Baseerat Online News Portal

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی : ذمہ دار کون؟

فیروزہاشمی

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی-ذمہ دار ہم؟ کیوں کہ ہم ذہنی طور پر پسماندہ ہیں۔ ہم ذہنی طور پر پسماندہ کیوں اور کیسے ہوئے؟ حالانکہ ہمیں مالک حقیقی نے بہتر شکل و صورت، جسم و شباہت، ذہن و دماغ، ضروریاتِ زندگی وغیرہ سب کچھ فراہم کیا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ

کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ فَاَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِهٖ اَوْ یُنَصِّرَانِهٖ اَو یُمَجِّسَانِهٖ (بخاری ومسلم)

ہر بچہ فطرتِ پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اسے یہودی و عیسائی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔

یہاں فطرت سے مراد فطرت اسلام ہے۔ ظاہر ہے جو جس مذہب کا ہوگا وہ اپنے بچوں کو ویسی ہی تربیت کرے گا۔ ہمارے اکابرین اب دولت پرست اور عیش پرست ہو گئے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنی اولاد کوبھی اُسی جانب رغبت دلاتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر ہماری نسلیں صرف پیسہ پرست بنی ہیں۔ خود وہ لوگ جنہوں نے دین کے پھیلانے اور فروغ دینے کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے، اُن کی اکثریت کا بھی دولت حاصل کرنا اوّلین نشانہ ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے اُن اداروں کے فارغین بھی ویسا ہی چاہتے اور کرتے ہیں۔ یعنی ہماری زندگی پر سب بڑا اور پہلا اثر سوچ کا ہے۔ ہماری سوچ کا جو معیار ہوگا وہی ہماری ترقی یا پسماندگی کا سبب ہوگا۔

ہماری سوچ کا پہلا اثر ہمارے اخلاق و کردار پر ہوگا۔ یہ بہت بڑی بات ہے اور تفصیل طلب ہے لیکن بے شمار مثالیں آپ معاشرے میں خود مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ وہ اُن کے ساتھ غیر برابری کا رویہ رکھتی ہے۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے جو اور جہاں سہولیات دستیاب نہیں ہیں، وہ اپنی جگہ ایک منفرد بحث ہے۔ وہ اپنے طریقے کے مطابق کرے گی جلد یا بدیر۔ لیکن جہاں اور جو سہولتیں ہمیں مہیا ہیں کیا ہم اُن کا صحیح طریقے سے استعمال کرتے ہیں؟ آئے دن اخباروں میں مسلم علاقوں کی پسماندگی کی جو خبریں شائع ہوتی ہیں کیا اُس پریشانی کے لئے صرف حکومت ذمہ دار ہے؟ ذرا غور کریں مسلم علاقوں میں جو سرکاری اسکول موجود ہیں، کیا وہ حقیقی معنوں میں اسکول جیسے لگتے ہیں۔ ہم نے دہلی کے بہت سارے سرکاری اسکولوں کو دیکھا لیکن جو خالص مسلم علاقوں میں ہے وہاں جاکر آپ خود مشاہدہ کریں کہ اگر وہ اسکول کسی اہم سڑک یا گلی میں واقع ہے تو اس کی دیوار کے سہارے زمینوں پر عام لوگوں کا قبضہ ہے۔ یا تو گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے استعمال ہو رہا ہوگا یاریڑی پٹری پر دکانیں لگی ہوں گی۔ یہاں تک کہ جو صدر دروازہ ہوگا وہ بھی مختصراً چار یا پانچ فٹ چوڑا ہوگا، جو ڈھونڈنے کے بعد ملے گا۔ اگر گارجین کو ملنے جانا ہوتاہے تو وہ کن حالات سے گزرتا ہے یہ بتانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ یہ بات اُن سے ہی پوچھ لیا جائے کہ تم پر کیا گزری؟ اور تم اسکول کا معیار کیسا چاہتے ہو؟ اسکول کی دیواروں کے سہارے غلط طریقے سے رہائش، پارکنگ، کوڑا کرکٹ ، ملبہ،قضائے حاجت کے لئے استعمال کرنا، کیا اسکول کے ماحول اور آب و ہوا پر اس کا اثر نہیں پڑے گا؟ کیا یہ اخلاقی معیار کو متأثر نہیں کرے گا؟تعلیمی اداروں سے متعلق و علی ہذاالقیاس اس طرح کی بے شمار منفی مثالیں مل جائیں گی۔

اب آئیں دوسرے نمبر پر: رفاہی ادارے۔ ہمارے یہاں رفاہی اداروں کی بھی کمی نہیں ہے۔ ہم دہلی کے ایک ایسے علاقے سے روزانہ گزرتے ہیں جہاں ہر سو میٹر پر ایک رفاہی ادارہ رجسٹرڈ ہے۔ چند ایک کو میں نے جاننے کی کوشش کی، اندر جاکر دیکھا تو عجیب سی کسم پرسی کا عالم پایا۔ یہ ادارہ بیٹھے بٹھائے کمائی کا بہتر ذریعہ ہے۔ ایک بار محنت کرنی پڑتی ہے پھر سلسلہ چل پڑتا ہے آمدنی کا۔ اس کا مصرف کیا ہے؟ وہ کس کے لئے رفاہ کا کام کرتے ہیں؟ اس کے لئے وہ سال کے دو تین مہینے ایسے ہیں جن میں لوگ جان جاتے ہیں کہ اس ادارے میں مسلمانوں کی فلاح کے لئے کام کیا جاتا ہے۔ مثلاً رمضان، عید اور بقرعید یہ تین مہینے تو اُن کے لئے کمائی کا بہتر ذریعہ ہے اور عوام سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا بھی۔ ان مہینوں میں یہ افطار کٹ، عیدی اور بقرعیدی کرکے وہ اچھا خاصا نام کما لیتے ہیں اور دولت مندوں سے اچھا خاصا تعاون زکوٰة و خیرات کے مد میں وصول ہو جاتا ہے۔ وصولیابی کا تو آپ کو پتا نہیں چلے گا ہاں خرچہ کا اندازہ آپ کو ان تینوں مواقع پر اخباروں اور انٹرنیٹ پر شائع شدہ خبروں، رپورٹوں اورتصاویر کے ذریعہ ہو جائے گا۔ کچھ مواقع اور ہیں جیسے سردیوں میں لحاف، کمبل، گرم کپڑے وغیرہ کے نام پر۔ اس کے علاوہ ناگہانی آفات جس کا ہمیں پتا نہیں ہوتا، یہ کبھی بھی اور کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے لیکن بازآبادکاری کے نام پر چند دنوں کا سامان۔ خواہ سیلاب، آگ، پانی یا طوفان۔ آدھی سردی نکل جائے گی تو لحاف اور کمبل جمع کرنے اور تقسیم کرنے کے لئے اخباروں میں اشتہار دیئے جائیں گے۔ رمضان المبارک میں دھکم پیل افطار کٹ بانٹیں جائیں گے۔ اُن اشیاءکی تقسیم کے لئے عموماً ٹوکن بنائے جاتے ہیں، یہ ٹوکن زیادہ تر اُن اداروں میں کام کرنے والے کارندوں کے ہاتھوں تقسیم کرائے جاتے ہیں کہ بھائی فلاں دن فلاں جگہ یہ چیز تقسیم کی جائے گی، جاکر لے لینا، جو وہ زیادہ تر اپنے جاننے والے یا رشتہ داروں کو دیتے ہیں بلا لحاظ کہ وہ شخص واقعی اس چیز کو لینے کا مستحق ہے؟ دوسرا اہم پہلو یہ کہ جن ناداروں کو اس طرح کی امداد دی جاتی ہے انہیں کیوں نہیں اہل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے؟ ہمیشہ ہی ایسے لوگوں کی قطار لگتی ہے اور انہیں جزوقتی کھانا کپڑا وغیرہ کا بندوبست کر دیا جاتا ہے جبکہ وہ پھر اپنی وہی پرانی حالت میں ہو جاتے ہیں۔ ضرورت مند ایسے بھی ہیں جن کے گارجین کی اتنی آمدنی نہیں کہ وہ اپنے ہونہار بچوں کی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

شاید ہی کسی ادارے کے پاس یہ فہرست ہوگی کہ فلاں علاقے میں ادارہ یہ کام کر رہا ہے۔ اسے وہاں رہنے والے ضرورت مندوں کی صحیح تعداد کا علم ہے اور اس ادارے کے ذریعہ انہوں ایک سال میں یا ایک مقررہ مدت میں کتنے لوگوں کو مالی اعتبار سے خود کفیل بنایا؟ یا کتنے ضرورت مند طالب علموں کی تعلیم پر خرچ کرکے اس لائق بنایا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں؟ شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم قوم ہر جگہ سوالی کی طرح نظر آتا ہے۔ اخلاقی اعتبار سے دوست احباب اور ملنے ملانے والے یعنی ملاقاتی حضرات بھی ان مہینوں میں ہماری خیریت دریافت کرتے ہیں اور ساتھ میں افطار وغیرہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن پورے سال میں شاید ہی کبھی توفیق ہوتی ہوگی کہ وہ اُن کی خیریت یا صورتِ حال دریافت کرلیں کہ کیا واقعی ہمارا دوست یا پڑوسی کسی مسئلہ سے دوچار ہے؟ اور ہماری کسی تعاون کا مستحق ہے؟

جب کوئی ضرورت مند اُن رفاہی اداروں میں مالی امداد یا تعلیمی امداد کے لئے جاتا ہے تو اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اُس کا بہت غلط اور منفی نتیجہ میرے سامنے آیا، جو ناقابل بیان ہے۔ جب کہ کسی بھی قوم کے بچے کو تعلیمی اعتبار سے بہتر بنانے کے لئے سب سے پہلے ذہنی نشوونما کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ ان کے رویہ سے یہ بچے اور اُن کے گارجین سخت مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ اُن کی اپنی طاقت سے جینے کی صلاحیت میں بھی کمی آجاتی ہے۔ ایسے اداروں کی طرف سے جن ضرورت مند لوگوں کے ساتھ بھی منفی رویہ اختیار کیا گیا ہے یا جو لوگ بھی اُن اداروں سے بہتری کی امید لے کر جاتے ہیں اور ناامیدی ہاتھ آتی ہے، میرا مشورہ ہے کہ اُن کی مالی حیثیت جتنی بھی ہے اُسی میں کوشش کریں لیکن اپنی ذہنی صلاحیت کو ابتر ہونے سے بچا لیں، انشاءاللہ آپ دنیا اور آخرت دونوں جگہ کامیاب و سرخرو ہوں گے۔

عمومی طور پر یہ مسئلہ بھی سامنے آتا ہے کہ ہمارے بچے اکثر درمیان میں تعلیم ترک کرکے کسی پیشہ سے جڑ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ معاشی کمزوری بھی ہو سکتی ہے۔جب تک ممکن ہوا خیراتی اداروں خواہ و سرکاری ہو یا غیر سرکاری تعلیم حاصل کرتے ہیں اور جب آگے کی تعلیم جاری رکھنے کے لئے ان پاس پیسہ نہیں ہوتا تو وہ تعلیم ترک کے کسی نہ کسی پیشہ میں لگ جانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ۔ بلکہ مجبوراً کام کرناپڑتا ہے۔ مسلمانوں میں تعلیم ترک کر دینے کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ اہل علم اور اہل ہنر کو اُن کے اداروں میں معقول معاوضہ ادا کرنے کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ انٹرویو کے وقت جب اہل شخص مل جاتا ہے تو ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کم سے کم کتنی اجرت میں کام کر لیں گے؟ ایک بار جب میں نے اسی سوال کے جواب میں سوال کر دیا کہ آپ نے اس پوسٹ کے لئے کتنا معاوضہ مقرر کیا ہے؟ تو جواب یہ ملا کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کتنے ضرورت مند ہیں؟ تو میں نے اپنی ضرورت کے مطابق بتایا کہ کم سے کم مجھے اتنا معاوضہ چاہئے اور میں جتنا کام جانتا ہوں اس کے مطابق اتنا (جو کہ پہلے والے سے بھی زیادہ تھا) تو انہوں نے کہا کہ نہیں ہم تو صرف اتنا دے سکتے ہیں جو میرے طلب کئے گئے معاوضہ کا نصف بھی نہیں تھا تو ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہماری ضرورت کے مطابق دیتے ہیں؟ جب کہ ان ہی کے کہنے کے مطابق نہ تو میرا معاوضہ میری اہلیت کی بنا پر دینے کو راضی ہوئے اور نہ ہی میری ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے۔ تو ایسی صورت میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان اداروں کے ذمہ داران ہمیں مجبور کر کے ہمارا استحصال کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ یہ امر بالکل واضح ہے کہ کسی بھی میدان میں کام کا معیار اہلیت اور اس کے مطابق اس کا معاوضہ طے ہوتا ہے۔ کئی صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومت نے بھی تعلیمی اعتبارسے ایک دن کا کم سے کم معاوضہ متعین کر دیا ہے۔ جب کہ آج بھی ان اداروں میں کام کرنے والوں کو آدھا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اُن رفاہی اداروں کے بارے میں عام رائے یہی بنے گی کہ اُن کے ذمہ داران اسے اپنی مالیت سمجھتے ہیں اور اس کا استعمال اسلامی طریقے پر نہ کر کے اپنے خود ساختہ طریقوں پر کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے قوم کا جاہل اور مجبور طبقہ ہمیشہ ہی جاہل اور مجبور ہی رہتا ہے کیوں کہ اسے مجبوری سے نکالنے اور جہالت سے علم کی طرف لے جانے والی اصل مشینری ہی ناکارہ ہے۔

چند فیصد جو یونیورسٹی کی سطح تک پہنچ جاتے ہیں وہ بھی صرف نام اور شیخی بگھارنے کی حد تک۔ تعلیمی اعتبار سے اب پی ایچ ڈی کی ایسی کھیپ تیار ہو رہی ہے کہ اُن میں بہتوں کا اپنے مضمون سے ایک فیصد کا بھی تعلق نہیں ہوتالہٰذا ایسے ٹیچر، لیکچرر، ڈاکٹر یا پروفیسرکتابوں کا بوجھ تو دنیا کو دے جاتے ہیں جو کہ ”محقق بود نہ دانشمند-چارپائے بروکتابے چند“ کی مثال بنتے ہیں۔ اس کی تفصیل کیا بیان کی جائے۔ حال کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں: اکتوبر 2012ءمیں ہمارے ایک شناسا کے ذریعہ حیدرآباد سے ایک دعوت نامہ وصول ہوا جس میں ”اسلامی فن و ثقافت کے موضوع پر ایک سیمینار کے انعقاد کی خبر تھی اور مختلف موضوعات پر مقالہ پیش کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ دعوت نامہ اردو اور انگلش دونوں زبانوں میں شائع شدہ ہیں۔ مختلف عنوانات میں سے ایک عنوان تھا ”ہندوستانی سماج پر مسلمانوں کے اثرات“ اور اس کا انگلش ترجمہ یا عنوان تھا: Islamic influence on Indian society

اہل علم نے مسلمان اور اسلام کی الگ الگ تشریحات کی ہیں۔ قرآن و احادیث سے بھی ان کی دو مختلف تشریحات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہیں۔ لیکن میری سمجھ میں یہ نہ آسکی کہ ایک قومی یونیورسٹی ”مولانا ابوالکلام آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی“ کے ارکان نے اس طرح کا عنوان کیسے تجویز کیا؟ جو کہ اردو میں ہے وہ انگریزی میں نہیں اور انگریزی لفظ سے جو ظاہر ہورہا ہے وہ اُردو سے نہیں۔ اسلام اور مسلمان کی تشریحات عالموں نے خوب کی ہے۔ میں یہاں اتنی لمبی تشریح کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اسلام وہ وحی ہے جو اللہ تعالیٰ نے عرش عظیم سے سیّدالانبیاءمحمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی۔ یہ وحی آج دو صورتوں میں ہمارے پاس موجود ہے۔ (۱) قرآن مجید(۲) صحیح حدیث۔ مختصراً یہ کہ ”اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے“ جس کا الہامی پیغام قرآن مجید کی صورت میں موجود ہے۔ اسلام کی تکمیل کا ثبوت قرآن مجید کی آخری آیت ” الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا “ (سورة المائدة:۵، آیت:۳) [آج کے دن ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تمہارے اوپر اپنی نعمتوں کا اتمام کر دیا اور تمہارے لئے بطور ”دین“ اسلام کو پسند کیا] سے ملتا ہے۔ سب سے بہتر اسوہ یا طریقہ اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خود قرآن مجید نے اعلان کیا ہے ” وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى۔ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى “ (سورة النجم: ۳ ۵، آیت: ۲-۳) [وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کہتے وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اُن کو بذریعہ وحی بتا دی جاتی ہے] اس روئے زمین پر بسنے والے وہ انسان جو قرآن و حدیث کی پیروی کرتے ہیں یا یہ کہ جو اللہ اور رسول کو مانتے ہیں وہ مسلمان کہلاتے ہیں۔

تعلیمی پسماندگی کی اور بھی کئی وجوہات ہیں۔چند ایک یہاں مختصراً ذکر کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلی وجہ انتشار۔ عقیدہ، سوچ۔ تعلیم، گھریلو، علاقائی، ذاتی، زبان وغیرہ۔ صرف انتشار ہی ایک ایسا موضوع ہے جس پر مسلم قوم کے طبقہ کا اتحاد ہے۔ سب سے پہلے تو یہاں کی مسلم قوم ملّی انتشار کا شکار ہے۔ انہوں نے ملت کی خیرخواہی اور بھلائی کے نام پر ہزاروں تنظیمیں، کونسل اور جماعتیں بنا رکھی ہے۔ ہر تنظیم کے روح رواں اور ان کے کچھ خاص لوگ تنظیم چلانے کے نام پر قوم سے چندہ وصول کرتے ہیں اور ضرورت مندوں کی بھلائی کے نام پر اپنے لوگوں کی بھلائی کا کام زیادہ کرتے ہیں۔ گویا ایک طرح سے یہ سب تنظیمیں قائم مذہب اسلام کے نام پر ہوئی ہیں۔ انسانیت کی بھلائی کے نام پر ہوئی ہیں۔ اور ہر روح رواں کا یہی دعویٰ ہوتا ہے کہ ملت کی صحیح سمت رہنمائی کرنے کا کام انجام دیتے ہیں لیکن یہ اُن کا دعویٰ ہے۔ اصلیت سے اس کا تعلق بہت کم ہوتا ہے۔ اُسے آٹے میں نمک کے براہ کہا جاسکتا ہے۔ درگاہیں اور خانقاہیں پہلے آمدنی کے لئے زیادہ بٹتی تھیں۔ اب مدارس و مساجد یہاں تک کہ منبر و محراب تک بنٹ رہی ہیں۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مصداق جس کا جہاں قبضہ ہو گیا نسل در نسل اماموں، مجاروں اور رہنماؤں کا دور چل رہا ہے۔ ٹرسٹ اب ذاتی ملکیت کا درجہ پانے لگا ہے۔ جب باپ بوڑھا ہو جاتا ہے تو نئے ٹرسٹی اور جانشین اپنے بیٹے کو سونپ دیتا ہے۔ اگر ان کے کئی بیٹے ہوئے تو آپس میں دھینگا مشتی ہوتی ہے۔ بالآخر وہ قابض ہو جاتا ہے جو طاقتور یا مضبوط ہوتا ہے۔ بلکہ آج کی زبان میں دبنگ ہوتا ہے۔ تقریباً اسی قسم کی صورت حال تعلیمی اداروں میں بھی ہے، خواہ چھوٹے ہو یا بڑے۔ محلوں کی مسجدوں ، عیدگاہوں، قبرستانوں وغیرہ کے نام پر بھی ہو رہا ہے۔ نتیجہ آپ خود نکالیے جب مسلم قوم کی اقل اکثریت کا یہ حال ہو تو باقی مسلمانوں کا کیا حال ہو سکتا ہے؟

آزادئ ہند کے بعد تعلیم یافتہ حلقوں میں یہ امر بار بار سر اٹھا رہا ہے کہ مسلمانوں کا اپنا کوئی میڈیا پاور نہیں ہے جو حکومت پر اپنا اثر ڈال سکے اور اس کے لئے انگریزی کا اخبار ہونا بہت ضروری ہے۔ گزشتہ پینسٹھ سالوں میں کئی بار یہ ایشو بن کر ابھرا، کانفرنسیں ہوئیں۔ لیکن آج تک مسلمانوں کا کوئی انگریزی اخبار اس قابل نہیں نکل سکا جو مؤثر ہو۔ یہاں تک کہ جو مؤثر اردو میڈیا تھا وہ بھی اب مہاجنوں (کارپوریٹ سیکٹرمیں)کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ گذشتہ ایک دہائی میں جتنے بھی اردو کے نئے اخبارات شروع ہوئے یا اخباروں کے ایڈیشن بڑھے وہ صرف تجارتی حد تک ہی محدود ہیں۔ اس سے نہ تو اردو زبان کے فروغ میں کوئی خاص پیش رفت ہوئی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے اپنے تشخص کو بہتر بنانے میں کوئی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہاں چند اردو کے صحافیوں کو ملازمت ضرور مل گئی ہے۔

قیادت کی بھی صورت حال بہتر نہیں کہی جاسکتی۔ قائدین کی تو کمی نہیں ہے، لیکن صحیح سمت اور اور قائدانہ صلاحیت کی بیحد حد کمی ہے۔ ہمارے زیادہ تر قائد موقع پرست اور زر پرست ہیں۔ یہ قطعی اپنے قوم کے بارے میں خیال نہیں کرتے کہ وہ قوم کو کس طرح بھروسہ میں لے کر رہبری حاصل کرتے ہیں اور کس طرح چند پیسوں کی خاطر قوم کی عزت و ناموس کا سودا کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہماری اپنی کوئی ایسی سیاسی پارٹی بھی قوم کے لئے مفید ثابت نہ ہو سکی۔ چہ جائیکہ ہم آبادی کے لحاظ سے پارلیمنٹ میں پہنچ سکیں، اپنی بات منوا سکیں اور اپنا حصہ حاصل کر سکیں۔ کچھ مسلم ممبر پارلیمنٹ اپنے حق کی آواز بلند کرنا بھی چاہتے ہیں تو ہمارے ہی قوم کی غلطیوں اور موقع پرستانہ ذہنیت کا حوالہ دے کر اُنہیں خاموش کر دیا جاتا ہے ۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہماری قوم بکھری ہوئی ہے۔ ہماری اِس انتشار کا فائدہ دوسری قومیں بآسانی اٹھاتی ہیں۔ جب بات میں دم اور جسم میں خم ہو توچاہے جس زبان میں چاہیں اپنی بات کہہ سکتے ہیں اور منوا سکتے ہیں۔ دنیا کی بہت ساری قومیں ہیں جو اپنی مادری زبان اور ایک بین الاقوامی زبان سے کام چلا رہی ہے اور عزت کی زندگی جی رہی ہے۔ لیکن ایک ہندوستانی مسلمان ہے کہ کم از کم تین زبان جاننے کے بعد بھی اپنی بات یا مافی الضمیر اپنے مخاطب کو نہیں سمجھا پارہا ہے؟ اردو زبان دنیا کے اکثر گوشے میں پھیل چکی ہے لیکن اُس کی حدیں صرف لطیفہ گوئی تک ہی محدود ہے۔ دسیوں ممالک کی درجنوں یونیورسٹیوں میں اس زبان کے پڑھانے والے موجود ہیں۔ دوسری قوموں کو خوب اردو پڑھائی جارہی ہے۔ پھر بھی ہندوستانی اردو والے اور مسلمانوں کی کیا حیثیت اور وقعت ہے؟ اس بات کا تجربہ ہمارے مفکرین کو بخوبی ہے۔

مسلم قوم کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنا موازنہ غلط طریقہ سے کرتے ہیں۔ اپنا وزن کرنے کے لئے ایسی چیزوں اور اعمال کو باٹ کے دوسرے پلڑے میں رکھتے ہیں جو ہماری شریعت سے ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارا وزن بھی غلط ہوتا ہے۔ مثلاً ساٹھ سال پہلے مسلمانوں میں بھی تعلیمی اداروں اور اکیڈمک تعلیمی رُجحان کی کمی تھی اور اب جب کہ جس قدر تعلیمی اداروں میں اضافہ ہوا ہے اسی قدر اکیڈمک تعلیمی رُجحان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ معیار میں گرچہ گراوٹ ہے لیکن موازنہ ہندوستان کے سرمایہ دارانہ اکیڈمک اداروں کا کیا جاتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر ہماری نئی نسل مادّیت پرست بنتی جارہی ہے۔ اُس کا رُجحان ایسا بنتا جارہا ہے کہ زیادہ مہنگے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا مطلب زیادہ پیسہ کمانے کا ذریعہ بلکہ یقین۔ نتیجہ عیش پرستی، بے راہ روی، آرام طلبی وغیرہ۔ اِن تینوں رُجحان رکھنے والے اکثر لوگ بزدل پائے گئے ہیں۔

محاسبہ نہ ہم اپنا کرتے ہیں اور نہ ہمیں یوم ِحساب کا خوف و احساس ہے۔ جس کو جو جی میں آیا کہہ رہا ہے اور کر گزر رہا ہے۔ اگر مال اور علم کے اعتبار سے مسلمانوں کا موازنہ کیا جائے تو تین طبقہ وجود میں آئے گا۔ سب سے پہلا اور خاص طبقہ وہ ہے جو اپنے آپ کو زیادہ پڑھا لکھا اور لبرل سمجھتا ہے، عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے دوسرا وہ جو پڑھے لکھے سمجھدار، خوددار اور محنتی ہیں وہ پہلے طبقہ کا دست نگر بنے رہنے ہوئے ہےں۔ بدعنوانی اور استحصال وہ دیکھتے ہیں سمجھتے ہیں لیکن مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ تیسرا وہ طبقہ ہے جو بہت ہی کسم پرسی کی زندگی جی رہا ہے۔ اُس طبقہ کے بیشتر لوگوں کو یہ بھی علم نہیں ہیں کہ وہ مسلمان ہیں تو کیسے؟ کیوں کر؟ اور اُن کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہماری قوم کا رہن سہن کوئی انفرادی نہیں ہے سب یہاں کی دوسری قوموں سے صد فیصد مشابہ ہے۔

آخری بات یا پہلی بات یعنی زندگی کے رہنما اصول قرآن اور حدیث میں موجود ہے۔ ہمیں اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کے لئے اُسے ہی اپنانا ہوگا۔ تبھی ہم سماج میں محترم اور معزز بن سکتے ہیں۔ اپنی انا کو ہر حال میں قربان کرنا پڑے گا۔ خود ساختہ اصولوں کوبہر حال پھینکنا ہوگا۔ تب کہیں ہمارے اندر ایثار کا جذبہ پیدا ہوگا۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ میرے اِن خیالات اور تجربات سے غیر متفق ہوں لیکن حقیقت سے بہت قریب ہے۔

Comments are closed.