مسلمانوں کو یوگا کی ضرورت نہیں…….!

 

مرزا عادل بیگ (9823870717)

 

اسلام فطرت دین ہے۔ جس کے تقاظوں کو پورا کرنا ہر مرد عورت پر فرض ہیں ۔ مذہب اسلام کی تعلیمات واحد خدا وندی کی طرف لے جاتی ہے ۔ مذہب اسلام زندگی کے ہر پہلوں کو مناسب طریقوں سے ، ترکیبوں سے ، ترتیبوں سے ، با آسانی حل کرنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ ہر مسلمان کے نجات کا واحد ذریعہ نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی گزارنے پر منحصر ہے ۔ دنیا میں مذہب اسلام واحد مذہب ہے جونو مولود کے پیدا ہونے سے لیکر تدفین تک سارے طور طریقوں کو سکھاتا ہے ۔ مذہب اسلام کی بے شمار تعلیمات آج انسان کو حقیقی انسان بناتی ہے ۔

 

اسلام کااہم جز ہے ایمان یعنی اللہ رب العزت ایک ہے اور نبی کریم ﷺ اللہ کے رسول ہے ۔ پھر اس پر مسلمان تا عمر ثابت قدم رہتاہے ۔ ایک حدیث کا مفہوم اس طرح ہے "سید نا صفیان ؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے اسلام میں ایک ایسی بات بتا دیجئے کے پھر میں اس کو آپ ﷺ کے بعد کسی سے نہ پوچھو ں ! آپ ﷺ نے فرمایا تو کہے میں ایمان لایا اللہ پر پھر اس بات پر ثابت قدم رہا ۔”(مسلم شریف)

 

ملک کے حالات:

 

آج زعفرانی ذہانت والی پارٹی اقتدار پر ہے ۔جو مسلمانوں کو اس ملک کا دوسرا شہری بنانا چاہتی ہے ۔ جو مسلمانوں سے اس کی شناخت مٹانا چاہتی ہے ۔ جو مذہب اسلام کے ماننے والوں کو نست و نابود کرنا چاہتی ہے ، آج ملک کا 25 کڑور مسلمان ایک طرف کھڑا ہے ۔ اور دوسری طرف 100 کڑور عوام کھڑی ہیں ۔ ایوانوں کے ذریعے ، ممبر آف پارلیمینٹ کے ذریعے ، زاعفرانی ذہانت رکھنے والی پارٹی کے ورکرس کے ذریعے ہر روز مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے ۔ تعلیم کا بھگوا کرن ہو چکا ہے ۔ اب یہ تعلیم مادیت پرستی اور مذہب دین بے زاری کی طرف لے جارہی ہے ۔ اسکولوں اور کالجوں میں مسلمانوں کی شناخت کو حذف کیا جارہا ہے کبھی برقعہ اتارنے کو مجبور کرنا ، تو کبھی مسلم ہونے کے لحاظ سے نوکری سے نکال دینا ، ماب لینچنگ ، اذانوں پر تبصرے ، قربانی پر تبصرے ، مسلم تنظیموں کو دہشت گرد ثابت کرنا ، دینی مدرسوں کو دہشت گردی سے جوڑنا ، تو ملک کے مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کو نان رجسٹری سے ملک بدر کرنے کا فیصلہ کرنا ، بلا وجہ تین طلاق بل کا نافذ کرنا ، مسلمانوں کو رام بھکت بنانے کی کوشش کرنا ، مسلمانو ں میں دینی و اخلاقی اور فحاشی پھیلانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنا ، پورے ملک میں مذہب اسلام کے خلاف نفرت آمیز ماحول تیار کرنا ۔ ایسا لگتا ہے ، اس ملک کا 25 کڑور مسلمان ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ مسلمان کیا کھاتا ہے ، کیا پیتا ہے ، کیا پہنتا ہے ، کیا کرتا ہے ، اس کی اذان ، اس کی مسجد ، اس کی شریعت، اس کی تہذیب ، اس کا کاروبا ر اس کی تعلیم و تربیت ، اس کی آبادی ، اس کی شادی ، اس کے رسم و رواج ، اس کا قبرستان ، اس کی وفا داری ، سے لے کر مختلف تبصرے نشر کیے جاتے ہے۔ اس پر گفتگوں کی جاتی ہے ۔

 

21 جون عالمی یوگا دن :

 

21 دسمبر 2014 کو وزیر اعظم نریندر مودی کی زیرسرپرستی اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے 21 جون کو عالمی یوگا دن منانے کی قرارداد منظور کی ہے ۔ اس وقت تقریباً چالیس اسلامی ممالک اور دنیا کے 180 ملکوں نے اسے منظور کیا ہے ۔ 21 جون 2015 سے ہر سال عالمی یوگا دن بڑے ہی دھوم دھام سے منایا جارہا ہے ۔ جہاں ملک کے مختلف ریاستوں میں مختلف اضلاع کے اسکولس ، کالجیس ، سرکاری ادارے ، دفاتر ، ڈپارٹمینٹ ، اسٹیڈیم ، گراؤنڈ ، سرکاری آفسیس میں یوگا کرنے کا انتظام کیا جاتا ہے ۔

 

یوگا ایک مشرکانہ عبادت ہے :

 

جس طرح مسلمان "وندے ماترم ” کہہ نہیں سکتا ، کیونکہ اس میں زمین کو ماتا کے روپ میں دیکھا جاتا ہے ۔ اس ہی طرح یوگا ایک برہمن عقائد اور ہندوانہ رسم ہے ۔ جس میں سورج کو دیوتا سمجھا جاتا ہے ۔ سورج کو نمسکار کیا جاتا ہے ۔ ہر ی اوم کا جاب جپا جاتا ہے ۔ جسم کے مخصوص حصوں کھلی ہوا میں رکھا جاتا ہے ۔ جہاں (ستر پوشی) ہونا ممکن نہیں ہوتا ہے ۔مختلف دیوی دیوتاؤں کے نام لیکر تپسیاں کی جاتی ہے ، یہ ورزش نہیں بلکہ عبادت سمجھ کر کی جاتی ہے جو مذہب اسلام میں حرام ہہے ۔ ان سب چیزوں سے مسلمانوں کے ایمان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔ مذہب اسلام کی تعلیما ت میں شرک کو گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ہے ۔ تو اس سے مسلمانوں کو احتیاط برتنے کی اور دوری بنائے رکھنے کی ضرورت ہے ۔

 

مسلمانوں کو یوگا سن کی ضرورت نہیں :

 

مذہب اسلام آج دنیا کا سب سے پسندیدہ مذہب ہے ، مشرقی ممالک ، مغربی ممالک ، یورپ اور امریکہ ہر جگہ پر روز لاکھو ں افراد اسلام کی آغوش میں دوڑے چلے آرہے ہے ۔ آج جدید و مارڈرن دنیا اسلام کے عقائد رسم و رواج و تہذیب و تمدن پر ریسرچ کر رہی ہے ۔ جو مسلمان پانچ وقت کی نماز با جماعت مقررہ وقتوں میں پوری کرتا ہے ۔ اس کا جسم چست و چوبند ہو جاتا ہے ۔ پانچ وقت کی نماز پڑھنے سے جسم کے ہر حصہ کی دورانِ خون کی شرح بڑھ جاتی ہے نماز پڑھنے والے افراد کے چہروں پر سکون و اطمنان نظر آتاہے۔ جو قلب کو موثر انداز میں حرکت دیتا ہے۔ اگر مسلمان پانچ وقت کی نماز مقررہ وقت میں ادا کریں اور سا ل میں 30 دن رمضان المبارک کے روزے رکھے تو اسے کوئی یوگاسن کی ضرورت نہیں ہے ۔ مگر آج 21 جون کو مختلف اقلیتی ادارے ، سرکاری محکمات میں کام کرنے والے مسلم افراد ، اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی کرنے والی مسلم لڑکیاں اور لڑکوں کو یوگا سن کے پینڈال میں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے ۔ اب تو عالم دین حضرات بھی یوگا سن کے پنڈال میں نظر آرہے ہے ۔

 

سرکاری دفتروں اور دیگر ملازمت پیشہ افراد اپنی نوکریوں کی وجہ سے یوگا سن کے پنڈال میں نظر آرہے ہونگے مگر طلبہ و طالبات ، خواتین ، مسلم بزرگ حضرات ، کا پنڈال میں کیا کام ہے ۔ ہمار ا مسلم معاشرہ کس سمت جارہا ہے ، ہمیں زاعفرانی ذہانت کے حامی افراد اپنی سازشوں اور منصوبوں کے چنگل میں پھانس رہے ہیں ۔ ہمیں ان سازشوں کو سمجھنا ہونگا اور اپنی دینی تشخص کو برقرار رکھنا ہونگا ۔ اور ایک بلند آواز میں کہنا ہوگا ہمیں یوگا سن کی ضرورت نہیں ہے ۔

Comments are closed.