باطل کی آنکھوں میں کھٹکنے والا ایک عظیم مرد آہن

بلال احمد کشن گنجی

متعلم جامعہ حسینیہ راندیر سورت گجرات

 

قارئین باوقار ! ڈاکٹر محمد مرسی شہید رحمۃ اللہ علیہ کلمہ حق کا علم بردار،دعوت و عزیمت کا عظیم نشان،اسلام پسند راہنما،عظیم المرتبت،بےخوف،جری و نڈر حق کا نمائندہ و ممتاز سالار و باہمت قائد تھے۔

ایک حافظ قرآن،خوش الحان قاری اور پابند شرع و حمیت اسلامی سے سرشار ایک حقیقی مسلم تھے،دینی تعلیم کےساتھ ساتھ دنیاوی اعلی ڈگریاں بھی لےرکھی تھی، مختلف جامعات سے تعلیم حاصل کرکے انجینئرنگ میں PHD بھی کیا،بڑے ذہین و فطین تھے اور کافی کامیابیوں سے مالامال ہوئے، پھرمیدان تدریس میں اپنا وجود تسلیم کروانے کے بعد سیاست اور قوم کی راہبری کو اپنا میدان عمل بنایا، جہاں انہیں کافی کامیابی و پزیرائی ملی،انکے سیاسی کارنامے بےشمار ہیں۔

 

انہوں نے اپنی پوری توانائی اسلام کی بالادستی،قرآن و سنت کے نفاذ اور اپنی روایات کی پاسداری کیلئے صرف کردی،ہمیشہ مسلم امہ کے وقار و عظمت رفتہ کی بازیابی کیلئے کام کیا۔

 

اسکے لئے انہوں نے جبر و تشدد کا راستہ نہیں اپنایا،بلکہ جمہوری و سیاسی میدان میں دشمن کا للکارا اور عوام کے انتخاب سے مصر کے پہلے جمہوری صدر چنے گئے،بھاری بہومت سے آپکو کامیابی ملی،اب مصر کو ایک ایسا صدر ملا،جس امام حسن البناء شہید رح کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کا عزم رکھتاتھا،قوم کا ہمدرد و غمخوار واقع ہواتھا،خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ایک بار پھر خلافت کےنظام کا قیام چاہتاتھا،انکی کامیابی سے عظیم انقلاب بپاہوا،اور عالم اسلام میں خوشی و شادمانی کی کہر دوڑ پڑی کہ اب خدا کی زمین پر خدا کا نظام ہوگا،ابوابِ ستم میں قفل زنی کی جائیگی،مظلوموں کی سسکیاں اب قہقہوں کی گونچ سے تبدیل ہوگی،ایک اچھا نظام قائم ہوگا،جو ظالموں سے نمٹنے اور دشمنوں کو سبق سکھانے کیلئے بنےگا،امن و سلامتی اور عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا؛ لیکن حیف صد حیف !

وہ مرد مجاہد جو مظلوموں کی امید کا کرن تھا،جس سے عالم اسلام کو شان و شوکت ملی،دشمنان اسلام (امریکہ،اسرائیل اور انکے اتحادیوں)کو کیون کر بھا سکتاتھا ؟ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ہی دنوں میں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ مرسی کی حکومت کا کایا پلٹ دیاگیا اور پھر مصر پر ظلم و جور کی وہ تاریخ دہرائی گئی کہ جسے نقل کرتے مؤرخ کی زبان بھی جواب دےجائے۔

 

ڈاکٹر مرسی شہید رحمۃ اللہ علیہ کا قصور کیاتھا ؟ کیوں انہیں اور انکی جماعت کے ساتھیوں کو اس قدر بےدردی سے شہید کیاگیا ؟ انکا قصود بس یہی تھاکہ انہوں نے فراعنہ مصر کےسامنے سرتسلم خم کرنے کے بجائے،نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اختیار کی،اسلام کی بالادستی اور نفاذ کیلئے جد و جہد کرتے رہے،عدالت،انصاف اور حق کی نمائندگی کرتے ہوئے،ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارتے،بیت المقدس کی بازیافت اور مظلوم فلسطینیوں کیلئے آواز بلند کرتے رہے،آپ امریکہ و اسرائیل کی چاپلوسی کرنے کے بجائے،خود مختار حکومت تشکیل دینے کے درپے ہوئے،عالم اسلام کے نظام کو ٹھیک ٹھاک اور نہج خلافت پر کرنا چاہتے تھے،دبنے،جھکنے،بکنے،خوف کھانے،پیچھے ہٹنے کے بجائے دشمن کو دہائی دیتے،ایمانی و دینی حمیت کا مظاہرہ فرماتے،مظلوموں کی آواز اور سسکتی مسلم امہ کی امید کا کرن تھے،مسقوط خلافت عثمانیہ پھر سے قائم کرنے کیلئے ملوکیت کے ٹھیکیداروں کے سامنے خلافت کا نعرہ بلند کرتے،کسی بھی لومت لائم کی پرواہ کئے بدون جہاد فی سبیل اللہ اور علاء کلمہ اللہ کیلئے کوشاں و سرگرداں تھے۔

یہی انکی بھول،یہی انکی بڑی غطی تھی کہ وہ خدا کی زمین پر اسی خدا کا نظام چاہتے تھے،جسے دشمن کب برداشت کرسکتاتھا ! پھر کیاتھا؟ وہی ہوا جسکا خدشہ تھا،امریکہ،اسرائیل ٗاور سعودی حکومت کو اسلام کا قیام راس نہ آیا،اور سب نے مل کر اس عظیم مفکر و مدبر اور دور اندیش درویش کی آواز کو دبانے کی کوشش شروع کردی، انکے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکا کر اپنے منصوبوں پر عمل درآمد ہوئے،حکومت چھینی،ظلم و ستم کا پہاڑ ان پر اور انکی جماعت پر توڑا،انکے سپنوں کا قلع قمع کیا،اس سے تسکین نہ ملی،تو بالآخر اس مرد مجاہد کو بےدردی سے شہیدکردیاگیا۔

 

گرچہ یہ حقیقیت ہےکہ مرسی جیسی شخصیات بار بار پیدا نہیں ہوتی،لیکن دشمن یہ نہ بھولے کہ

”رات جب کسی خورشید کو شہیدکرے

تو صبح ایک نیا سورج تلاش لاتی ہے۔“

 

مرسی شہید رح کی زندگی بہت ہی دلچسپ و قابل اسوہ ہے، وہ جھکنے،سر تسلیم خم کرنے،کمپرومائز کرنے کے بجائے،عزیمت کے نشاں بنےرہے،ظالموں (امریکہ،اسرائیل و اتحادی)کے خلاف بےباکی سے کام کرتےرہے،انکی حکومت میں ایک بھی میزائل مظلوم فلسطینیوں پر فائر نہیں ہوئی،اقوام متحدہ میں گرجے برسے،فراعنہ وقت کو للکار کر نفاذ نظام دین محمدی کی بات کی،سپرپاور طاقتوں سے بلاخوف و خطر ٹکرایا،جس کی پاداش میں ان پر اور انکی جماعت پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے،ستم ظریفی کی انتہا ہوگئی،مگر یہ عظیم انسان اپنے موقف و جد و جہد سے ٹس سے مس نہ ہوا،اخیری سانس تک دیوانہ وار قوم مسلم کی فلاح کیلئے لڑتارہا،محبوس رہ کر بھی اپنی صدائے حق بلند کرتارہا۔

 

ڈاکٹر مرسی ایک ولولہ انگیز خطیب بھی تھے،انکی تقاریر آیات و روایات سے معمور ہوتی، سوزِ دل،غمخوار زبان، انداز نرالا،اسلوب سخن دلکش و دل فریب ؛ اپنی آواز سے قوم کو جھنجھوڑتے،دشمن پر گرجتے،برستے، نسل نو کیلئے میدان عمل کی نشان دہی کرتے،مظلوموں کی آواز سے آواز ملا، دشمن –چاہے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو–کو دہانی دینا، آپکی تقاریر کا خاص حصہ ہے؛انکی زبان نے دشمن کی نیندیں اڑادی اور اپنوں کو خواب خفلت سے بیدار کردیا،کسی سے خائف ہوئے بغیر،مخص اعتماد الہی کے بل بوتے،اسلامی نظام کی بات کرتے،مختلف ایوانوں،حتی کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی جرءت و ہمت اور ایمانی جزبےکا مظاہرہ کرتے رہے۔

 

انکی تقاریر کے چند ایک اقتباسات پیش خدمت ہے :

(1)عوامی جلسے سے خطاب،بلکہ حلف برداری کرتے ہوئے،گویاں ہوئے :

”قرآن ہمارا آئین ہے،محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا راہنما ہیں،جہد فی سبیل اللہ ہمارا راستہ ہے،اور اللہ کی راہ میں مرجا جینا ہماری تمنا و خواہش ہے،اور سب سے اوپر اللہ کی خوشنودی ہمارامقصد زندگی ہے،یہ امت اللہ کی نمعت سے خوب لطف اندوز ہوگی،امت پھر سے گھڑی ہوگی،امت کیلئے خیر صرف اور صرف اسلامی شریعت (کےنفاذ میں)ہے؛ میں اللہ اور آپ سب سے حلف لینے سے پہلےایک اور حلف لیتاہوں کہ موجودہ آئین قطع نظر،اب ہمارا آئین اسلامی آئین ہوگا،ان شاء اللہ ہمارا آئین اللہ کی شریعت کی عکاسی کریگا،جوکہ مصر کے تمام علماء اسلام کا متفقہ اسلامی آئین ہوگا۔“

 

(٢)صدر منتخب ہونے کے بعد اقوامِ متحدہ کے پہلے اجلاس میں صدر مرسی رحمہ اللہ نے یہ تاریخی الفاظ فرمائے:

"جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرے گا،ہم اس کی عزت کریں گے اور جو ان کی عزت نہیں کرے گا،وہ ہمارا دشمن ہے.”

 

صدر مرسی کا تاریخی جملہ :

 

اپنے شیروں کو اپنے ہاتھوں قتل مت کرو۔۔۔

ورنہ دشمن کے کتے تمھیں نوچ ڈالیں گے۔

 

اخیری لمحہ: شہید مرحوم نے اپنی زندگی کے اخیری کئی سال محبوسی میں گزارے،انکے خلاف کئی بےاصل مقدمات درج ہوئے،مقصد بدنامی کرنے عزت نفس کو مجروح کرناتھا،ابھرتی،گونجتی صدا کو چپی لگاناتھا،زنداں میں بات تشدد تک جاپہونچی،اتنی طویل مدت اور اہل خانہ سےملنےکی بس چند دفعہ ہی ملاقات کی اجازت ملی،حتی کہ اپنے وکیل و معالج سے ملنے کو ترس جاتے؛ اور تواور گر کبھی عدالت میں پیشی ہوتی،تو ایسی گاڑی میں لائےجاتےکہ آپ اندر چیختے،چلاتے،قوم تک اپنی آواز کی رسائی کیلئے انتھک کوشش کرتےجاتے،افسوس کہ آواز باہر نکلنے کے سارے رستے بندہوتے،اور آپ کےسینے کادرد وہیں گونج کر ختم ہوجاتا؛ وہ کونسا ظلم ہے،جو آپ پر ڈھایا نہ گیاہو!

مرسی کے آخری کلمات!

 

’’جج صاحب! مجھے کچھ بولنے کی اجازت دیں، مجھے قتل کیا جا رہا ہے، میری صحت بہت خراب ہے، ایک ہفتے کے دوران میں دو دفعہ بے ہوش ہوا، لیکن مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا گیا۔ میرے سینے میں راز ہیں، جنہیں اگر ظاہر کروں، میں جیل سے تو چھوٹ جاؤں گا، لیکن میرے وطن میں ایک طوفان آئے گا، ملک کو نقصان سے بچانے کیلئے میں ان رازوں سے پردہ نہیں ہٹا رہا۔ میرے وکیل کو مقدمہ کے بارے میں کچھ پتہ نہیں اور نہ مجھے پتہ ہے کہ عدالت میں کیا چل رہا ہے۔‘‘

 

20 سیکنڈ کی اس گفتگو کے بعد سیدنا حسنؓ بن علیؓ کے پڑپوتے الشریف کا یہ مشہور زمانہ شعر پڑھا اور بے ہوش ہوکر گر گئے۔۔۔

بلادي وإن جارت علي عزيزة

وإن ضنوا علي كرامً

 

مرسی شہید نے قران پاک کے ایک نسخے کیلئے حکام کو درخواست پیش کی،جوکہ رد کردگئی۔۔۔۔اور نسخہ فراہم نہیں کیا گیا، وہ مسکرایا اور کہا :

"مجھے کلام اللہ پڑھنے کیلیے اسکی کتابی شکل کی ضرورت نہیں،وہ تو پورا میرے دل میں سمایا ہے۔۔۔میں صرف قران پاک کو چھونا اور اسے محسوس کرنا چاہتا تھا”

۔

یہ الفاظ ادا کرنے والا سابق مصری صدر محمد مرسی انتقال کرگئے۔

اناللہ وانا الیہ راجعون

 

قوم کو سبق دے گئے کہ:

 

بھلے لگتے ھیں طوفانوں سے لڑتے بادباں مجھ کو

ھوا کے رخ پہ چلتی کشتیاں اچھی نہیں لگتی.

 

اور بزبان حال کہ گئے :

میں جھکا نہیں ،میں بکا نہیں ،کہیں چھپ چھپاکے کھڑا نہیں

جو ڈٹے ہوئے ہیں محاذ پر مجھے ان صفوں میں تلاش کر!

 

بھائیو! موت سے کہیں دردناک مرسی کی تدفين ہے،مرسی کا جسد خاکی تدفين کیلئے فوج کی نگرانی میں خفیہ جگہ پر لیجایاگیا،صرف بیٹے اور وکیل کی شرکت کروائی گئی،اہلیہ محترمہ کو آخری دید تک کرنے نہ دیاگیا، اس عالی ہمت خاتون کا جملہ تاریخ نے محفوظ کیا،کہنے لگی : ”میت کیلئے ظالموں کی منت کرکے اپنے شوہر کو شرمندہ نہیں کرونگی۔“(بیگم نجلا مرسی )

اتنی بزدلی کہ سیسی مردہ مرسی سے کانپ رہاہے اور رات کی اندھرے میں انکو نامعلوم مقام میں دفن کر دیا۔

 

ہم صلیبوں پہ چڑھے، زندہ گرے،پھر بھی بڑھے

وادی مرگ بھی منزل گہہ امید بنی

ہاتھ کٹتے رہے مشعلیں تابند رہیں

رسم جو تم سے چلی باعث ِ تمہید بنی

شب کے سفاک خداؤں کو خبر ہو کہ نہ ہو

جو کرن قتل ہوئی شعلہء خورشید بنی۔

 

حضرات ! ڈاکٹر محمد مرسی صاحب کو مغربی طاقتوں نے سی سی کے زریعے اقتدار ختم کروایا اور جھوٹے مقدمات میں نامزد کیا جس سے نہ جانے کیسی ک

 

یسی اذیتیں برداشت کرنی پڑی لیکن مغرب یہودو نصاری یاد رکھے محمد مرسی کو دنیا فانی سے تو رخصت کروا دیا لیکن عالم اسلام کے دلوں سے نہیں نکال سکتے۔

اللہ کریم ڈاکٹر محمد مرسی حفظہ اللہ صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین

Comments are closed.