آر ایس ایس سے ڈائیلاگ اب ضروری کیوں؟

مہدی حسن عینی

آزادی کے بعد کے ۷۵ سال ہم نے کانگریس کی بندھوا غلامی کرتے ہوئے آر.ایس.ایس کی مخالفت کی،ہمیشہ اس سے نفرت کا اظہار کیا اور اسے اپنے لئے اچھوت سمجھا،جب کہ غور کریں تو ہمارا یہ عمل بحیثت ایک قوم کے نا تو دعوت کے نقطہ نظر سے درست تھا اور نا ہی ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے.
ہماری مخالفت کی شدت نے آر.ایس.ایس کو پنپنے اور اکثریت کو متحد کرکے اس ملک کے دل و دماغ پر قبضہ کرنے کا موقع دیا.
بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا ہمیں مجموعی طور پر وہیں کچھ فیصلے لینے چاہئے تھے تاکہ سیکولرزم کے نام پر ہماری سیاسی غلامی کا خاتمہ ہوتا،
لیکن ہم مصلحت کو بنیاد بناکر ہوا کی رخ کے ساتھ چلتے رہے.
نتیجہ میں نیشنلزم اور راشٹرواد کا فلسفہ اس ملک پر غالب آگیا،اس ملک میں ہم سب سے بڑے نیشنلسٹ ہیں لیکن آر.ایس.ایس نے ہماری ان کی نظریاتی و جماعتی مخالفت کو نیشن،ملک اور ہندو دھرم کی مخالفت قرار دیتے ہوئے ہمیں اکثریتی طبقہ کی نگاہ میں ویلن بنادیا.
اٹل بہاری واجپئی کے دور میں ایک موقع تھا،ہم ڈائلاگ کا سلسلہ شروع کرسکتے تھے،
ہماری اعلی قیادت ایک پالیسی بناتی اور سنگھ کی اعلی قیادت سے بات چیت شروع کرتی،ہم داعی تھے،ہمیں اقدام کرنا چاہئے تھا،ہمیں ملک کے ۱۲۵ کروڑ کا دل جیتنا تھا،مولانا محمود مدنی صاحب کی جانب سے کچھ کوششیں ہوئی ضرور لیکن انہیں غداری کا تمغہ دیا گیا اور ہم ہر محاذ پر فیل ہوتے چلے گئے،
منموہن سرکار کے دس سال ہمارے لئے بہترین موقع تھے،
لیکن پھر بھی ہم نے اس خلاء کو پر نہیں کیا،ادھر آر.ایس.ایس کی سیاسی ونگ بی.جے.پی ملک کے دستور کے سامنے مجبور تھی اور اس کو ملک پر حکومت کرنے کے لئے خود کو سیکولر ثابت کرنا تھا،گجرات فسادات اس کے دامن پر بدنما داغ تھے.
اس لئے مسلمانوں کو قریب کرنے کا ایک ناٹک کھیلنا ضروری تھا.
آر.ایس.ایس کو ہماری درماندگی کا احساس تھا نتیجہ یہ ہوا کہ اس خلاء کی بھرپائی کے لئے آر.ایس.ایس نے کئی اقدامات کئے،ہماری اعلی قیادت نے قوم کے ڈر سے اور مصلحت کے پیش نظر متشدد دائیں محاذ سے دوری بنائے رکھا،تب آر.ایس.ایس نے اس کاز کے لئے داڑھی ٹوپی والے کچھ مولوی نما لوگوں کو اپنا بناکر ایک تنظیم "مسلم راشٹریہ منچ” کی بنیاد ڈالی اور اپنے ایک خاص وچارک کئی بم دھماکوں کے ملزم اندریش کمار کو اس کی کمان دی.
مسلم راشٹریہ منچ بڑی خاموشی کے ساتھ 15 سال سے کام کررہی ہے،ان کا بنیادی مقصد مسلمانوں میں راشٹرواد اور حب الوطنی کے نام پر تفریق پیدا کرکے انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرنا،اسلام کے ایسی تعلیمات جن کا تعلق نقل سے ہے جن میں عقل کے گھوڑے دوڑانے سے آدمی گمراہ ہوجاتا ہے ان کے سلسلہ میں مسلمانوں کے ذھنوں میں شک و شبہ پیدا کرنا.
تیسرا مقصد اختلاط کو فروغ دینے کے مقصد سے بین المذاھب شادیوں اور تعلقات کو بڑھاوا دینا.
ان تمام مقاصد کے حصول کے لئے مسلم راشٹریہ منچ نے امن و شانتی کے پیغام کو اپنا ہتھیار بنایا،
حقیقی صورت حال سے ناواقف کچھ مسلمان اور مختلف مدارس سے فارغ ہونے والے چند بے روزگار مولوی نما نوجوان اس تنظیم کا پیادہ بن گئے.
2004 میں تنظیم کے آغاز پر اندریش کمار دیوبند آئے تھے اور اب ایک ایسے موڑ پر آئے ہیں جب وزیر اعظم نریندر مودی نے سب میں وشواس کا نعرہ دیتے ہوئے مسلمانوں کو اپنا ووٹ بینک بنانے کا بگل بجادیا ہے.
طلاق ثلاثہ بل کو مسلم خواتین کے حق میں مارکیٹنگ کرکے مسلم پسندی کا ثبوت بھی دے دیا ہے،
مختلف اسکیموں کے اعلانات نے بھی بی.جے.پی کی جانب عام مسلمانوں کا رجحان بڑھایا ہے،
اندریش کمار کی دیوبند آمد کو حادثاتی واقعہ گرداننے والے اگر سیاسی منظرنامہ پر نگاہ ڈالیں تو وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک طبقہ بی.جے.پی میں جانے کے لئے ایک پلیٹ فارم چاہتا ہے
اور مسلم راشٹریہ منچ میں شامل مولوی نما لوگ اس تنظیم کو بطور پلیٹ فارم پیش کرتا آئے ہیں اسی لئے بہت جلد دیوبند کی ملاقات کو کیش کرانے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا.
ایک جمہوری ملک میں بطور ووٹر بی.جے.پی کا حصہ بننے سے کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے،لیکن خاموشی کے ساتھ آر.ایس.ایس کی آئیڈیالوجی کو پورے ملک اور مسلمانوں پر تھوپنے کی کوشش ایک لمحہ فکریہ ہے جس کا سد باب فوری طور پر ضروری ہے.
اور اس کا ایک ہی راستہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اعلی قیادت اپنی اور سے اسٹریٹجی طے کر کے ڈائلاگ کا آغاز کرے اور آر.ایس.ایس کے رہنماؤوں سے علی الاعلان ملاقات کرکے ملک اور مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں کھل کر بات کرے.
ہماری قیادت ناگپور جانے کی جرات دکھائے،
پھر اگر آر.ایس.ایس اپنے بانی پنڈت ہیڈگوار،گولولکر اور ساورکر کے نظریات پر چلتے ہوئے مسلمانوں کو نیشنلسٹ و راشٹروادی ماننے سے انکار کرتی ہے تو ہماری اور سے اتمام حجت ہوجائے گا اور اگر اس کے برعکس ہوا تو نفرت کی سیاست و مذھب کے بنیاد پر تفریق کے نظریہ پر قائم آر.ایس.ایس کی سو سالہ عمارت مسمار ہوجائے گی اور ملک کے ۱۰۰ کروڑ ہندو کھلی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کریں گے.
اور آر.ایس.ایس جیسی جماعت کے لئے نظریاتی شکست اس کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہوگا.

Comments are closed.