و دین کے بجائے پوری امہ کی عیدہجوم مومنین ہے کیوں کہ غلاموں اور مجبوروں کی عید بھی کیا عید ہوتی ہے۔ آزاد قوموں کی عید تب ہوتی ہے جب وہ با وقار ہو اور دین سر بلند ہو۔ آج ہمارا دین کے ساتھ کیا معاملہ ہے اور ہمارے مسلم ممالک کی کیا حالت ہے؟ سب کچھ سامنے ہے ۔اس پس منظرمیں یہ کہنابرمحل ہے کہ ہماری اصل عید تو اس دن ہوگی جب مسلم ممالک کو حقیقی آزادی حاصل ہوگی، ملت اسلامیہ خود مختار ہوگی ، دین سر بلند ہوگا، اور مسلم امہ شریعت اسلامی اور دینی تعلیمات کے ساتھ جڑے ہوں گے۔
Comments are closed.