انتخاب کے اختتام کے ساتھ ہم سب کچھ بھول گئے

ڈاکٹر مولانا حفظ الرحمن قاسمی

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
دو ماہ کی چیخ و پکار کے ساتھ لوک سبھا انتخابات رمضان میں مکمل ہوگئے، اور نتائج بھی آگئے۔ نئی سرکار بنی، پارلیمنٹ میں نو منتخب ممبران نے آئین و ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف بھی لے لیا۔ رمضان مکمل ہوا، عید آئی اور چلی گئی۔ پورے دیش کے ساتھ ساتھ بھارت کے مسلمان بھی اپنے معمول کی زندگی میں مصروف ہو گئے۔ لیکن پچھلے پانچ برسوں اور حالیہ انتخابی مہم کے آغاز سے لے کر آج تک جو باتیں نمایاں طور پر محسوس کی گئیں وہ کچھ اس طرح ہیں:
ہم نے بچپن سے ہی انتخابات کی ہما ہمی دیکھی ہے۔ نیتاوں کو منچ سے چیختے چلاتے دیکھا ہے۔ لیکن پہلے وہ چیخ و پکار ہمارے لیے کوئی معنی رکھتے تھے۔ ہمارا ننھا ذہن صرف نیتاوں کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگنے اور ان کی تقریروں پر لوگوں کو تالی بجاتے ہوئے دیکھ خود تالیاں ٹھوکنے پر لطف اندوز ہوتا تھا۔ اس کے بعد جب تھوڑا شعور بیدا ہوا اور کچھ اخبارات وغیرہ سے دلچسپی ہوئی تو پارلیمنٹ یا اسمبلی میں منتخب ہونے والے مسلم ممبران کی تعداد کو دیکھ کر دل خوشی یا غم کے اثرات قبول کرنے لگا۔ لیکن پچھلے پانچ سالوں کے حالات اور حالیہ انتخابی منظر نامے کو دیکھ کر نہ جانے کتنے معصوم ذہن سوچنے پر مجبور ہو گئے۔ دلوں نے ٹیسیں محسوس کیں۔ جو شخص آج تک صرف اپنی زندگی کے بارے میں سوچتا تھا اب وہ ملک کے مستقبل نامے پر سوچنے لگا۔ انتخابی مہم کے دوران جو بات سب سے خطرناک رہی وہ یہ تھی کہ ہر ذی شعور بھارتی نے سیاسی منچ سے اخلاقیات کی ارتھی اٹھنے کا نظارہ دیکھا۔ بھارت کے آزاد اداروں کو طاقت و اقتدار کی زنجیروں میں سسکتا ہوا دیکھا۔ پہلے ہمارے گاوں کی عورتیں اپنے پڑوسیوں سے جھگڑتی تھیں تو ایک دوسرے کے باپ داداوں کا بخیہ ادھیڑ کر رکھ دیتی تھی۔ لیکن اب ہم نے بعینہ وہی منظر سیاسی اسٹیج پر بھی دیکھ لیا۔ ہم نے اپنے بڑوں سے یہ سنا تھا کہ دیش کی سرحدوں پر لڑنے اور مرنے والا جوان دیش کا سپاہی ہوتا ہے، وہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن نہیں ہوتا، لیکن اب ہم نے یہ بھی دیکھا کہ انتخابی مہم کے دوران ہمارے فوجی جوانوں کے نام اور تصویروں کا بھر پور استعمال کیا گیا۔ اب تک ہم نے یہ پڑھا تھا کہ ملک کے ہر شہری کو جو پچیس برس کی عمر کا ہو لوک سبھا انتخابات لڑنے کا اہل ہے۔ لیکن اب ہم نے یہ بھی دیکھ لیا کسی خاص سیٹ سے انتخاب لڑنے والے فرد کو زبردستی کنارے کیا جا سکتا ہے۔ ہم بچپن سے یہ سنتے آئے تھے کہ میڈیا اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ بڑی سے بڑی سیاسی ہستی اس کے سامنے گھٹنے ٹیکتی ہے۔ لیکن یہ وہم بھی غلط ثابت ہوا اور ہم نے میڈیا کو سیاسی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے دیکھا۔ اب تک ہم نے یہ دیکھا اور سنا تھا کہ جس فرد پر دہشت گردی کا الزام ہو وہ عدالت سے بری ہونے تک جیل کی سلاخوں میں گھٹ گھٹ کر زندگی گذارتا ہے۔ لیکن اب ہم نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ایسا شخص ملک کی سب سے بڑی جماعت کے ٹکٹ پر انتخابات جیتتا ہے لوک سبھا کا ممبر بنتا ہے۔ کیا یہ ساری چیزیں ہمیں ایک نئے بھارت کی تعمیر کا اشارہ نہیں دیتیں؟
اب تک ہم نے یہ سنا تھا کہ دیش میں کچھ سیکیو لر پارٹیاں ہیں جو ذات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر ملک کے عوام کے ساتھ اور عوام کے لیے کام کرتی ہیں۔ لیکن اب ہم نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ان سیاسی جماعتوں کے ہائی کمان نے نہ صرف یہ کہ اپنے طرز عمل سے خود کو ایک مخصوص نظریے اور مذہب کا پیروکار ثابت کیا بلکہ انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے بڑے چہروں کے منظر عام پر آنے سے دور رکھا، ٹکٹ کی تقسیم کے معاملے میں بھی انہیں نظر انداز کیا گیا، گٹھ بندھن کے معاملے میں سیکیولرزم کے ٹھیکے داروں نے مسلم قیادت والی پارٹیوں سے خود کو دور رکھا، بلکہ آسام میں اس کے وجود کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ کیا یہ ساری چیزیں ہمیں ایک نئے بھارت کی تعمیر کا اشارہ نہیں دیتیں؟
انتخابات مکمل ہوگئے۔ منتخب شدہ تمام ممبران نے اپنی فتح کا جشن بھی منا لیا۔ لیکن ہماری آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جس پارلیمنٹ کی عمارت میں پردھان منتری جی نے آئین کے سامنے اپنا سر جھکایا تھا اوہ کہا تھا کہ ہمیں اقلیتوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے، اسی پارلیمنٹ میں ٹوپی اور داڑھی کو دیکھ کر جے شری رام اور وندے ماترم کے نعرے لگائے۔ کیا یہ ساری چیزیں ہمیں ایک نئے بھارت کی تعمیر کا اشارہ نہیں دیتیں؟
ایک اور بات جو ہم نے انتخابی مہم کے دوران محسوس کی تھی وہ مسلم نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر جوش تھا۔ ہمارے نوجوان ہی نہیں بلکہ بوڑھے بزرگ اور علماء و دانشوروں نے بھی پچھلے دنوں میں مسلمانوں کی بے کسی بخوبی محسوس کیا تھا، چنانچہ وہ پوری قوت کے ساتھ انتخابات کے دوران کمیونل طاقتوں کو شکست دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ بات بھی بڑے زور و شور سے سنی گئی کہ اب مسلمانوں کو ان نام نہاد سیکیولر جماعتوں کے دھوکے سے نکلنا چاہیے اور اپنی سیاسی قوت پیدا کرنی چاہیے۔ یہ دلیل بھی دی گئی کہ دلتوں کی بھی اپنی سیاسی قوت ہے جو ان کے کاز کے لیے لڑتی ہے، تو پھر مسلمانوں کی سیاسی قوت کیوں نہیں ہونی چاہیے؟ یہ باتیں بھی سامنے آئیں کہ مسلمان اور دلتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے، تاکہ ایک مساوات و انصاف والے بھارت کی تعمیر ہو سکے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارا وہ سارا جوش و جذبہ رمضان کے روزوں کی تکان اور عید کے جشن کے ساتھ کافور ہو گیا۔ ہم وہ ساری باتیں اتنی جلدی بھول گئے اور پھر اپنی زندگی میں مگن ہو گئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کی بزم میں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کسی دوسرے پر بھروسہ کرنا انتہا درجے کی حماقت ہے۔ اگر ہم بھارت میں عزت کی زندگی چاہتے ہیں تو ہمارے جوانوں کا مثبت انداز میں سیاست میں آنا ہوگا، ہمارے بڑوں کو اپنے جوانوں کی رہنمائی اور تربیت کرنی ہوگی، اپنی سیاسی قوت پیدا کیے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت بھارت میں ہمیں عزت کی زندگی کا موقع نہیں دے سکتی۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.