وماعلینا الاالبلاغ…….

عمر فراہی
تصویریں پوسٹ کرکے نمائش کرنا میرے مزاج کے خلاف ہے لیکن کبھی کبھی جب میں خود اوروں کو پڑھتا اور پسند کرتا ہوں تو میری اپنی خواہش یہ ہوتی ہے کہ میں بھی اس کا دیدار یا زیارت کروں اور ممکن ہو تو بالمصافہ ملاقات بھی ہو جاۓ ۔مثال کے طور پر میں نے اسرار عالم صاحب کی بہت سی پراسرار تحریریں پڑھیں لیکن جب انہیں دیکھنے کی خواہش ہوئی تو ان کی کہیں کوئی تصویر نظر نہیں آئی۔اپنے ایک ساتھی سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ میں ان کے حلقے میں شامل تو رہا ہوں لیکن وہ کسی سے بہت کم ملتے ہیں اور اب تو ملتے ہی نہیں ۔میرے ایک ساتھی نے کہا کہ آپ کی تحریریں تو جوان ہیں لیکن آپ بوڑھے نظر آرہے ہیں ۔ایک صاحب نے تبصرہ کیا کہ یقین نہیں ہوتا کہ آپ ہیں ۔آپ کی تحریروں سے لگتا تھا کہ آپ ابن صفی کی دور کے ہیں ۔اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ میری طرح ہر قاری کے اندر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ جسے پڑھ رہا ہوتا ہے اور اس نے اپنے ذہن میں اس کی جو تصویر بنائی ہے وہ ایسا ہی ہو ۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کبھی ایسا نہیں ہوتا۔علامہ اقبال ایک بار کسی مدرسے میں مدعو کئے گئے تو وہاں کے اکٹر اساتذہ جنھوں نے اقبال کو دیکھا نہیں تھا مگر ان کے مجاہدانہ کلام سے واقف تھے انہوں نے کہا کہ ہم تو سمجھ رہے تھے اقبال مولوی کی طرح دکھائی دیتے ہونگے اور چہرے پر لمبی داڑھی اور ٹوپی ہوگی ۔اتفاق سے اس دور کے اکٹر شعراء کا بھی یہی حلیہ ہوا کرتا تھا ۔
شاعروں کے اسی قول و فعل کے تضاد پر غالب نے کہا ہے کہ
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
کم سے کم آج کے سوشل میڈیا کے فیک آئی ڈی اور فیک شناخت کے دور میں یہ ضروری ہے کہ آپ جسے پڑھ اور سن رہے ہوتے ہیں یہ جانے بغیر کہ وہ کون ہے کہاں رہتا ہے اور کیا وہ اہل حق کے قبیلے سے ہی تعلق رکھتا ہے اس کی باتوں پر یقین نہ کریں خواہ وہ قرآن و حدیث کے حوالے سے ہی بات کیوں نہ کر رہا ہو ۔یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیوں کہ اکثر شروع میں بہت اچھی باتیں کرنے والے جب لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں تو وہ اپنے اصل مقصد کو حاصل کرنے کیلئےاپنی اسی گفتگو میں قرآن و حدیث کی کچھ ایسی من گڑھت تشریح بیان کر جاتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور پھر انکے مریدین اس بات کو یہ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں کہ یہ تو فلاں عالم دین یا مفکر کی بات ہے وہ غلط بول ہی نہیں سکتے ۔ہم نام نہیں لینا چاہتے لیکن امت میں جو انتشار اور دراڑ کی کیفیت پیدا ہوئ ہی وہ اٹھارہویں صدی کے قلمی کتابی اور شعلہ بیانی کے ماحول کی وجہ سے تھا ۔اب اس دور پرفتن میں شہید کی شہادت اور اس کے امام ہونے پر شک ہے جو شعلہ بیان مقرر ہوا وہ امام ٹھہرا۔منافق اکٹر لفاظی کرتا ہے اور اپنی شناخت چھپا کر رکھتا ہے ۔اہل حق ہمیشہ اپنی حق گوئی کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے یا شہید کر دئیے گئے منافقین ہمیشہ ارباب اقتدار سے انعامات حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے رہے ہیں یا جو اقتدار میں آیا ان کے ساتھ ہو لئے۔اس دور میں مسلمان جیسے خوشنما چہروں سے بہتر کرکرے سنجو بھٹ رویش کمار اور جسٹس شری کرشنا جیسے ہندو مجاہدین ہیں جو اپنی ظاہری شناخت اور عقیدے کو چھپاۓ بغیر انصاف کیلئے خطرات سے گزرے یا گزر رہے ہیں ۔ہمارے ایک مضمون اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی پر ایک ایس آئی او کے بچے نے سوال کیا ہے کہ آپ نے ڈاکٹر مرسی کو صدام حسین سے موازنہ کر دیا ۔ہمارے یہاں بہت سے قارئیں تحریروں کو سمجھ بھی نہیں پاتے کہ مضمون نگار کیا کہنا چاہ رہا ہے ۔ہمارا مقصد شیروں کو قثل نہ کرنے پر ڈاکٹر مرسی کی بات کو ثابت کرنا تھا اور بیشک صدام حسین کا کردار جیسا بھی تھا وہ شیروں جیسا ہی تھا ۔ ہم مذہبی مسلمانوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم جس کے بارے میں اپنے آباواجداد کی زبانی غلط فہمی پال لیتے ہیں اس کے آخری وقت کے اچھے عمل کو بھی برائیوں کی نظر سے ہی پرکھتے ہیں یہی اندھی تقلید ہے ۔خیر میں بات کر رہا تھا آپ جسے فالو کرتے ہیں آپ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے حسب نسب اور کردار کو بھی جہاں تک ممکن ہے جاننے کی کوشش کریں ۔ یہ بات میں نے قرآن اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہے ۔قرآن کی جو سب سے پہلی آیت اقرا باسم ربک الذی خلق نازل ہوئی اللہ نے اپنا تعارف پیش کیا کہ میں کون ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فاران کی پہاڑی پر مشرکین مکہ کو دعوت دی اور جب لوگ وہاں جمع ہونے تو آپ نے سب سے پہلے اپنا تعارف پیش کیا کہ میں کون ہوں ۔آپ نے اپنی صداقت کو ثابت کرنے کیلئے ایک ایسے مفروضے سے اپنی بات شروع کی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر وہ نبی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امی تھے اپنی پہلی دعوت کی شروعات ہی جس بلاغت سے کی وہ مشرکین مکہ جو آپ کو بے انتہا پیار کرتے تھے یہ سمجھتے ہوۓ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق پر ہیں اس بلاغت سے ایسے گھبرا گئے جیسے کوئی زلزلہ آنے والا ہے ۔
۔نبی نے فاران کی پہاڑی سے یہی تو کہا تھا کہ اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے اس پار دشمن کی ایک فوج تم پر حملہ کرنا چاہتی ہے تو کیا تم میری بات پر یقین کرو گے ؟ سب نے بیک وقت کہا بیشک آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور آپ امین ہیں ۔نبی نے جب اپنی صداقت کا اعتراف کروا لیا تو اپنے اصل مدعا کو رکھا ۔اب کوئی نبی تو نہیں آنے والا لیکن جو شخص بھی وہ چاہے مبلغ ہو مصنف ہو یا مسلمانوں کو جہاد کی طرف راغب کرنے والی کوئی تحریک اس کی حقیقت کو جانے بغیر اس کی پیروی نہ کریں ۔۔جنھوں نے مجھے دعاؤں سے نوازہ میں فرداً فرداً ان کا شکریہ تو نہیں ادا کر سکا میری دعا ہے اللہ آپ سب کو سلامت رکھے اور مجھے بھی عقل سلیم سے نوازے تاکہ میری تحریریں آپ کی درست رہنمائی کر سکیں ۔وما علینا الاالبلاغ
Comments are closed.