اندریش کمار کا دورہ دارالعلوم اور ہمارا فکری افلاس

مفتی اطھر شمسی

القرآن اکیڈمی کیرانہ

 

راشٹر یہ مسلم منچ کے سرپرست جناب اندریش کمار 20 جون 2019 کو دارالعلوم دیوبند کے دورہ پر پہنچے. ان کے ساتھ مولانا صہیب قاسمی، شائستہ پروین قومی صدر خواتین ونگ مسلم راشٹر یہ منچ و دیگر حضرات تھے. دار العلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا ابو القاسم نعمانی نے ان کا خیر مقدم کیا.راقم الحروف کو یہ خبر پہنچی تو میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ جس داعیانہ اختلاط کا میں گزشتہ بیس سالوں سے قائل رہا ہوں آج وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی دے رہا ہے.

 

اس خبر کے عام ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ایک جنگ چھڑ گئی. لوگ عجیب عجیب تبصرے اس پورے معاملہ پر کرنے لگے.لیکن پورے قصہ پر نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری قوم ایک قسم کے فکری افلاس کا شکار ہو کر رہ گئی ہے. بحث اس بات پر ہو رہی ہے کہ اندریش جی خود آئے یا انھیں بلایا گیا. اگر بلایا گیا تو دار العلوم کو ایسا کرنے کا حق تھا یا نہیں. یہ تمام تر گفتگو میرے نزدیک فکری افلاس کی علامت ہے. اندریش جی کی دار العلوم آمد سے کچھ اور ہو یا نہ ہو لیکن اس سے ہمارا فکری افلاس بالکل واضح ہو گیا ہے . مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ کس طرح کی لا یعنی بحثوں میں پڑا ہوا ہے ، یہ واقعہ اس کی بہترین مثال ہے.اندریش جی خود آیے یا انھیں بلایا گیا، آخر اس سے فرق کیا پڑتا ہے. انھیں دار العلوم پہنچنا تھا وہ پہنچ گئے. اصل سوال یہ ہے کہ اندریش جی سے بات کیا ہوئی؟

 

مکالمہ کے دروازے کھولنا کون سا گناہ ہے جو اس پر اتنا واویلا مچایا جا رہا ہے. زندہ قومیں ہمیشہ مکالمہ کرتی اور اپنی اسٹریٹجی پر نظرثانی کرتی رہتی ہیں. دشمنان اسلام کے ساتھ مکالمہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے. دعوت دراصل مکالمہ کا دوسرا نام ہے. اس لئے یہ کوئی موضوع ہی نہیں ہے کہ مکالمہ ہونا چاہیے یا نہیں. آپ مکالمہ نہیں کریں گے تو آپ کے پاس آپشن کیا ہے. اگر ہم مکالمہ نہیں کر سکتے ہیں تو ہم داعی امت ہونےکا جواز ہی کھو دیتے ہیں. امت مسلمہ کی حیثیت عرفی یہی ہے کہ یہ امت مکالمہ کرتی ہےاور اللہ کے بندوں کو اللہ کا پیغام پہنچا تی ہے. اگرےپیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ و السلام نے مکالمہ نہ کیا ہوتا تو شاید یہ دین ہم تک پہنچ ہی نہ پاتا. آپ علیہ السلام مکالمہ نہ فرماتے تو آج دین کا وجود ہی مشتبہ ہو جاتا. دین مکالمہ کی بدولت ہی محفوظ ہے. القرآن اکیڈمی کیرانہ اس اقدام کا بھرپور خیر مقدم کرتی ہے. ہاں، ماضی میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں ان پر داعیانہ انداز میں گفتگو ہونی چاہیے تھی. یہ کام اتنی دیر سے کیوں ہوا خیر خواہی اور ادب و احترام کے ساتھ اس پر سوال کیے جا سکتے تھے.جن لوگوں نے یہ کام بہت پہلے کیا ان کی حوصلہ شکنی کیوں کی گئی اس پر بھی جواب مانگا جا سکتا تھا لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ اس معاملہ میں گفتگو کے اصل موضوع کو ہی بدل دیا گیا. ساری بحث کا اصل موضوع یہ ہونا چاہیے تھا کہ مہتم صاحب اور اندریش کی اس ملاقات کا ایجنڈا کیا تھا؟ کیا اس موقع پر ہم نے اپنی داعیانہ ذمہ داریوں کو ادا کیا؟ کیا اس موقع پر انسانیت کے نام اللہ کا بھیجا ہوا پیغام ہم نے اس کے بندوں کو پہنچایا یا. کیا اس موقع پر مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی تعلیم و ترقی کے لئے ہم نے کچھ منصوبہ بندی کی ؟ اگر ہاں تو پھر سوال تھا کہ ہم اس مکالمہ کو جاری رکھنے کے لئے کیا پلاننگ رکھتے ہیں؟ اور اگر ملاقات کے دوران ہم نے یہ کام نہیں کیا تو پھر ہم نے کیا کیا ہے؟ نشستند گفتند برخاستند تو ایک داعی کا شیوہ نہیں ہوتا. میں امید کرتا ہوں کہ حضرت مہتمم صاحب اسی داعیانہ کردار کے ساتھ اندریش جی سے ملے ہوں گے. لیکن عجیب بات ہے کہ ان موضوعات پر گفتگو کے بجائے ہم ایسے سوالات میں الجھے ہوئے ہیں جو ہماری ترجیحات میں ہرگز شامل نہیں ہونے چاہئیں.ہماری گفتگو کا محور خود مکالمہ نہیں بلکہ مکالمہ کا رخ ہونا چاہیے جسے یکسر بھلا دیا گیا ہے. مکالمہ فطرت کا ایک حصہ ہے . اگر آپ اسے بالکلیہ بند کرنا بھی چاہیں تو فطرت اپنے زور پر اسے کھول دیتی ہے جیسا کہ مذکورہ بالا واقعہ میں ہوا ہے. انسانی سوسائٹی میں مکالمہ مستقل طور پر جاری رہتا ہے. آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مہتمم صاحب اور اندریش جی کی ملاقات سے جو راستے کھلے ہیں ان راستوں کو مزید کھولا جائے. ہر مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ مکالمہ کے راستے کھولے اور خدا کا دین ان تک پہنچا یے. دین خدا وند غیر مسلموں تک پہنچانا یہ دراصل ان کی آخرت کے مسائل کو حل کرنا ہے. اگر ہم لوگوں کی آخرت کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری سنبھال لیں تو لوگ ہمارے مسائل دنیا کی ذمہ داری خود سنبھالنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے. تاریخ اپنا یہی تجربہ بیان کرتی ہے. مسلمانوں کے مسائل کا اس سے بہتر کوئی حل نہیں ہو سکتا ہے.

Comments are closed.