نعمانی صاحب اندریش کی پذیرائی کرکے آپ نے اچھا ہی کیا!

نوائےبصیرت : شکیل رشید
سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن
ایڈیٹر روزنامہ ممبئی اردو نیوز
اندریش کمار کے دارالعلوم دیوبند جانے پر اس قدر ہنگامہ کیوں؟
مانا کہ وہ آر ایس ایس کے قائدین میں سے ایک ہیں اور آر ایس ایس اس ملک کو ’ہندوراشٹر‘ میں تبدیل کرنے کےلیے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ اور ’ہندوراشٹر‘ کے قیام کا مطلب اس ملک میں مسلمانوں کا حاشیے سے بھی باہر ہوجانا ہوگا، لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے ارباب حل وعقد مذکورہ منصوبہ بندی میں آر ایس ایس کے ساتھ ہیں، تو اسے عقل سے پیدل اور کند ذہن سمجھنے کے سوا اور کچھ نہیں سمجھا جاسکتا۔ اندریش کمار کی مہتمم دارالعلوم دیوبند مولانا و مفتی ابوالقاسم نعمانی سے ملاقات میں اگر کسی کو مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش نظر آتی ہے تو اس مشورے کے سوا اور کوئی مشورہ نہیں دیاجاسکتا کہ وہ کسی ماہر امراض چشم کے پاس جاکر اپنی آنکھوں کی بینائی چیک کرائے کہ جو چیز نہیں ہے اسے وہ چیز نظر آرہی ہے!
دارالعلوم دیوبند اور آر ایس ایس کے نظریات میں اتنا ہی فرق ہے جتناکہ زمین وآسمان میں۔ دارالعلوم دیوبند ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے جہاں علوم دینیہ پر زور دیاجاتا ہے، ساری توجہ بچوں کو موحد بنانے پر دی جاتی ہے اور ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیاجاتا ہے کہ برادران وطن کے ساتھ باہمی اخوت، ہم آہنگی اوربھائی چارہ میں ہی ملک اور قوم کی بہتری ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے کبھی اپنے دروازے غیر مسلموں پر بند نہیں رکھے تھے اور آج بھی نہیں رکھے ہیں۔ آزادی کی تحریک میں دارالعلوم دیوبند کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، یہ وہ تحریک تھی جس میں دارالعلوم کی عظیم ترین شخصیات اسیر مالٹا شیخ الہند محمودالحسن دیوبندیؒ اور مولانا حسین احمد مدنیؒ وغیرہ کے ساتھ مہاتما گاندھی او رپنڈت نہرو بلکہ سردار ولبھ بھائی پٹیل تک ساتھ ساتھ تھے۔ رہا سوال آر ایس ایس کا تو یہ بھلے خود کو قوم پرست تنظیم کہتی رہے پر اس کی ’قوم پرستی ‘یکطرفہ ہے،اس میں نہ مسلمانوں کےلیے جگہ ہے ، نہ عیسائیوں کےلیے اور نہ دلتوں کےلیے۔ اس کے ایجنڈے پر ’ہندوراشٹر‘ ہے۔ یہ ’ہندوازم‘ کی جگہ ’ہندو تو وا‘ کے فروغ کےلیے کوشاں ہے، لہذا اگر کوئی یہ کہے کہ دارالعلوم دیوبند اور آر ایس ایس کے نظریات یکساں ہیں اسی لیے اندریش کمار او رمولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی ایک دوسرے سے گرمجوشی سے ملے ہیں تو وہ نادان ہی ہوگا۔
ملاقات جیسا کہ خبر ہے، اچانک تھی۔ اندریش دیوبند پہنچے تھے لہذا دارالعلوم بھی چلے گئے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ دارالعلوم نے انہیں دھتکارا کیوں نہیں تو اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے، مسلمان اپنےمہمانوں کو چاہے وہ جو ہوں ، دھتکار تے او ربھگاتے نہیں ہیں بلکہ ان سے خندہ پیشانی سے پیش آتے او ران کی پذیرائی کرتے ہیں۔ تاریخ اسلام میں اس کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی۔ اخلاق کی یہ وہ بلندی ہے جس سے متاثر ہوکر نہ جانے کتنے ’دشمن‘ ہیں یا تھے جو ’دوست‘ بن گئے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند نے یہی کیا ہے، یہ بلند اخلاقی کا مظاہرہ ہے۔ اور امید ہے کہ مفتی ابوالقاسم نعمانی کے اخلاق نے اندریش کمار کو متاثر کیا ہوگا اوروہ دارالعلوم کے تعلق سے اچھے تاثرات لے کر واپس لوٹے ہوں گے۔ کم از کم انہیں یہ یقین تو ہو ہی گیا ہوگاکہ دارالعلوم میں نہ دہشت گردی سکھائی جاتی ہے اور نہ ہی یہ دہشت گردوں کا اڈہ ہے۔مفتی صاحب کے عمل کی کھلے دماغ سے تعریف کی جانی چاہئے۔ مفتی صاحب آپ نے اندریش کمار کی پذیرائی کرکے کچھ غلط نہیں کیا، اچھا ہی کیا ہے۔ میرا ایک مشورہ ہے، مسلمان تنگ نظر نہ بنیں بلکہ وسیع ذہن بنیں اور ان سے بھلے کیسا ہی سخت سے سخت ’دشمن‘ کیو ںنہ ملنے آئے اسے گلے لگائیں، وہ ’دوست‘ بن جائے گا۔ یقین آئے تو اس مشورے پر عمل کرکے دیکھ لیں۔
Comments are closed.