گرکے سنبھلنا سیکھو!

مفتی شکیل منصور القاسمی

 

انسانی جبلت کا خاصہ ہے کہ وہ "کامیابیوں”سے نہیں، "ناکامیوں "سے سیکھتاہے۔ٹھوکریں کھاکر ہی اس کا شعور پختہ ہوتا ہے۔اگر زندگی میں صرف کامیابیاں،کامرانیاں اور حصولیابیاں ہی ہوں تو سیکھنے اور اخذ نتائج کا عمل رک جائے۔شعوری ارتقاء کا سلسلہ تھم جائے۔دنیا وی (اپنے وسیع تر معنی و مفہوم میں ) اور دینی اعتبار سے جو بھی بنا ہے، یا بام عروج تک پہونچا ہے وہ اپنی ذاتی محنت اور شخصی جد و جہد سے بنا ہے۔تاریخ کے اہم اہم شخصیتوں کو بنانے اور سنوارنے میں اہم بنیاد ذاتی محنت، اسکی فکر ولگن،مقصد کا دھن،اور اسکی تڑپ تھی۔۔اسکے بغیر، نہ کوئ نابغہ روزگار،عبقری استاذ آپکو کچھ بنا سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئ مشہور وممتاز ادارہ۔۔۔۔۔

ایشیاء کے معیاری دینی ،تعلیمی ادارہ،اور مثالی تربیت گاہ،مادر علمی دارالعلوم دیو بند میں ان دنوں جدید طلبہ کا داخلہ امتحان جاری ہے۔مرحلہ وار نتائج امتحان بھی آرہے ہیں۔دارالعلوم اپنے معیاری ضابطہ کے تحت انتھائ لائق و فائق امیدواروں کے ذریعہ ہر جماعت کا متعینہ کوٹہ پر کرتا ہے،اور صرف وہی طلبہ داخلہ کے اہل قرار پاتے ہیں،بقیہ طلبہ چھنٹ جاتے ہیں۔

ایسے ناکام طلبہ بڑے ہی جذباتی ہوجاتے ہیں۔بعض طلبہ ہمت شکستہ،اور حوصلہ مردہ ہو کے بالکل مایوس ہوجاتے۔

ایسے بھائیوں سے میں کہتا ہوں کہ

ناکامی ہی کامیابی کا پہلا زینہ ہوا کرتی ہے۔دنیا میں کون ہے جو ناکام نہیں ہوا؟ علمی تاریخ میں ایسے انگنت افراد ملتے ہیں،جنہیں دور طالب علمی میں کند ذہن،سست،کاہل

نکمہ ترین،بدھو ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا۔لیکن ان طعنوں کی وجہ سے وہ ہمت ہار کے بیٹھ نہیں گئے! بل کہ بلند ہمتی، جفاکشی،نئے دم وخم کے ساتھ عشق مقصد میں مگن رہے۔اور ازسر نو جد و جہد کا راستہ اختیار کیا تو نابغہ روزگار بن گئے۔

کیا کوئ سوچ سکتا تھا کہ موطا امام مالک کے امتحان میں فیل ہو جانے والا شخص کبھی اسی موطا کی "اوجز المسالک”نامی عربی زبان میں ایسی شرح رقم کرےگا جسکو پڑھ کے عرب کے مالکی علماء بھی سر دھنتے ہیں! اتنا بڑا کام ایک آدمی نہیں،اکاڈمی سے عادتا انجام پاتا ہے۔لیکن عزم و ہمت،شوق ومحنت کے پیکرمجسم نےاکیلے کرکے دکھادیا۔

کیا خوب کہاہے،کہنے والے نے :

ملےگا منزل مقصود کا اسی کو سراغ

اندھیری شب میں ہو چیتے کی آنکھ جسکا چراغ۔

عزم کو جواں رکھئے۔سعی و کوشش پیہم رواں رکھیے۔عشق مقصد کی لو مدھم نہ ہونے دیجئے۔صبر طلب محنت،اور تمنا بے تاب کے سامنے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔

سچ کہا ہے کسی نے :

لگ جاتی ہے رہ زیست میں ٹھوکر اکثر

تم گر بھی پڑو گر کے سنبھلنا سیکھو۔

دل چھوڑ نہ دینا ہو اگر وقت برا

تم وقت کے دھاڑے کو بدلنا سیکھو!

 

ہاتھ اٹھاکر سرنڈر نہ کر جائیے۔طبع آزمائ کرتے رہیئے۔محنت کرنے والا ہی بامراد ہوتا ہے۔

Comments are closed.