اگر کانگریس چاہتی تو….!

شہاب مرزا
2019 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کی عوام نواز حکمت عملی اور سیکولر پالیسی کے پیچھے چھپے مفاد پرستانہ گھناونے چہرے کو پوری طرح بے نقاب کر دیا سارا ملک اس بات کا خواب دیکھ رہا تھا کہ اب کی بار کانگریس ممتا بنرجی، چندرابابونائیڈو، فاروق عبداللہ، اروند کیجریوال، اکھلیش یادو ، مایاوتی ، نوین پٹنائک، شرد پوار، پرکاش امبیڈکر، لالو پرساد یادو، جگن موہن ریڈی وغیرہ کے ساتھ اتحاد کریں گی، اور ایسے امیدواروں کو میدان میں لائیں گی جن کا تعلق راست عوام سے ہے انہیں ٹکٹ دیں گے ح حتاکہ بی جے پی اور این ڈی اے اتحاد 220 سیٹوں کے دائرے کے اندر سیمٹ کر رہ جایینگی اور کانگریس اپنی حکومت قائم کریں گے سب طرف گور کشکوں کو اور ان جیسے فاشسٹ لوگوں کو شکست فاش ہو گئی مظلوم خودکشی کرنے والے کاشتکاروں کی بیواؤں کو انصاف ملے گا اور ہر غریب کے بینک اکاؤنٹ میں سالانہ 72 ہزار روپے کی رقم آیینگی مسلمانوں کو کٹھوا اور دادری جیسے حالات سے نجات ملیں گی یہاں تک کہ مسلمانوں کی عیدالفطر شان و شوکت سے منائی جائے گی لیکن افسوس مسلمانوں کو عید کا چاند لہولہان رہا اور کانگریس کے مفاد پرستانہ چہرے سے پردہ اٹھ گیا
کاش کانگریس پارٹی سیٹوں کے بٹوارے اپنی شاہانہ اپوزیشن اور حکمرانی کے غرور و گھمنڈ کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مفادات ملک کے130 کروڑ عوام پر سرمایہ دارانہ استعماریت کے ظالمانہ چنگل سے آزاد کراتی تو اس ملک کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا اور تاریخ میں بھی یہ باب سنہری سیاہی سے لکھا جاتا کہ یہ وہی کانگریس ہے جس کے چمن کو مولانا ابوالکلام آزاد اور پنڈت نہرو نے اپنے خون سے سینچا ہے ناکہ یہ کانگریس سردار ولببھ بھائ پٹیل کی پارٹی ہے جس نے ملک کو ہندوتواد اور فاشزم کے قدموں میں لے جاکر فرمان کیا ہے
کیونکہ تنہا مہاراشٹر میں بیرسٹراسدالدین اویسی کی مجلسی تحاد المسلمین سے کانگریس نے اتحاد سے پرہیز کیا فرقہ پرست پارٹی ہیں جبکہ منموہن سنگھ کے قیادت والی یو پی اے حکومت میں مجلس اتحادی پارٹیوں میں شامل تھی کانگریس یہ وعدہ بھی سر سے فراموش کیا کہ جب ونچیت اگھاڑی کے پرکاش امبیڈکر اگر اکولہ سے انتخاب میں حصہ لیتے ہے تو ان کے مقابل میدان میں کانگریس امید وار نہیں کھڑا کریں گی جس کانگریس کے مہاراشٹر میں دو سیٹوں کے اوقات نہیں تھی وہ ونچیت اگھاڑی اتحاد کو صرف اور صرف دو یا چار سیٹ دینے کی بات کر رہی تھی آخر کار مجلس ونچیت اتحاد کو مہاراشٹر میں بیالیس لاکھ ووٹ حاصل کیےجس کی وجہ سے کانگریس این سی پی اتحاد کے تقریبا 30 سیٹوں کا نقصان ہوا اور نتیجے میں خود کانگریس کو ایسی منہ کی کھانی پڑی کہ وہ دو سے ایک سیٹ پر سمٹ کر رہ گئی جسکا سیدھا فائدہ شیوسینا اور بی جے پی کو پہنچا عین اسی طرح ملک کی سب سے بڑی ریاست یو پی میں بھی کانگریس پارٹی یہی مغرورانہ رویش اختیار کرتے ہوئے ایس پی، بی ایس پی اتحاد کے ساتھ اچھوتے پن کا مظاہرہ کیا اور ووٹوں کو تقسیم کرتے ہوئے بی جے پی کو 10 سیٹوں کے بجائے 70 سیٹوں پر کامیابی دلائی دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یوپی جیسی ریاست جو ملک کی وزارت عظمیٰ کا دروازہ سمجھی جاتی ہے اس ریاست میں اس پی پی ایس پی کے مقابلے میں پوری جان توڑ محنت لگائیاور اسی کے ساتھ تاریخ نے یہ دن بھی دیکھے کہ بی جے پی کی لاڈلی بہو کے مقابلے میں کانگریس کے کنوارے شیوبھکت راہل گاندھی کے ماتھے سے سوہاگ کا سیندور مٹ گیا علاوہ ازیں دہلی ریاست میں بھی بد نام زمانہ سینئر کانگریسی لیڈر شیلادکشت کی ایما پر کانگریس نے ارویندکیجریوال سے کنارہ کشی کرلی جس کی وجہ سے دہلی کی ساتوں سیٹوں پر بھی بی جے پی کو فائدہ پہنچا اور اسی طرح ہریانہ میں بھی بی جے پی کی جھولی میں 20 سیٹ ڈال دیے سیاست کا ایک دوسرا رخ یہ بھی چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ممتا بنرجی کے ساتھ دوستی کے پیٹھ میں کانگریس نے چھرا گھونپ دیااور بی جی پی کو پندرہ سیٹوں کا فائدہ کروایا رہی بات ملک کی دیگر ریاستوں کی تو کانگریس نے جان بوجھ کر یا خصدا ایسے امیدوار کو میدان میں اتارا جن کا ضمانت ضبط ہونے کے علاوہ کوئی نتیجہ برآمد ہونے کا امکان معدوم تھااس طرح سے کانگریس نے بی جے پی کے جملہ 250 سیٹوں کا فائدہ کروایا اور دوبارہ عوام کو پانچ سالوں کے لئے فاشزم کایرغمال بنا کر اپنے آپ کو بی جے پی کی بی ٹیم ہونے کا ثبوت دیا۔
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

Comments are closed.