ڈاکٹر حافظ محمد مرسی شہید رحمۃ اللہ علیہ

انسانی عدالت سے ’رحمانی ‘ عدالت میں
نازش ہماقاسمی
مصر میں جس دن جمہوری طور پر منتخب صدر مرسی کا تختہ پلٹا گیا تھا اسی دن سمجھ میں آگیا تھا کہ جمہوریت عوامی حکومت نہیں، امریکہ و اسرائیل کی فرمانبرداری اور نفاق ہے۔۔؛ ورنہ کیا بات تھی کہ عوامی طور پر منتخب حکمران کا تختہ فوج کی مدد سے پلٹ دیاجاتا ۔ صدر مرسی نے مرتے وقت تک یہی کہا کہ میں ہی یہاں (مصر) کا منتخب صدر اول ہوں؛ لیکن ان کی آواز شیشے کے قفس میں دبادی گئی۔ بیمار ڈاکٹر اپنے مرض کی تشخیص کے قابل نہ تھا، عظیم انسان ذلیل انسان کے ظلم کے آگے مجبور ہوگیا اور عدالت کے کٹہرے میں ہی جام شہادت نوش فرمالیا۔ صدر مرسی کون تھے، کیا تھے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ان کی موت پر پورا عالم اسلام تڑپ اُٹھا۔ جگہ جگہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی، اجتماعی دعائیں کی گئیں۔ ہندوستان سے لے کر ترکی تک، قطر سے لے کر فلسطین تک لوگ تڑپ اُٹھے، دھاڑیں مار کر رونے لگے، اپنے قائد کی شہادت پر غمگین ہو اُٹھے، غزہ کی خواتین اسلام آہ وبکا کرنے لگیں، اکابر علمائے حق نے ان کی موت پر تعزیت پیش کی اور انہیں مظلوم قرار دیا۔ امریکہ و اسرائیل کو آنکھ دکھانے والے بے باک لیڈر نے ان کی موت کو شہادت سے تعبیر کیا؛ لیکن ایک طرف ان کی موت پر کچھ لوگ خوشیاں منانے لگے یہ وہی لوگ تھے جنہیں اسرائیل امریکہ پسند ہے، ان کی قیادت پر ناز ہے ان کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں، انہیں صرف اقتدار سے محبت ہے اور ان کے چاہنے والوں کو ’ریال ‘سے، اس کے لیے وہ ایمان تک کا سودا کرلیتے ہیں۔ وہ ظالم کو مظلوم، جابر کو عادل کہتے ہیں۔ آج صدر مرسی ہمارے درمیان نہیں ہیں؛ لیکن ان کی یادیں موجود ہیں۔ انہوں نے ’ابلیس کی انجمن ‘میں ببانگ دہل کہا تھا کہ جو محمد ﷺ کی عزت کرے گا ہم اس کی عزت کریں گے۔ اور اسی عزت کرنے کی وجہ سے انہیں آج جو مقام ملا وہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ مرسی شہید ہوکر امر ہوگئے اور ان کے مخالفین زندہ رہ کر بھی مردہ ہیں۔ انہیں کوئی نہیں جانتا اور جانتا بھی تو اچھے ناموں سے نہیں، غدار، دین کا سودا کرنے والا، امریکہ واسرائیل کا غلام ان کے ہمنواوں کے تلوے چاٹنے والا کے طور پر جانتے ہیں؛ لیکن صدر مرسی ایک مجاہد، ایک قائد، ایک رہنما، ایک رہبر، حافظ قرآن، دین کا پاسباں، مسجد اقصیٰ کی بازیابی کے لیے سعی کرنے والا، اہل غزہ کا غمخوار، مسلمانوں کا ہمدرد، شریعت پر چلنے والا، ظلم کے آگے سر نہ جھکانے والا، باطل کو آنکھیں دکھانے والا کے طور پر جانے جاتے ہیں اور قیامت تک جانے جائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر مرسی کو آمر، ظالم قیادت نے موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ انہیں قسط وار موت کے منہ میں ڈھکیلا گیا اور منظم طریقے سے اس طرح کے حالات پیدا کیے گئے کہ جب وہ عدالت کے روبرو ہوں تو ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرجائے اور ان کی مظلومانہ شہادت کی ذمہ داری حکومت پر عائد نہ ہو؛ لیکن وہی ہوا جس سے یہ ظالم ڈر رہے تھے۔ پوری دنیا نے ان کی موت کو شہادت سے تعبیر کیا اور انہیں شہید قرار دیا۔ان کی موت مظلومانہ شہادت بتائی گئی اور ان کی موت کا ذمہ دار غاصب حکومت کو ٹھہرایاگیا۔ کچھ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کی موت پر منصفانہ جانچ کا مطالبہ کیا ہے؛ لیکن اس سے کچھ ہونے والا نہیں۔ یہ ابلیس کی دنیا ہے یہاں ابلیسوں سے انصاف کی امید رکھنا فضول ہے ، اب مرسی یہاں کے باشندے نہیں رہے ، وہ خدا کے حضور پہنچ چکے ہیں؛ اس لیے اب انصاف منصف اعظم کے دربار میں ہی ہوگا جہاں صدر مرسی شہیدوں کی صف میں کھڑے ہوکر اپنے اوپر ہوئے ظلم و ستم کا تذکرہ کریں گے اور کہیں گے کہ مجھے صرف اس لیے مارا گیا کہ میں محمد عربی ﷺکا خادم تھا ،میں اس لیے مارا گیا کہ میں نے کہا تھا ’القرآن دستورنا،والرسول زعیمنا، والجہاد سبیلنا، والموت فی سبیل اللہ امانینا‘ یعنی ’قرآن ہمارا دستور ہے، رسول اکرم محمدﷺ ہمارے قائد ورہنما ہیں، جہاد ہمارا راستہ ہے اور اللہ راہ میں موت ہماری آرزو ہے‘ ۔ میں بیت المقدس کو یہودیوں کے پنجہ استبداد سے چھڑاناچاہتا تھا، میں مصرکا پہلا منتخب جمہوری صدر تھا، میں عوامی حکمران تھا، میں عوام کے درمیان عدل وانصاف کرنے والا تھا، میں نے فراعنہ مصر کے مظالم سے مسلمانوں کو نجات دلانے کا عہد کیا تھا میں اہل غزہ کا غمخوار تھا، میں حسن البنا شہید کا سپاہی تھا، میں سید قطب شہید کے اصولوں پر چلنے والا تھا؛ اس لیے مجھے مارا گیا، ستایا گیا، شیخ مہدی عاکف کی طرح میری بھی لاش جیل سے نکلی۔۔۔شہید مرسی خدا کے حضور کہیں گے: کیا آپ کی زمین پر آپ کا نام لینا جرم تھا؟ کیا آپ کی مخلوق کے درمیان انصاف کرنا جرم تھا؟ کیا آپ کے گھروں کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرنا جرم تھا؟ کیا قرآن وحدیث پر عمل کرنا جرم تھا؟ کیا شریعت کا نفاذ جرم تھا؟ کیا حق بولنا جرم تھا؟ کیا میں مجرم ہوں؟
تب منصف اعلیٰ کے حضور فریق ثانی ۔۔۔جنہوں نے صدر مرسی پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، وہ پیش کیے جائیں گے اور ان سے سوال ہوگا کہ بتاؤ تم نے ایسا کیوں کیا؟ تب ظالم، آمر، بدبخت، قابض حکمراں، فراعنہ مصر کی اولاد کٹہرے میں کھڑے ہو کر امریکہ واسرائیل اور ان کے ہمنواوں کو پکارے گا کہ مجھے بچاؤ، میری حمایت کرو، میں اکیلا پڑگیا ہوں ، مجھے فوجی کمک بھیجو، میرے لیے نام نہاد مسلمانوں کی بھیڑ اکٹھا کرو، میری حمایت میں بکے مفتیوں کے فتویٰ صادر کرواؤ، میرے لیے تلوے چاٹنے والے علما کے بیانات دلواؤ۔۔۔۔لیکن وہاں کوئی پکار نہیں سنی جائے گی ۔۔۔۔کوئی امریکہ واسرائیل مدد کو نہیں آئے گا۔۔۔۔ کوئی عالم بیان نہیں دے گا۔۔۔۔ کوئی مفتی فتوی نہیں داغے گا۔۔۔۔ کوئی بھیڑ حمایت میں اکٹھی نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔۔ اور منصف اعظم خود انصاف کریں گے مرسی وہاں بھی سرخرو ہوں گے اور ظالموں کے سر نگوں ہوں گے ۔ (ان شاء اللہ)
Comments are closed.