Baseerat Online News Portal

فیصلہ عرش سے آئے گا!

مریم خالد

قرآن میں ایک ہی جیل کا ذکر ہے، مصر کی جیل کا! اس جیل کا قیدی بھی بےگناہ تھا اور یہ بات اسے سزا سنانے والے بھی جانتے تھے۔ اسے جیل صرف بےضمیر حکمرانوں کا جرم چھپانے کے لیے بھیجا گیا۔ برسوں بعد__نیل کے چھلکتے کناروں کی اس سرزمین میں پھر وہی منظر فلک نے دیکھا تھا۔ آج زنداں میں یوسفؑ نہیں مرسی آیا تھا۔ اس نے سلاخوں کو تھاما اور اپنی بارعب آواز میں پکارا، "قرآن چاہیے۔” "نہیں ملتا تمہیں قرآن۔ خاموش رہو!” کھٹاک سے جواب آیا۔ اس کا دل تڑپ سا گیا، "یہ مجھے قرآن نہیں دیتے۔ قرآن تو میرے سینے میں محفوظ ہے، میں تو صرف اسے چومنا چاہتا تھا۔”

زندگی آسان کب ہے؟ آسان کس کی ہے؟ اسے وہ دن یاد آئے جب وہ قاہرہ یونیورسٹی میں انجینئرنگ کا طالبعلم تھا۔ گریجوایشن کے بعد اس نے اسی یونیورسٹی میں میٹالرجی انجینیئرنگ میں ماسٹرز کیا اور پھر حکومتی سکالرشپ پہ امریکہ میں ساؤتھ کیلیفورنیا یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے چل دیا۔ پی ایچ ڈی کے بعد اسی یونیورسٹی میں وہ بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات سرانجام دینے لگا جہاں وہ امریکی خلائی ادارے ناسا کی اسپیس شٹل انجن کی ڈویلپمنٹ میں مدد فراہم کیا کرتا۔

فضا میں سختی بھی تھی، درشتی بھی۔ ٹھنڈی سلاخیں اور زندان کا حبس__گھربار سے دور، وہ کہاں آ نکلا تھا؟ کہاں امریکہ میں ناسا میں تحقیق کرتا سائنسدان اور کہاں جیل کا تنہا قیدی۔ وہ کیوں آیا ادھر؟ کیسے آیا؟ نیل کی سرزمین نے خون کے کتنے ہی نیل دیکھے تھے، وہ دریا جو بےساحل تھے، بےکنارا تھے۔ آہوں اور سسکیوں نے لہروں کو تھرایا تھا۔ دھرتی کی اوپر کی سطح پلٹو تو کتنے ہی لاشے تھے جو انتقام کے لیے پکارتے تھے۔ عہدِ فرعونیت سے لے کر جمال عبدالناصر اور حسنی مبارک تک مصر کی سرزمین پہ آتش و آہن کے، خوف و دہشت کے سائے تھے۔ تب اس مردِ آزاد نے فیصلہ کیا تھا وادئ نیل میں موسیٰ بن کے جینے کا۔ ہاں، جہاں مظلوم انسانیت عدل و انصاف کے لیے ترستی ہو وہاں ستاروں پہ کمندیں ڈال بھی لیں تو کیا حاصل؟ قرآن تو نام ہے امن و عدل کے اک نظام کا جس کے سائے میں ہر مضطرب جاں راحت پائے۔

مرسی نے تب عزیمتوں کا راستہ چنا اور نوکِ خار پہ قدم رکھ دیا۔ وہ اخوان المسلمون میں شامل ہوا اور ﷲ کی زمین میں ﷲ کی حاکمیت قائم کرنے کی جدوجہد کے لیے اپنا وقت اور قوت وقف کر دی۔

فضا میں گھٹن بڑھ رہی تھی۔ تنہائی بلا کی تھی۔ ٹھنڈے فرش اور ٹھنڈی سلاخوں نے ماحول جما رکھا تھا۔ اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور اسے وہ دن یاد آئے جب ١٩٨٥ میں مصر واپس آیا تھا اور زقازق یونیورسٹی میں بطور پروفیسر ٢٠١٠ تک خدمات سرانجام دیتا رہا۔

۲۰۰۰ میں وہ مصری پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا اور ۲۰۱۲ کے عام انتخابات میں مصر کا صدر منتخب ہو گیا۔ جی ہاں، مصر کی ۵۰۰۰ سالہ تاریخ میں پہلا منتخب حکمران۔ تاریخ نے حیرت سے آنکھ کھول کر اسے دیکھا تھا۔ اس نے مصری اکانومی کی بحالی، نظام تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور بیروزگاری کے خاتمے کے لئے تیزی سے اقدامات کئے- اس کے ساتھ ساتھ اس نے مصر میں نئی آئین سازی کا کام کیا تاکہ ادارے اپنا اپنا کام اپنے دائرۂ کار میں سرانجام دے کر ملک کو آگے بڑھا سکیں۔

ہواؤں نے پہلی بار ایسا جی دار، بارعب ترین حکمران دیکھا تھا۔ وہ جہاں گیا، سکے بٹھا گیا۔ جو کام کیا، نرالا کیا۔ تقریر کے دوران کسی نے کہا، اذان کا وقت ہو گیا ہے تو خود اذان دی۔ مجاہد کی اذان! اقوامِ متحدہ گیا تو آغاز میں ہی ببانگ دہل اعلان کر دیا، "عزت ہو گی تو مصطفیٰ صلی ﷲ علیہ وسلم کی عزت کے بعد! جو ان کی عزت نہ کرے گا، اس سے دشمنی ہو گی!”

اس نے ڈنکے کی چوٹ پہ اسرائیل کو غاصب اور قابض کہا اور خم ٹھونک کر کہہ دیا، "ہم سب بیت المقدس جائیں گے اور غزہ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے!”

الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے وقتِ نماز آیا تو پروگرام روکنے کی درخواست کی اور خود سٹوڈیو میں امامت کروائی۔

خشک ہوا میں ویرانیاں سرسراتی تھیں۔ مختصر سی بیرک میں آج وہ وجود قید کر دیا گیا تھا جس نے عالمی ذہن کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔ اسرائیلی حکومت یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ اسے تسلیم نہ کرنے والے کے نیچے سے کرسئ اقتدار کھینچ لی جائے۔ مصری فوج اور عدلیہ بغاوت کر کے تختہ الٹنے کے منصوبے مکمل کرچکی تھی۔ اور پھر__کنارِ نیل چھا گئی پھر ایک بار شامِ غم! پھر ایک کارواں لٹا! نیل کا دامن لہورنگ ہوا۔ ہزاروں لوگ گولیوں سے بھونے گئے۔ قاہرہ کی سڑکیں لہو سے دھوئی گئیں۔ تحریر سکوئر پہ وحشت و بربریت کے خونیں باب لکھے گئے۔ اخوان کی قیادت آتش و آہن سے، دار و رسن سے ملکِ عدم بھیج دی گئی، جو بچے ان سے درِ زنداں سجائے گئے۔

چھ سال قید میں گزارنے کے بعد، کئی بار سزائے موت کی سزا سنائے جانے کے بعد ۱۷ جون ۲۰۱۹ کو کمرۂ عدالت سے اس بطلِ عظیم کی روح بلند ہو گئی جس نے کبھی امریکہ میں خلا کے شٹل انجن بنائے تھے۔ آج وہ شیر رخصت ہوا کہ زندان میں بھی جس کی لہجے کی گرج گیدڑوں کے کلیجے چیر دیتی تھی۔

مرسی کے بیٹے اور وکیل سمیت فقط تین لوگوں نے جیل میں جنازہ پڑھ کر اس شخص کو دفنا دیا ہے جس کے غم میں آج القدس بھی رویا ہے۔ اقصیٰ میں ہوائیں سسکی ہیں۔ ہند سے لے کر شام اور ترکی کی فضاؤں میں نمی چھائی ہوئی ہے۔ زمین بھرائی ہوئی ہے۔

ٹھنڈی سلاخیں یاد رکھیں گی اس بطلِ حریت کو جو اپنے دہکتے لہو سے انہیں حدت عطا کر گیا۔

اقوامِ متحدہ کے در و بام عزت کا وہ معیار یاد رکھیں گے جس کا حافظ مرسی نے گرجدار آواز میں اعلان کیا تھا۔

نیل کے کناروں سے لاکھوں مرسی نکل کر ستونِ دار پہ سروں کے چراغ رکھتے رہیں گے جب تک کہ عہدِ فرعونیت کی سیاہ رات صبحِ روشن میں بدل نہیں جاتی!

Comments are closed.