Baseerat Online News Portal

عظیم قائد و رہنما ڈاکٹر حافظ محمد مرسی رحمۃ اللہ علیہ

عبدالمالک بلندشہری

 

ممتاز قائد و رہنما ، اخوان المسلمین کے عظیم لیڈر سابق صدر جمہوریہ مصر حافظ ڈاکٹر مرسی رح کا کل حادثہ شہادت پیش آیا ، تمام انصاف پسند طبقہ نے اس حادثہ کو شدت سے محسوس کیا اور اپنے اپنے طریقہ سے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا. ۔۔یقینا یہ ایک دلدوز سانحہ تھا جس سے انسانیت نواز طبقہ چیخ اٹھا ۔۔۔صہیونی ہرکاروں اور ابلیسی دستوں نے ڈاکٹر مرسی رح پر جو ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے ، انہیں جس طرح سے طویل عرصہ تک پس زنداں رکھا اور ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی یہ ایک طویل تکلیف دہ داستان ہے ۔۔۔بلا شبہ ڈاکٹر مرسی رح کی پوری زندگی استقامت و مستقل مزاجی سے عبارت ہے اور ان کی حیات کتاب عزیمت کا ایک تابناک باب ہے ۔۔۔ان کی انہی قربانیوں کے پیش نظر ایک بڑے طبقہ نے ان کی رحلت کو عالم اسلام کا بڑا خسارہ سمجھا ۔۔۔۔۔جگہ جگہ ایصال ثواب کی محفلیں منعقد کی گئیں ، تعزیتی نشستوں کا انعقاد عمل میں لایا گیا اور غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی ۔۔۔مصر، ترکی قطر وغیرہ میں اہتمام سے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی ۔۔ہندوستان کے ایک معروف عالم دین و محدث نے بھی اپنے قلبی حزن کا اظہار کیا اور تعزیتی کلمات ادا کئے نیز ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی ۔۔۔ان کے اس عمل سے منافرت و عداوت پھیلانے والے طبقہ کو نیا شوشہ مل گیا اور انتہائی غلیظ الفاظ و متعفن لب ولہجہ میں مذکورہ عالم کے اس عمل کو ناجائز اور غلط بتاتے ہوئے ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔۔۔اس سے پہلے بھی یہ متعصب ٹولہ ان کے خلاف طعن و تشنیع کے زہر آلود تیر برساتا رہا ہے ، آداب اختلاف سے ناآشنا یہ شدت پسند طبقہ ہر موقع پر ان کے خلاف محاذ قائم کرتا ہوا نظر آیا ۔۔یہ حقیقیت ہے کہ ان عالم دین کے بعض مسائل سے علمائے حق نے سخت اختلاف کیا اور خود ان کے متبعین و محبین نے بھی حق کا ساتھ دیتے ہوئے ان سے اختلاف کیا اور ان کے موقف کی تغلیط کی ۔۔ یہ ایک حقیقیت ہے کہ نا تو کسی کی تمام باتوں سے اتفاق کیا جاسکتا ہے اور نا ہی ہر کسی کی ہر بات قابل اتفاق ہوتی ہے لیکن ہمیشہ اتفاق و اختلاف کی صورت میں حسن عمل اور اعتدال و توازن کو برقرار رکھنا چاہئے ۔۔۔اگر چہ بعض اہل علم نے بھی صلاة الجنازة علی الغائب کے عدم جواز کا مسئلہ انتہائی معیاری زبان اور علمی انداز میں واضح کیا اور ان کے طرز القا کو ہر طبقہ نے یکساں طور پر پسند کیا ۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز جنازہ غائبانہ احناف و امام مالک کے نزدیک غیر مشروع ہے جب کہ شوافع و احمد کے نزدیک جائز ہے ۔۔دونوں طبقہ کے ائمہ نجاشی رض والے واقعہ سے استدلال کرتے ہیں ۔۔اسی وجہ سے علمائے احناف غائبانہ نماز جنازہ کے قائل نہیں ۔۔لیکن بعض متبحر علماء جن کی قرآن و حدیث و مسالک اربعہ پر عمیق نظر ہوتی ہے وہ ہر دور میں بعض مسائل پر ایک مسلک کے متبع و مقلد ہونے کے باوجود دوسرے مسلک کے موقف پر عمل پیرا نظر آتے ہیں اور اپنے اس عمل کے باوجود تمام علمائے حق کے نزدیک عظمت و احترام کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں ۔۔۔ماضی میں حنفی مسلک کے ایک اہم ستون، امام اعظم رح کے تلمیذ رشید امام زفر رح بعض مسائل میں شافعیت کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اسی طرح ہندوستان کے مشہور ادارہ دارالعلوم دیوبند کے عظیم المرتبت محدث، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ باوجود حنفی ہونے کے جماعت تہجد کے پابند رہے اور آخری دور تک انہیں اس پر شرح صدر رہا ۔۔آج بھی ان کے متعلقین اسی مسئلہ کو اپنائے ہوئے ہیں ۔۔اسی طرح عالم اسلام کے جلیل القدر محدث ، شیخ الحدیث مظاہرعلوم سہارنپور ، مولانا محمد یونس جونپوری رح مسلک حنفیت کے پیروکار ہونے کے باوجود رفع یدین کے قائل رہے اور اہتمام سے یدین بھی رفع کرتے تھے ۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی محدثین ہیں جو ایک مسلک کے متبع ہونے کے باوجود دوسرے مسلک پر عمل کرتے تھے اور یہ ان کے لئے جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن تھا ۔۔۔مطلق تقلید کا حکم عام سطح کے لوگوں کے لئے ہے ، جن کی نظر قرآن و حدیث پر گہری نہیں ہوتی انہیں ایک ہی مسلک پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن جو عالم دین متبحر ہو اور حدیث و اصول حدیث پر بھی گہری نظر رکھتا ہو اس کے لئے تحقیق و تفتیش کے بعد دوسرے مسلک پر عمل کرنا ممنوع نہیں ہے ۔۔کیونکہ کم علم آدمی محض اتباع ھوی کی وجہ سے دوسرے مسلک پر عمل کرے گا جب کہ متبحر عالم دیانت و اخلاص اور عمیق مطالعہ کی بناء پر دوسرا طریقہ اختیار کرے گا ۔۔ابھی کچھ سال قبل کاندھلہ میں ایک جنازہ کی نماز پڑھاتے ہوئےامیر تبلیغ جماعت مولانا سعد کاندھلوی مدظلہ نے رفع یدین کیا جس سے مخالفین و معترضین کو زبردست اختلاف رہا اور انہوں نے اپنی دیرینہ عادت کے مطابق ان کے اس عمل کو ناجائز اور حرام تک بتایا ۔۔۔۔۔۔اب یہی کام مولانا سلمان حسینی کے اس موقف پر ہورہا ہے ۔۔۔حالانکہ اس پر اعتراض کرنے والے اکثر و بیشتر کم فہم اور ناسمجھ ہیں ۔۔جن کا مطالعہ وسیع ہوگا وہ اس موضوع پر لب کشائی کوعبث خیال کرے گا ۔۔لیکن افسوس جنہوں نے فقہ کی دو تین کتابیں ہی پڑھی ہیں وہ بمچخ مچا کر پوری فضا مکدر کئے ہوئے ہیں ۔۔حالانکہ انہیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ایک کم علم آدمی اگر ایسا کرے تو اسے روکا جائے گا لیکن جس کی قرآن حدیث پر گہری نظر ہو اس کو روکنا ، اس کے عمل کی تغلیط کرنا ، اس پر مفادپرستی و مادیت پسندی کا الزام لگانا سخت بیوقوفی اور نادانی کی بات ہے ۔۔۔علمائے احناف کا ایک بڑا طبقہ شروع سے بعض مسائل میں دوسرے مسلک کی اتباع کرتا رہا ہے اور ہنوز یہ عمل جاری ہے ۔۔۔اگر یہ معترضین اپنے قول میں سچے ہوتے اور متعصب ٹولہ واقعتا علماء کے اس عمل کو غلط سمجھتا تو یقینا وہ دیگر علماء پر بھی اعتراضات کرتا ، ان کے خلاف بھی وہی زبان استعمال کرتا جو وہ مولانا سلمان حسینی کے خلاف کررہا ہے مگر چونکہ اپنوں کی خامی بھی درست لگتی ہے اور دوسروں کی درست چیز بھی غلط نظر آتی ہے ۔۔۔اس لئے اس موقع پر جنازہ کا مسئلہ اس شدت کے ساتھ صرف اس وجہ سے اٹھایا گیا ہے کہ اس کا تعلق بلا واسطہ مولانا سلمان حسینی سے ہے ۔۔بس متعصب ٹولہ کے لئے یہی کافی ہے ۔۔اس نے طوفان بدتمیزی مچانا شروع کردیا ۔۔۔حالانکہ اس وقت تمام علمی و سیاسی برادری اور انسانیت نواز و حق پسند طبقہ رنجیدہ و ملول ہے ۔۔ڈاکٹر رح کی شہادت کا دن بعض اسباب و وجوہات کی بناء پر یوم الحزن ہے ۔۔اس موقع پر زبردست اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر محلہ ، ہر علاقہ اور ہر ملک میں ڈاکٹر مرحوم کے متعلق تعزیتی نشست منعقد کی جائیں اور ان کے پیغام و درس و مشن کو عام کیا جائے تاکہ انسانیت دشمن و صہیونی دستوں کو حق پسندوں کی قوت ، طاقت ، اتحاد ، دبدبہ اور شوکت کا علم ہو جس سے ان کے اندر تک ڈر و خوف سرایت کرجائے اور ان کے دلوں میں ایمانی اتحاد سے وہ کاری زخم لگے جس سے وہ بلبلا اٹھیں ۔۔۔۔۔۔۔رحمہ اللہ کان رجلا صالحا

Comments are closed.